السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں سینے پر ہاتھباندھنے کی مذید تحقیق
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1"عن قبيصه بن هلب عن ابيه قال رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يسارهورايته يضع يده علي صدره الخ"
’’قبیصہ بن ہلب سے روایت ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہﷺ کو نماز سے فارغ ہونے کے بعد دایئں بایئں طرف پھرتے اور نماز میں سینہ پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا‘‘ (مسند احمد بن حنبل) ؒ
2"عن وائل بن حجر قال صليت مع رسول الله صلي الله عليه وسلم فوضع يده اليمني علي يده اليسري علي صدره"
’’یعنی وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی توآپ نے بایئں ہاتھ پر سیدھا ہاتھ سینہ پر رکھا۔‘‘ (صحیح ابن خذیمہ)
فائدہ۔ یہ حدیث بمقابل حدیث زیر ناف زیادہ صحیح اور موثق ہے چنانچہ علامہ عینی حنفی جو اپنے مذہب کی تایئد میں بڑے مستعد ہیں۔ اپنی شرح بخاری عمدۃ القاری میں اعتراف فرماتے ہیں۔
"احتج الشافي بحديث وائل بن حجر اخرجه ابن خزيمة في صحيحه قال صليت مع رسول الله صلي الله عليه وسلم فوضع يده اليمني علي يده اليسري علي صدره ويستدل لعلمائنا الحنفية بدلائل غير وثيقة "
یعنی امام شافعی ؒ نے وائل والی حدیث سے حجت پکڑی ہے۔ جسکو ابن خذیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ ـ(اور وہ روایت یہ ہے کہ) میں نےرسول اللہ ﷺ کے ساتھ نمازپڑھی تو آپ نے اپنا سیدھا ہاتھ بایئں ہاتھ پر رکھا۔ اورسینہ پر باندھا اورہمارے علماء حنفیہ ایسے دلائل سے حجت پکڑتے ہیں۔ جو موثق نہیں ہیں۔ (عمدۃ القاری) اور ابن امیر الحاج حنفی شرح منیہ میں بایں الفاظ معترف ہیں۔
"ان اثبات من السنة وضع اليمين علي الشمال ولم يثبت حديث تعين المحل الذي يكون فيه الوضع ن البدن الا حديث وائل ملخصا"
یہ بات ثابت ہوگی ہے کہ سیدھا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا سنت ہے۔ مگرایسی کوئی حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی جس کی رو سے بدن کے کسی خاص مقام پر ہاتھوں کا رکھنا واجب ہوسوائے وائل کی حدیث کے (وضع الايدي علي الصدر) علاوہ ازیں وائل بن حجر کی حدیث ابن خذیمہ کی ہے۔ اورابن خزیمہ کو احادیث میں جو وقعت اور جو درجہ حاصل ہے۔ مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور علامہ جلال الدین سیوطی کہ بیان سے ظاہر ہے۔ چنانچہ مولانا موصوف رسالہ فیما یحب للناظر میں علامہ جلال الدین سیوطی جمع الجوامع میں تحریر فرماتے ہیں۔ کہ احادیث رسول اللہﷺ میں جو کتابیں تصنیف ہوئیں انکے پانچ مراتب ہیں۔ ایک تو اس مرتبہ کی ہیں جن میں فقط صحیح صحیح حدیثیں ہیں۔ اس میں ایسی حدیثیں نہیں ہیں جنکو ضعیف کہہ سکیں موضوع کا تو کیازکر ہے۔ مثلا موطا صحیح بخاری۔ صحیح مسلم۔ صحیح حاکم۔ مختار ضیا مقدس کی صحیح ابن خذیمہ ۔ صحیح ابن عوانہ۔ صحیح ا بن سکن۔ منتقی ابن بارود کی ملخصا۔
لہذ ا اس حیثیت سے بھی ہماری پیش کردہ احادیث صحیح ابن خزیمہ لائق استدلال اور قابل عمل ہے۔ پس جبکہ ازروئے دلائل ساسطعہ و براہین قاطعہ۔ یہ بات مسلم ہوچکی کہ سینہ پر ہاتھ باندھنا موثق اور صحیح ہے۔ اور بالمقابل اس کے کہ حدیث زیر ناف موثق نہیں ہے۔ تو حضرات اہل سنت والجماعت کو چاہیے کہ حکم رسول اللہﷺ کی طرف اپنی طبعیت کو منعطف کریں۔ کیونکہ حق واضح ہوجانے کے بعد ضداور تعصب کی وجہ سے اپنی خواہش کی پیروی کرنا ایمان کے منافی ہے۔
"كما قال رسول لله صلي الله عليه وسلم لا يومن احد كم حتي يكون هواه تبعا لما جئت به"
’’آپﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہوسکتا۔ جب تک اپنی خواہشات کو میری شریعت کا تابع نہ کردے۔‘‘ (شرح سنۃ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب