سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(272) بے نمازی کا جنازہ قبرستان میں دفن کرنا

  • 6060
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2766

سوال

(272) بے نمازی کا جنازہ قبرستان میں دفن کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بے نمازی مسلمان ہے یا کافر اور جنازہ پڑھنا اور اس کی لاش مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا چاہیے یا نہیں۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تارک الصلواۃ کے حق میں علماء کا اختلاف ہے ۔ بہت سے علماءجن میں شیخ عبد لقادر جیلانی قدس سرہ اور حافظ ابن قیم وغیرہ  بھی ہیں تارک الصلواۃ کو کافر یا مرتد اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پر نماز جنازہ  پڑھنا اور اس کومسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز نہیں۔ ان کے سوا اور بہت سےعلماء ہیں۔ جن میں امام ابو حنیفہ  اور ان کے ہم خیال علماء ہیں۔ تارک الصلواۃ کو فاسق فاجر سخت مجرم قرار دیتے ہیں۔ لیکن کافر مرتد نہیں کہتے ہیں۔ حدیث شریف جو تارک الصلوۃ کے حق میں آئی ہے۔ فقد کفر (یعنی وہ کافر ہے) پہلے گروہ کی  دلیل ہے ۔ دوسرے گروہ کی اور دلیلیں ہیں۔ اور خاکسا کی تحقیق پچھلے گروہ سے متفق ہے۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بے نمازی مسلمان ہے یا کافر اور جنازہ پڑھنا اور اس کی لاش مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا چاہیے یا نہیں۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تارک الصلواۃ کے حق میں علماء کا اختلاف ہے ۔ بہت سے علماءجن میں شیخ عبد لقادر جیلانی قدس سرہ اور حافظ ابن قیم وغیرہ  بھی ہیں تارک الصلواۃ کو کافر یا مرتد اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پر نماز جنازہ  پڑھنا اور اس کومسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز نہیں۔ ان کے سوا اور بہت سےعلماء ہیں۔ جن میں امام ابو حنیفہ  اور ان کے ہم خیال علماء ہیں۔ تارک الصلواۃ کو فاسق فاجر سخت مجرم قرار دیتے ہیں۔ لیکن کافر مرتد نہیں کہتے ہیں۔ حدیث شریف جو تارک الصلوۃ کے حق میں آئی ہے۔ فقد کفر (یعنی وہ کافر ہے) پہلے گروہ کی  دلیل ہے ۔ دوسرے گروہ کی اور دلیلیں ہیں۔ اور خاکسا کی تحقیق پچھلے گروہ سے متفق ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 465

محدث فتویٰ

فتاویٰ  ثنائیہ

جلد 01 ص 465

محدث فتویٰ

تبصرے