السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زمانہ حال کے مرشد عموما ً مریدوں سے مانند جزیہ کے نزرانہ لیتے ہیں۔ اس طرح کا نذرانہ مرشد کو درست ہے یانہ۔ بعض حالتوں میں مرید کے سقیم ہونے کی حالت میں زبردستی وصول کیاجاتا ہے۔ جو مرید کو بمجبوری دینا پڑتا ہے۔ مرید ایسے نزرانے کے دینے سے جرم یا ثواب آخرت کا مستحق ہوتا ہے۔ یا نی۔ لینے والے مرشد کے لئے شرعی کیا حکم ہے۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ سب نبیوں نے اپنی امت کو ۔
مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ﴿١٠٩﴾سورة الشعراء
’’ہم تم سے مزدوری نہیں مانگتے۔‘‘ زمانہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے لے کر زمانہ شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ تک پیر مریدوں سے وصولی نہیں کرتے تھے۔ حضرت شیخ غنیہ میں فرماتے ہیں۔ مرید کو پیر کے گھر کھانا کھانا جائزہے۔ پیر کو مرید کے گھر کا کھانا نہ کھانا چاہیے۔ کیونکہ اس کی شان بلند ہے۔ جو مرید پیر سے کسی نقصان کا خوف کر کے نذرانہ دے۔ وہ بجائے ثواب عذاب کا مستوجب ہے۔ ایسے مرشد دوکاندار دنیادار ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب