سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(240) کیا ظہر کے ساتھ عصر ملا کر پڑھنے کی اجازت ہے

  • 6028
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1048

سوال

(240) کیا ظہر کے ساتھ عصر ملا کر پڑھنے کی اجازت ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے نوکری کے باعث ظہر کے وقت ہمیشہ کی فرصت رہتی ہے۔ اور عصر میں فرصت نہیں ملتی۔ کیا ظہر کے ساتھ عصر ملا کر پڑھنے کی اجازت ہے۔ (محمد عبد لاالحفیظ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واقعی  اگر وقعت عصر نہیں ملتا تب ظہر کے ساتھ جمع کرلیا کریں۔ صحیح بخاری میں ملتا ہے۔ آپﷺ نے ظہر اورعصراورعشاء جمع کی  تھیں۔

تشریح

"قال الله تعالي ان الصلواة كانت علي المومينن كتابا موقوتة وعن جابر عن النبي  اصلي الله عليه وسلم جاءه جبرئيل عليه السلام فقال له قم فصلي الظهر حين زالت الشمس الحديث"(رواہ احمد وترمذي)

ہر نماز کو اپنے اپنے وقت پر پڑھنا جیسا کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ فرض ہے۔ اورجمع تقدیم یا تاخیر حنفیہ کے نزدیک سوائے حج کے مطلقا جائز نہیں ۔ جیسا کہ شرح وقایہ اوردیگر معتبرات فقہ میں ہے۔ ولا یجلع فرضا ن فی وقت بلا حج اور شافعیہ اور محدثین ک نزدیک سفر میں جائز ہے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اورر بارش میں جمع کرنے کی کوئی صحیح و جریح دلیل کتب فقہ و حدیث سے پائی نہیں جاتی۔ جیسا کہ ماہرین فقہ وحدیث پر مخفی نہیں۔ اور حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 "ان النبي صلي الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر وبين المغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر قيل لابن عباس ما اراده بذلك قال اراده ان لا يحرج امته"

’’جمع کیا رسول اللہﷺ نے ظہر وعصرکو اور مغرب وعشاء کو مدینہ میں بغیر خوف وبارش کے‘‘ یہ جمع صوری پر محمول ہے جیساکہ صحیح نسائی میں موجود ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 436

محدث فتویٰ

تبصرے