سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(212) ایک بہائی کا سوال مع جواب

  • 6000
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 937

سوال

(212) ایک بہائی کا سوال مع جواب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں شری نگر میں ایک بہائی آیا تھا۔ اس نے مسلمانوں کو مجبور کیا کہ اس کے سوال کا جواب دیں۔ آپ ازراہ مہربانی سوال مندرجہ زیل کا جواب ''اہل حدیث'' میں درج کر کے ہمیںمشکور فرمائیں (عبد الاحد ڈار9)

سوال۔ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی شخص مدعی وحی شریعت آیا ہو اوراس نے کوئی دین باطل پیش کیا ہو۔ اور اس کے ماتحت کوئی امت برپا ہوئی ہو۔ باوجود شدید ممانعت کے اس کا مشن استراء پزیر ہو۔ اور منجملہ اس آیت کے جواس بات کوثابت کرتی ہیں۔ سورۃشوریٰ أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ۖ فَإِن يَشَإِ اللَّـهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّـهُ الْبَاطِلَ۔﴿٢٤سورة الشورى

 مدعی الہام کا لایا ہوا دین قرار پزیر ہو۔ تو وہ صادق ہوتا ہے اس معیار  پر ہر پہلو سے حضرت بہاء اللہ کا دعویٰ ثابت ہے۔ اگر کوئی شخص ازروئے قرآن  غلط ثابت کرے تو میں اپنا موجودہ خیال ترک کروں گا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جھوٹے ملہموں اور مفتریوں کے لئے قرآن مجید میں دنیا میں ناکام رہنے کا کوئی زکر نہیں۔ جو کچھ  ہے وہ مندرجہ زیل آیت میں ہے۔ بس یہی آیت قابل غور ہے

 قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴿٦٩ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ﴿٧٠

 ’’جو لوگ خدا پر افتراء کرتے ہیں۔ وہ اخروی نجات نہیں پایئں گے۔ ان کو دنیا میں سامان زندگی نہیں ملے گا۔ پھر ہماری طرف ان کی واپسی ہوگی۔ پھر ہم ان کو ان کے کفر کی وجہ سے سخت عذاب چکھایئں گے۔‘‘ یہ آیت اپنا  مضمون صاف بتارہی ہے۔ کہ مفتریان علی اللہ کے لئے  روز جزا نجات نہیں ہوگی۔ مگر دنیا میں ان کو سامان زندگی بے شک ملے گا۔  س معلوم ہوا کہ جھوٹے مدعی نبوت  اپنی دنیاوی زندگی  پوری کر کے خدا کے سامنے مجرمانہ حالت میں پہنچیں گے۔ اس سے زیادہ واضح آیت کیا ہوسکتی ہے جو بہاء اللہ ک دعویٰ کے لئے مبطل ہو واللہ الموفق

تشریح

ہمیشہ سے اہل علم اور اہل دیانت کا طریق کار یہ رہا ہے  کہ اپنے دعوے کا ثبوت  پیش کیاکرتے ہیں۔ مگرآجکل کے بعض مدعیان نے احسن طریقہ یہ سمجھ رکھا ہے۔ کہ  دعوے پر دعویٰ کیے جاو۔ دلیل دینے کی حاجت نہیں بہائی اور قادیانی دونوں گروہوں کا یہی طریق عمل ہے ہمحیران ہیں کہدنوں گروہوں  کے علم کلام کو کس اصول پر جانچیں۔ اہل علم کے نزدیک دعوے کے ثبوت میں دعویٰ کیا جانا۔ مصادرعلی المطلوب کہلاتا ہے۔ جو سخت معیوب ہے۔ افسوس کے دونو  ں کا علم کلام سی معیوب چیز سے بھرا پڑا ہے۔ جس کا زکر موقع بہ موقع ہم کیاکرتے ہیں۔ اہل بہار کا  یہ دعویٰ کے شریعت مستقلہ کے جھوٹے مدعی کامیاب نہیں ہوئے۔ اس طرف  اشارہ کر رہا ہے کہ قادیانی نبوت  کے  پیروکار جو بقول خود کامیاب ہیں۔ شریعت مستقلہ کے مدعی نہیں۔ بلکہ شریعت محمدی کے پیروکارہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی کامیابی ہماری کامیابی کی طرح نہیں ہے۔ ہم مستقل شریعت بہائیہ کے پیروکار ہوکر کامیاب ہیں۔ اور وہ دین  محمدی کے پیرو ہوکر کامیاب بنتے ہیں۔ یہ ہمارے خلاف نہیں ہے  کہ ہم کہتے ہیں کہ دونوں ناکام ہیں۔ کامیابی اس کا نام ہے کہ مدعی اپنے دعوے میں پورا اترے۔ اگر پورا نہیں اترا تو ادھورا ہے۔ تو وہ فیل ہے۔ جیسا کہ امتحانوں کی بابت یونیورسٹیوں کا قانون ہے۔ کے ان کی حد مقررہ تک نمبر پہانے والا کامیاب اور نیچے رہنے والا فیل ہوتا ہے۔ ہم بڑی حیرت سے دونوں جماعتوں کا دعویٰ سنتے  سنتے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

 ہزار دعووں میں اگر ایک ہی وفا کرتے          قسم خدا کی ہم نہ تم کو بے وفا کہتے

(اخبار اہل حدیث مورخہ 27 اپریل 1945 از قلم حضرت مولانا  ثناء اللہ ؒ)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 390

محدث فتویٰ

تبصرے