سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(215) عیسیٰ ؑ کے بارے میں جھگڑتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ کا باپ ہے

  • 6003
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1010

سوال

(215) عیسیٰ ؑ کے بارے میں جھگڑتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ کا باپ ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عیسیٰ ؑ کے بارے میں جھگڑتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ کا باپ ہے۔ لہذا آپ سے التماس ہے کہ اس بارے میں اللہ پاک کا کیاحکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید میں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کا زکر یوں ہے۔ کہ جب حضرت مریم ؑ حاملہ ہوئیں تو ان کے خاندان والوں نے کہا ۔

مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ﴿٢٨سورة مريم

’’اے مریم ؑ نہ تیراباپ برا تھااور نہ تیری ماں حرام کار عورت تھی۔‘‘

اس بیان سے صاف پایا جاتا ہے کہ مریم ؑ صدیقہ کا حاملہ ہونا ان کے خاندان والوں نے اپنے لئے موجب ننگ وعار جانا۔ خاوند سے حمل ہو تو بہو بیٹی کو کوئی ایسا نہیں کہا کرتا۔ بلکہ خوشی کیا کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے خاندانی یہودیوں نے صدیقہ مریمؑ پر بدکاری کی نسبت کی۔ جس کا رد دوسری جگہ اللہ نے یوں فرمایا۔

 وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا ﴿١٥٦سورة النساء

’’یہودیوں نے جو مریم ؑ پر بہتان عظیم لگایا تھا۔ اس کی وجہ سے ہم نے ان  پر لعنت کی‘‘ معلوم ہوا کہ یہودیوں کا گمان حمل ناجائز کا تھا۔ اور وہ اس لئے تھا کہ  حضرت صدیقہ ؑ کا خاوند نہیں تھا۔ ناجائز حمل کے خیال سے جو یہودیوں نے صدیقہ ؑ ی  نسبت کہا تھا وہ افتراء تھا۔ اور اس کی تردید اللہ تعالیٰ نے صا ف لفظوں میں فرمادی۔ پس نتیجہ صا ف ہے کہ حضرت عیسیٰؑ معمولی طور پر بے باپ مولود تھے۔

ایک اعتراض

مسیح ؑ کی پیدائش بے باپ معجزانہ تھی۔ لہذاوہ آپﷺ سے افضل تھے۔

جواب۔ بے باپ پیدا ہونے سے فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ اگر بے باپ ہونافضیلت ہے تو بے باپ اور بے ماں ہونا بھی فضیلت ہوئی۔ حالانکہ عیسائی حضرت آدم ؑ کو حضرت مسیح ؑ سے افضل نہیں جانتے ہاں بے باپ ہونے سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو خدا کی قدرت کاملہ کا اظہار ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید خود اس کی وجہ بتاتا ہے۔ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ۔ ’’ہم مسیح ؑ کو بے باپ پیدا کرکے اپنی قدرت کی ایک نشانی بنادیں گے۔‘‘ اس سے مسیحؑ کی فضیلت کا کیا ثبوت۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 392

محدث فتویٰ

تبصرے