سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(134) نذر و نیاز پر ایک تفصیل

  • 5920
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2063

سوال

(134) نذر و نیاز پر ایک تفصیل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دیوی اور پیر فقیر کی حالت ایک ہی نہیں اس لئے بزرگان دین کی نذر ونیاز کا رواج اسلام میں شرعی طور پر معمول ہے۔ جو بکرا بزرگوں کی نظر کیا گیا ہو۔ وہ حلال اور طیب  ہے۔ اور دیوی کی نزر ماننے والا مشرک ہے۔ اسی کا شان نزول اسی اشیاء کی نسبت مفسرین سے ثابت ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ سوال جلدی میں کیا گیاہے۔ قرآن مجید میں خود اس کا جواب موجود ہے۔ ساری آیت کو دیکھتے تو سوال نہ کرتے بس غور سے سنیں!

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ ﴿٣ سورة المائدة

’’یعنی حرام ہے تم پر مردار خون خنزیر کا گوشت اور جو چیز غیر اللہ کے نام پر مقرر کی  جائے۔ گلا گھٹی ہو۔ اینٹ پتھر سے ماری ہوئی۔ اوپر سے گر کر یا سینگ کے زخم سے مری ہوئی یا جس کو درندہ کھا جاوے۔ بجز اس کے جس کو درندہ سے چھڑا کر تم زبح کرلو۔ (وہ حلال  ہے)  جو کسی کھڑی  چیز وقبر پر ـ(وغیرہ)  پر زبح کی جاوے وہ بھی حرام ہے۔‘‘ اس آیت میں صاف طور پر وہ لفظ آئے ہیں۔ ایک اھل۔ دوم۔ ذبح علی النصب۔ ایمانداری اور انصاف یہ ہے کہ دونوں لفظ بحال رکھے جایئں۔ اور دونوں کی تفسیر ایسی کی جائے کہ کوئی بے کار نہ رہ جائے۔ اس لئے صحیح معنی یہ ہیں کہ کوئی دیوی یا قبر وٖغیرہ پر چرھاوا ہوکر وہاں ذبح کیے جایئں تو وہ ذبح علی النصب کے تحت ہیں۔ اور جو چیزیں غیر اللہ ک نام پر مقرر کی جاتی ہیں۔ چاہے وہ ناقابل ذبح ہوں۔ جیسے مٹھائی وٖغیرہ یا قابل ذبح ہوں۔ لیکن اللہ کے نام پر ذبح ہوں۔ وہ سب اشیاء ما اھل کے ما تحت ہیں۔ اور اگر سائل کے کہنے کے موافق ما اھل کے معنی کیے جایئں تو علاوہ اس کے کے لفظ ما اور اھل ان  معنی کے مخالف ہیں۔ ما ذبح علی النصب بیکار ہوجا تاہے۔ اس لئے سب الفاظ کو بحال رکھنے  کے لئے ضروری ہے۔ کے ان کے معنی الگ الگ کیے جایئں۔ جیسے ہم نے کیے ہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 01 ص 349

محدث فتویٰ

تبصرے