السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قیام نماز میں مقتدیوں کو پیر کے انگوٹھے سے انھوٹھا ملانا اورایک شانے سے دوسرا شانہ ملانا تو چاہیے۔ لیکن رکوع سجود کے وقت پر جب اپنی جگہ سے فرق ہوجاتاہے۔ تودوسری رکعت میں قیام کے وقت پیر کو سر کا کر ملالینا کیا ہےیہ فعل کبیرہ میں داخل ہے۔ کہ نہیں اوراس فعل سے نماز میں ہرج ہونا واقع ہوتا ہے کہ نہیں۔ یا خوامخواہ ملاناکوئی ضروری امر ہے۔ لوگوںکا بار بار پیر کا سرکانا ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔
"كان احدنا يلزق منكبه يمنك صاحبه وقد مه بقدمه" (صحیح بخاري ص 100)
’’یعنی صحابی کہتا ہے ہم اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا پیر اپنے ساتھی کے پیرسے ملایا کرتے تھے۔‘‘ یہ طریق سنت ﷺ ہے۔
ہاں ضروری امر ہے اس لئے کہ فصل میں درمیان میں شیطان آجاتا ہے۔ یہ خوامخواہ کے ڈھکوسلے وہی وسوسے لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ یہ امر ضروری نہیں کیا کرو گے۔ اس سے اس کا کام بنتا ہے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ بحالت جماعت میں بیچ میں فصل نہ چھوڑو فرمایا۔
"اقيموا صفوفكم وتراصوا الحديث" (رواه البخاري مشكواة ص 9)8
اس پر صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمیعن نے عمل کیا۔ جو موکانا نے نقل کیاہے۔ اور ہرج کچھ بھی نہیں سمجھ کا پھیر ہے۔ اورحجت بازی ورنہ اکیلا نمازی بھی تو بعد سجدہ پائوں کو باقاعدہ کرتا ہے۔ ویسا ہی جماعت میں کرسکتاہے۔ اوراگر پہلے سے ہی برقرار رکھے توبھی رکھ سکتا ہے۔ یہ اور بھی اچھا ہے وَاللَّهُ يَهدى مَن يَشاءُ إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ ﴿٢١٣﴾
(ابو سعید شرف الدین دہلوی)
پرچہ اہل حدیث نمبر 6 میجریہ 21 جون 1935ء سے الزاق القدمین کا مضمون مولوی محمد کی جانب سے تخمینا تین پرچوں میں شائع ہوا۔ متبع سنت کے لئے تواس پر کسی قسم کے اقوال کی ضرورت نہیں۔ مگر ہمارے محترم فریق مقابل بقول امام رازی و ابن تیمیہ و ابن لقیم اگر آیات قرآنیہ اور احادیث اصح الکتاب بھی پیش کی جاویں۔ التفات نہ کریں گے حتی کے ان کے معتقد ومستند کو نہ پہنچے۔ اور یہ امر بدیہی ہے۔ آدمیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ صفوں میں مل کر کھڑا ہونا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ میرے علم میں کسی ایک آدھ حنفی متقدم سے بھی اس کا خلاف ثابت نہیں۔ سب کے سب اس امر پر متفق ہیں۔ یہ کتب متد اولہ فقہ و مشروعات فقہ شب وروز مزاولت کی جاتی ہیں کسی ایک میں اس کے برعکس دکھانے کی کسی کو جرائت ہے۔ یہ مرض ایسا مرگ عام کی طرح پھیلا ہواہے۔ کہ جس میں جاہل تو ایک طرف رہے۔ علماء بھی مبتلا ہیں۔ جیسے انسان اچھوتوں سے اپنے جسم کو محفوظ رکھتا ہے۔ اور علیحدہ سرک جاتاہے۔ جہاں کسی انسان نے پیر لگایا جھٹ اچھل ہاتھ بھر دور جاپہنچے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ خادم نبوی فرماتے ہیں ہم صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمیعن آپس میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور قدم سے اپنا قدم ملا ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔ آپ کے زمانہ میں جیسا کہ بخاری باب الزاق المنک میں ہے۔ مستخرج اسمٰیلی میں اس حدیث میں اتنے الفاظ وارد ہیں۔ تتمہ کے طور سے چنانچہ فتح الباری ص 176 ج2 میں ہے۔
لو فعلت ذلك با حدهم اليوم لنفر كانه بغل شموس
اگر آج میں یہ فعل ان کے ہمراہ کرتا ہوں۔ تو اس طرح بھاگتے ہیں جیسا کہ سرکش خچر۔ اپنے گریبان میں ہرکس منہ ڈال کربتا سکتا ہے کہ یہ فعل کس درجہ مذموم ہوگا۔ حالانکہ امام محمد کتاب الآثار ص21 باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں۔
''ابراہیم نخعی فرماتے ہیں۔ صفیں اورشانہ برابر کرو۔ اورگچ کرو ایسا نہ وہ کہ شیطان بکری کے بچے کی طرح تمہارے درمیان داخل ہوجائے امام محمد کہتے ہیں ہم بھی اس کو لیتے ہیں۔ صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں حتیٰ کے ان کو درست نہ کرلیاجاوے۔ اور یہی ابوحنیفہ کا مذہب ہے۔
شمنی کراس نے شرح نقایہ میں نیزبحراالرائق ورق نمبر 262 عالم گیریہ مطبوعہ کلکتہ ص 122 در مختار مع الشانی ص 593 ہے۔
"ينبغي للما مومين ان يتراصواوان يسدوا لخلل في الصفوف وان يسووامناكبهم وينبغيللامام ان يامرهم بذالك وان يقف وسطهم وفي الفتاوي التا تار خانيه واذا قاموافي الصفوف تراصواوسووابين منا كبهم"
یعنی مقتدیوں کو چاہیے کہ چوناگچ کریں۔ درزوں کو صفوف میں بند کردیں۔ اور شانوں کو ہموار رکھیں۔ بلکہ امام کو لائق ہے کہ انہیں اس امر کا حکم کرے۔ پھر بیچ میں کھڑا ہو۔ فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ جب صفوں میں کھڑے ہوں تو گچ کریں۔ اورکندھے ہموار کرلیں۔ شامی ص595 ج1 میں ہے۔ کہ اگر آدمی دوسری صف میں ہے اور پہلی میں ایک آدمی کی جگہ ہے۔ توچل کرپہلی میں اس خالی جگہ کو پر کردے۔ نماز میں کچھ خرابی نہیں آئے گی۔ "لانه مامور بالمراصة قال عليه السلام تراصواالصفوف ذكره عن الذخيرة شامی خلل" کا ترجمہ فرماتے ہیں۔ هوا الفراج بين الشيئين یعنی دو چیزوں میں جوفاصلہ اور شگاف ہوا اسے کہتے ہیں منتی الارب ص 504 ج1 میں ہے۔ خلل محرکہ کشادگی میان دو چیز ہے۔ (اہل حدیث امرتسر 20 جمادی الثانی 1354ہجری)
2۔ اس جگہ ہم قدرے رشحات صف کے آداب میں احادیث نبویہ سے تحریر میں لائے ہیں۔ جس سے مسنونیت گچ۔ اورصفوں کے نزدیک اور برابر کرنے کی بھی تکمیل ہوجاوے۔ فاضل شارح تین امر میں قلم فرسائی کا ارادہ کرتے ہوئے ہرسہ ادعائوں کو مدلل باحدیث نبویہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"ففي صحيح ابن خزيمة عن البراء كان عليه الصلوة والسلام ياتي فاحية الصف فسوي بين صدور القوم ومناكبهم ويقول لا تخبتلفوا فتختلف قلوبكم ان الله و ملئكته يصلون علي الصف الاول"
براء بن عازب سے صحیہح ابن خزیمہ میں ہے۔ آپ صف کے کناروں سےآتے اورلوگوں کے سینہ اوسر کندھوں کو ہموار کرتے اور فرماتے کہ آگے پیچھے نہ ہو ایسا نہ ہوکہ اللہ تمہارے دلوں میں اختلاف ڈال دیوے۔ یہ شق ثالث کی دلیل بیان کی۔
"وروه الطبراني حديي علي عليه الصلوة والسلام قال الا تصفون كما تصف الملائكة عند ربها قال اتمو ا الصفوف الاول وترصون في الصف وفي رواية للبخاري فكان احدنا يلزق منكبه بنمكب صاحبه وقد مه بقد مه "
’’طبرانی میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ مرفوعا آپ نے فرمایا تم ملائکہ جیسی صف کیوں نہیں بناتے۔ جس طرح وہ اپنے پروردیگار کے حضور میں بناتے ہیں۔ صحابہ رضوان للہ عنہم اجمیعن نے دریافت کیا۔ وہ کس طرح توفرمایا وہ اول صف کو پورا کرتے ہیں وہ صف کو گچ کرتے ہیں۔‘‘ اس گچ کی توضیح کے لئے فاضل شرح بخاری کی روایت بیان کرتے ہیں۔ کہ بخاری میں ہے کہ ایک ہمارا کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے اور پیر کو اس کے پیر کے ساتھ ملاتا تھا۔ یہ نمبراول اور ثانی کی دلیل ہے۔ اور فرمایا !
"وروي ابوداود والامام احمد عن ابن عمر انه عليه الصلوة والسلام قال اقيموا صفوفكم وحازوا بين المنا كب وسدوا الخلل ولينوا بايدي اخوانكم لاتزروا فرجات الشيطان من وصلصفا وصله الله ومن قطع سفا قطعه الله وروي ابزار باسناد حسن عنه عليه الصلوة والسلام من سدا فرجة في الصف غفر الله له وفي ابي داود عنه عليه الصلوة والسلام قال خياركم الينكم مناكب في الصلوة"
’’ابو داؤدوامام احمد میں ابن عمر سے مرفوعا ہے آپ نے فرمایا صفیں قائم کرو اور کندھوں کو برابر کرو ار جو سوراخ دو ک ےدرمیان ہوا سے بند کرو اوراپنے بھایئوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور شیطان کے لئے سوراخ کی جگہ نہ چھوڑو۔ جس نے صف کو ملایا خدا اس کو بھی ملادےگا۔ اور جو صف کو قطع کرے گا۔ خدا اس کو بھی قطع کرے گا۔ بزار میں حسن مسند سے ہے کہ جس نے صف ک دراز کو بند کیا خد اس کو بخشے ابو داؤد میں ہے۔ تم میں بہتر وہی ہے۔ کہ نماز میں کندھوں کو ملائے آپس میں رکھے‘‘ منتی الارب ص 411 ج1 میں ہے۔ "فرجة بالضم رخنہ و شگاف من فرجة الحائط" یہ تینوں کی تایئد میں بیان کي۔ مولانا اشرف علی تھانوی۔ بہشتی گوہر تتمہ حصہ دوم کے ص 59 16 میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’صف میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑا ہونا چاہیے درمیان میں خالی جگہ نہ رہناچاہیے۔ ‘‘
مولانا شیخ عبد الحق دہلوی ۔ شرح مشکواۃ فارسی باب تسویہ الصف میں فرماتے ہیں۔ مراد تبسویہ صف آنست کہ متصل بادستند ، ورمیان فرجہ نگداز اند وپس پیش نہ ایستندو ہموار بایستند (4اکتوبر 1935ء) میرے علم تو کسی ایک آدھ حنفی المذہب کے متقدمین سے اس کے خلات ثابت نہیں۔ بڑے بڑے محقق فقیہوار باب الترجیح نے اس امر کو بالکل واضح کردیا۔ نہ معلوم کے عمل میں کیوں قاصر اہل مذہب پائے جاتے ہیں۔ کیا مولانا اشرف علی کا فرمان واضح نہیں کہ مل کر کھڑے ہونا چاہیے درمیان میں جگہ نہ رہنا چاہیے۔ اس سے بھی کوئی واضح لفظوں کی ضروررت ہوسکتی ہے۔ اگر ہمارے علماء احناف ان نصوص فقیہ پر بذات خود عمل کر کے ان عوام کو دکھادیں۔ تو امید ہے۔ کہ یہ نفررتان ک دلوں سے بالکلیہ طور سے زائل ہوجاوے۔ اس وقت تو کیا علماء کیا جہلا مسجدوں میں نماز کے وقت جا کردیکھئے کہ صف کی کیسی مٹی پلید کی جاتی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے۔ مسلمانی در گوریا در کتاب کیا کوئی فرد یہ کہ سکتا ہے کہ اس مسئلے میں ان بے چاروے فقہا ء کا کچھ قصور ہے۔ حاشا ولا کلا۔ بلکہ یہ خلف نااہل کے کرشمہ کا منظر ہے جو نمازوں کو برباد کراتے ہیں۔ اوراپنی بھی کرتے ہیں۔ ۔ اقامۃ الصفوف کو تمام صلواۃ فرمایا ہے۔ رصوا بصیغہ امر ارشاد ہے۔ اس کی بڑی شدو مد سے وعید شارع علیہ الصلواۃ والسلام سے وارد ہے۔ ہر فرد مدعی علم متبع امام ابی حنفیہ سےھ ملتمس ہوں کہ آپ حضرت بیک زبان یہ فرمایئں کہ یہ ہماری کتابوں میں غلط لکجھ دیا گیا ہے۔ اور صحیح وہی ہے کہ جس پر ہمارا عمل در آمد ہے۔ اور اس کی صحت پر فلاںفلاں کتاب کی فلاں فلاں عبارت فلاں فلاں فقیہ و امام کی نص موجود ہے۔ عدم ترصیص میں والا خود بھی عامل ہوں۔ اورلوگوں کو بھی عمل کی تعلیم دیں۔ بے چارے جاہل تو اچھوت سے زیادہ علیحدہ کھڑے ہونے کو پسند کرتے اور مل کرکھڑے ہونے سے نفرت بلکہ لڑنے مرنے پر مستعد ہوجاتے ہیں۔ خاص بمبئی میں ایک مولوی صاحب کو صرف اسی جرم پر کہ انہوں نے مل کر کھڑے ہونے کو فرمایا تھا۔ ضرب شدید سے بعد نماز مرمت کی کہ انہیں چار وناچار ارادہ حج فسخ کرکے وطن سدھارنا پڑا اور وہیں اس صدمے سے دارالبقا کا سفر کرنا پڑا۔ مولانا ہی حنفی مذہب کے آدمی تھے دوست تک دشمن ہوگئے۔ یہ فرمایئے خون کا زمہ دار کون یہی حضرات علماء ۔ ۔ ۔ وااللہ علی ما نقول وکیل ھو حسبی ونعم الوکیل(ابو عبد الکبیر محمد عبد الجلیل السامرودی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب