سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) سینے پر ہاتھ وغیرہ باندھنے کے مباحث

  • 6032
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 795

سوال

(244) سینے پر ہاتھ وغیرہ باندھنے کے مباحث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت محمد رسول اللہﷺ زندگی سے تا وفات شریف نماز میں ہاتھ سینے پر باندھتے اور پھررفع الیدین کرتے اور آمین بالجہر فرماتے رہے یا نہیں الخ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سینے پر ہاتھ باندھنے اور رفع الیدین کرنے کی روایات بخاری مسلم اور ان کی شروع میں بکثرت ہیں۔ ان دونوں فعلوں کو ناجائز کہنا صحیح نہیں۔ علماء حنفیہ مثلا مولانا عبد الئی لکھنوی مرحوم اور مولانا رشید احمد گنگوہی مرحوم بھی ان کے قائل تھے۔

شرفیہ

دوام کے سوال کاجواب یہ ہے کہ اگر رسول اللہﷺ نے نفس نمازپڑھنے پر دوام کیا ہے اور یقینا ً کیا ہے۔ تو پھر ان امور مذکورہ بالا پر جو احادیث متفقہ سے ثابت ہیں دوام  ان کا بھی ثابت ہے۔ ورنہ تفریق بذمہ مدعی ہے۔ فعلیہ البیان بالبرہان از دونہ خرطالقتاد اورسینہ پر ہاتھ باندھنے کی حدیث بحوالہ صحیح ابن خذیمہ بلوغ المرامیں بھی ہیں۔ (ابوسعید شرف الدین دہلوی)

تشریح

از قلم حجرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری علمائے اہل حدیث نماز میں سینہ پر ہاتھ رکھنے کے ثبوت میں تین حدیثیں پیش کرتے ہیں۔ پہلی حدیث ان کے نزدیک صحیح مرفوع متصل اور غیر معلل اورغیرشاز ہے۔ جوصحیح ابن خزیمہ میں بلفظ

"فوضع يده اليمني علي يده اليسري علي صدره" مروی ہے۔

حافظ ابن حجر ۔ دریہ ۔ بلوغ المرام۔ وغیرہ میں اور حافظ زیلعی نصب الرایہ جلد اول ص 164 میں اوردوسرے مصنفین اپنی کتابوں میں اس حدیث کو ابن خذیمہ کی روایت بتاتے ہیں۔ لیکن اس کی سندنقل نہیں کرتے۔ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ (حضرت عبد الرحمٰن صاحب مباررک پوری ؒ کے نزدیک بظاہر صحیح ابن خزیمہ کی یہ حدیث حسب زیل سند سے مروی ہے۔

"عن محمد بن يحيي عن عفان عن همام عن محمد بن ججارة عن عبد الجبار بن وائل من علقمة بن وائل ومولي لهم عن ابيه انتهي"

اوراسی سند سے مسلم شریف میں یہ متن بغیر زیادت علی الصدرک بایں الفاظ مروی  ہے۔ "ثم وضع يده اليمني علي اليسري" جلد اول ص 173 مولاناانور شاہ نے فیض الباری لد دوم ص 266 میں نیموی نے آثار السنن ص 64 میں مولوی خلیل احمد نے بذل المجہود لد 2 ص 25  میں مولوی زکریا نے الاوجز میں علی الصدر کی زیادہ کو معطل شاذ وغیرمحفوظ اور حدیث کو مظرب المتن بتایاہے۔ وجہ معلل ہونے کی مولوی انورشاہ مرحوم کے لفظوں میں یہ ہے

 "لانه لم يعمل به احد من السلف ولا ذهب اليه احد منالا ئمة انتهي"

اور زیادہ مزکورکے غیرمحفوظ اورشاذ ہونے کیوجہ یہ ہے۔ کہ ابن خذیمہ کے علاوہ اس حدیث کو امام احمد ۔ نسائی۔ ابودائود۔ ابن ماجہ۔ وغیرہ نے مختلف طریق سے روایت کیاہے۔ لیکن کسی طریق میں یہ زیادۃ نہیں ہے۔

 زیادت مذکور کےشاذ وحدیث مذکور کے اضطراب کاجواب تحفۃ الاحوزی جلداول ص 216 اورابکار المنن ص 101 ۔ 102-103۔ میں بسط وتفصیل کے ساتھ مذکور  ہے۔ اورمعللل ہونے کی وجہ کا جواب دینے کی ضرورت نہیں جب کہ امام شافعی سے ایک روایت علی الصدرکی آتی ہے۔ جیسا کہ حاوی میں مصرح ہے۔ اوراگربالفرض کوئی اس کا قائل نہ بھی ہو تو یہ اس کےمعلل اور غیرمحفوظ اورساقط الاعتبار ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔

"لانه يحمل علي انه لم يبلع الحديث المذكور احد امن الائمة الاربعة وغيرهم المشهورين واما ان كون الحديث متروك العمل به في  قرن الصحابةاوالتابعين علامة نسخه او ضعفه كما يدل عليه كلام المنار كما صرح به في التلويح فهو مما لا يلتفت اليه وقدرد عليه الشوكاني في ارشاد الفحول ولاعلامة جمال الدين القاسمي في قواعد التحديث"

دوسری حدیث حدیث مسنداحمد میں بسند زیل مروی ہے۔ جو عندالحنفیہ بھی حسن ہے۔

 "قال الامام احمد فلي مسنده حدثنا يحيي بن سعيد عن سفيان ثنا سماك بن قبيصة بن حلب عن ابيه قال رايت رسو الله صلي الله عليه وسلم"

نیموی نے اس حدیث میں بھی علیٰ صدرہ کوغیر محفوظ بتایاہے۔ جس کا جواب حضرت شیخ نے تحفۃ الاحوزی اورابکارالمنن میں بالتفصیل مرقوم فرمایا ہے۔ تیسری حدیث مراسیل ابی دائودمیں مروی ہے۔ (مرسلہ مولانا محمد بن عبد اللہ )

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 443

محدث فتویٰ

تبصرے