سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(227) تفصیل اوقات و ارکان نماز

  • 6015
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1135

سوال

(227) تفصیل اوقات و ارکان نماز

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمد رسول اللہ ﷺ  نے اپنے زمانہ مبارک میں کسی مسلمان کو نماز سککھائی اور بتائی توکیسی بتلائی اس امر کی بخوبی تشریح کی جاوے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب کو بتلائی کتب حدیث میں صفت صلواۃ کے ابواب بکثرت ملتے ہیں۔ خود ایک دفعہ جبرایئل کے ساتھ نماز پڑھی ۔ پھرروزانہ مسلمانوں کو پرھاتے  رہے ایک دفعہ باہر کا آدمی پوچھنے آیا۔ توآپ نے دو دن ایسے طریق پر نماز پڑھی۔ کے پہلے روز ساری نمازیں اول وقت پڑھیں۔ دوسرے روز ساری نمازیں اخیر وقت پڑھ کر فرمایاسائل دیکھ لے کہ ان دونوں وقتوں کے درمیان نماز کا وقت ہے۔ (7 جمادی الاول 1335ہجری)

تشریح

جبرئیل کے ساتھ آپ کا نماز پڑھنا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت سے یوں آیا ہے۔

"قال رسول لله صلي الله عليه وسلم  امني جبرئيل عند البيت مرتين فصليبي الظهر حين زالت الشمس وكانت قدر الشراك وصلي بي العصرحين صار ظل كل شئ مثلهوصلي بي المغرب حين افطر الصائم وصلي بي العشاء حين غاب الشفق وصلي بي الفجر حين حرم الطعام والشراب علي الصائم فلما كان  الغد صلي بي الظهر حين كان ظله مثلهوصلي بي العصر حين كان ظله مثليهوصليبي المغرب حين افطرا لصئم وصلي بي العشاء حين ذهب ثلثالليلوصلو بي الفجر فاسفر ثمالتفت اليفقاليا خحمد هذا وقت الانبياء من قبلكوالوقت ما بين هذين الوقتين"(رواہ ابو داؤد وترمذي)

’’عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیت اللہ شریف میں حضرت جبرئیل نے امام  بن کر دو دفعہ مجھے نماز پڑھائی۔ پس پہلی مرتبہ سورج ڈھلتے ہی مجھے ظہر کہ نماز پڑھائی۔ جب کہ سایہ شریف صرف جوتی کے تسمے کی مقدار پر ہوا تھا۔ اور عصر کی نماز پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ صرف اس کے برابر یعنی ایک مثل پر پہنچا تھا۔ اور مغرب کی نماز پڑھائی۔ جب کہ روزہ کھولنے کا وقت ہوتا ہے۔ اور عشاء کی نماز پڑھائی جب کہ شفق یعنی شام کی سرخی غائب ہوچکی تھی۔ اور فجر کی  نماز اس وقت پڑھائی۔ جب کھانا پینا روزہ دار کےلئے حرام ہوجاتا ہے۔ یعنی صبح صادق ہوتے ہی دوسرے روز ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جب کہ آپ کا سایہ آپ ﷺ کے برابر یعنی ایک مثل ہوچکا تھا۔ اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جب آپﷺ کا سایہ دو مثل کو پہنچ چکاتھا۔ اورمغرب کی اس وقت جب روزہ ددار روزہ کھولتے ہیں۔ اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے پر پڑھائی اور فجر کی جب پڑھائی جب خوب روشنی پھیل چکی تھی۔ پھر حضرت جبرئیل میری طرف متوجہ ہوکر بولے کے اے محمد ﷺ تم سے پہلے جس قدر انبیاء ؑ گزرے ہیں۔ ان سب کی نمازوں کا وقت ( جو بھی وہ نمازیں پڑھتے ہوں گے۔ ) یہی ہے جو تم کو بتلایا گیا۔ دونوں دن اول وآخرمیں آپﷺ کو نمازپڑھائی گئی ہے۔ ان کے درمیان کا سارا وقت نمازوں کا وقت ہے۔‘‘ اس حدیث کو ابودائود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اور نبی کریم ﷺ کی نماز جو آپ نے خود پڑھی۔ اورصحابہ رضوان اللہ  عنہم  اجمعین  کوتعلیم فرمائی۔ اس کی تفصیل اس حدیث سے معلوم ہوسکتی ہے۔

عن ابي حميد الساعدي قال في عشرة من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم انا اعلمكم بصلاةرسول الله صلي الله عليه وسلم قالوا فاعرض قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا قام الي الصلوة رفع يديه حتي يحاذي بهما منكبيه ثم يكبرثم يقراء ثم يكبرويرفع يديه حتي يحاذيبهما منكبيه ثم يركع ويصنع راحتيه علي ركبتيه ثم ثم يعتدل فلا يصبي راسه ولايقنع ثم يرفع راسه فيقول سمع الله لمن حمده ثم يرفع يديه حتي يحاذيبهيما منكبيه معتد لا ثم يقول الله اكبر ثميهوي الي الارض ساجدا  فيتجافي يديه عن جنبيه ويفتح اصابع رجليه ثم يرفع راسه ويثين رجله اليسري فيقعد عليها حتي يرجع كل عظم في موضعه معتدلا ثم يقو ال الله اكبرويرفع ومثني رجله اليسري فيقعد عليها ثميعتدل حتي يرجع كل عظم الي موضعه ثم ينهض ثميسنع في الثانية مثل ذالك ثماذا قام من الركعتين كبرورفعيديه  حتي يهاذي بهما منكبيه كما كبرعند افتتاح الصلوة ثم يصنع ذلكفي بقية صلاته حتي اذا كانتالسجدة التي فيها التسليم اخرج رجله اليسريوقعد متور كاعلي ثقه الا يسرثم سلمقالواصدقت هكذا كان يسلي(روابہ ابو داؤد۔ دارمی۔ ترمذی۔ و ابن ماجہ)

وقال الترمذي هذا حديث حسن صحيع وفي رواية لابيداود من حديث ابي حميد ثم وكع فوضع يديه علي ركبتيه كانه قابض عليها ووقر يديه فتحا هما عن جنبيه وقال ثم سجد وامكن انفه وجيهته الارض ونحي يديه عن جنبيه ووضع كفيه  اح ومنكبيه وفرج بينفخذ يا ء غيرحاملبطنه علي شئ من فخذ يه  حتي فرع ثم جلس فافتر ش رجله اليسريواقبل بصدر اليمنيعلي قبلته ووضع كفه  اليمني عليركبه اليمنيوكفه  اليسريعليركبته اليسري واشار با صبعه يعني اسبابة وفي امري له  واذا قعد في المركعتين قعد عليبطنقد مه اليسريونصب اليمنيواذاكان في الرابعة افضي بوركه اليسريالي الارض واخرج فد مياء ن ناحية واحدة

ترجمہ۔ ’’حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک روز دس اصحابرضوان اللہ  عنہم  اجمعین  کی موجودگی میں کہا کہ میں تم سب سے زیادہ آپﷺکی نماز کی تفصیلات جانتا ہوں۔ وہ صحابہ رضوان اللہ  عنہم  اجمعین  بولے کہآپﷺ کی نماز آپ جانتے ہیں۔ وہمارے سامنے پیش کیجئے۔ چنانچہ ابوحمید ساعدی نے کہا کہ  جب آپﷺ نماز پڑھنے کےلئے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کاندھوں تک اٹھا کر نیت باندھ لیتے۔ پھر آپ دعا اسفتاح اللهم باعد وغیرہ ۔ و سورۃ فاتحہ ودیگر سورتیں پڑھتے پھر تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھا کر رفع الیدین کرتے ہوئے ۔ آپ  رکوع میں جاتے۔ اوراپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے گھٹنون پر مظبوطی  کے ساتھ رکھتے اور نہایت اعتدال کے ساتھ جھک کر رکوع کرتے۔ سر اور کمر کو برابر رکھتے۔ اونچا نیچا نہیں کرتے۔ پھر رکوع سے فارٖغ ہوکر پھر دونوں ہاتھوں کوکندھوں تک اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کے ساتھ سمع اللہ  لمن حمدہ کہتے۔ اورسیدھے کھڑے ہوجاتے۔ اورسجدے میں دونوں ہاتھوں کوپہلووں سے دور رکھتے۔ اور سجدے کی حالت میں پیروں کی انگلیوں کو زمین پر ٹیک کر قبلہ رخ کشادہ رکھتے۔ پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اوربایاں پیر موڑ کرخوب اعتدال اور تسلی واطمینان کے ساتھ اس پر آپ بیٹھ جاتے پھر تکبیر کہتے ہوئے سجدہ ثانی کرتے۔ پھر سجدے سے سر اٹھا کر بایاں پیر موڑ کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ یہاں تک کہ آپ کے  جسم مبار ک کا ہر جوڑ ٹھکانے پر بیٹھ جاتا۔ پھر آپ دوسری رکعت  کے لئے کھڑ ے ہوتے۔ تو جس طرح نیت باندھتے وقت رفع الیدین کی تھی بالکل اسی طرح دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھا کر رفع الیدین کے ساتھ تیسری رکعت کے لئے ہاتھ باندھ لیتے۔ پھر اسی طرح ساری نماز کوپورا  فرماتے۔ اور جب آخری رکعت ہوتی   تو بایئں پیر کو باہر نکال کر بایئں کولھے کو زمین پر ٹیک کر بیٹھ جاتے پھر سلام پھیرتے۔ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا یہ بیان سن کر وہ تمام صحابہ رضوان اللہ  عنہم  اجمعین  بولے بےشک آپ نے حضور ﷺ کی نماز کا جو نقشہ بیان کیا ہے۔ بالکل صحیح و درست ہے ۔ آپ ﷺ کی نماز اسی طرح ہوتی تھی۔ اس حدیث کو ابودائود اوردارمی نے روایت  کیا ہے۔ اور ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی اس کے معنی یہ روایت موجود ہے ۔ اور ترمذی نے اس کو حسن صحیح بتلایا ہے۔ اور ابو دائود کی ایک روایت میں ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یہ لفظ اور بھی مروی ہیں۔ کہ آپﷺ نے جب رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طرح رکھا گویا آپ ﷺ ان کومظبوط تھامے ہوئے تھے۔ سجدے میں آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو خوب پھیلا کر ان کو دونوں پسلیوں سے دور رکھا۔ اور اپنی ناک اور پیشانی مبارک کو زمین  پر ٹیک دیا۔ اور دونوں ہاتھوںکو ہتھیلیوں کو کندھوں کے برابر رکھ کر زمین پر ٹیکا اور اپنی رانوں کو کشادہ رکھا اور ہاتھوں کی کہنیوں کو پیٹ سے کافی دور رکھا  پھر سجدہ  سے فارغ ہوکرآپﷺ جلسہ استراحت میں بایاں پیر پھیلا کر سینے کو قبلہ رخ کر کے بیٹھ گئے۔ اس طور پر کے دایئں ہتھیلی دایئں  پیر کے گھٹنے پر اور بایئں ہتھیلی بایئں پیر کے گھٹنے پر آپ نے رکھی ہوئی تھی۔ آپﷺ نے اس حال میں تشہد پڑھا۔ اور اپنی انگلی سبابہ کو (لفظ اشھد ان لا الہ الا اللہ پر آپﷺ نے حرکت دی۔ اور اسی کی ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے۔ کہ درمیانی تشھد میں آپ بایاں پیر پھیلادیتے اور اس پر بیٹھ جاتے۔ اور دایئاں  پیر (انگلیاں)  قبلہ رخ  زمین  پر ٹھیک کر کھڑا رکھتے۔ اور چوتھی رکعت میں آپ ﷺ اپنے بایئں کولھےکوزمین کی طرف نکال کر دونوں قدموں کو ایک طرف نکال دیتے۔ اور اسی طرح  تشہد کے لئے بیٹھتے۔‘‘

شرفیہ

نبی کریم ﷺ کے فعل مبارک سے آپﷺ کے ارشاد صلو كما رايتموني اصلي (جس طرح مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو اس طرح نماز پڑھا کرو)  کے مطابق لوگوں نے نماز سیکھی۔ بعض دفعہ قولا بھی آپ نے نماز کا طریقہ تعلیم فرمایا۔ جیسا کہ مسی "الصلوۃ''والی حدیث میں مزکور ہے۔ آپ نے اس کو زبانی نماز تعلیم فرمائی تھی تفصیلات صحاح ستہ۔ ومشکواۃ۔ و بلوغ المرام۔ وغیرہ میں موجود ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 425

محدث فتویٰ

تبصرے