سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(125) محدثین کے اصول میں سنت ومستحب کی تعریف کیاہے؟

  • 5911
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3428

سوال

(125) محدثین کے اصول میں سنت ومستحب کی تعریف کیاہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محدثین کے اصول میں سنت ومستحب کی تعریف کیاہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محدثین کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ تو ان اصطلاحی ناموں کا قائل ہی نہیں اس کا اصول ہے کہ جو کام جس طرح آپﷺ نے کیا ہے۔اس طرح کردیا جائے۔

ان کے اس خیال کی سند حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا وتر واجب ہیں۔انہوں نے کہا۔ (اوتر رسول الله صلي الله عليه وسلم واوتر المسلون)ِ ’’آپﷺ نے وتر پڑھے۔‘‘ اور مسلمانوں نے بھی پڑھے ہیں۔سائل نے تین دفعہ سوال دہرایا۔ جواب یہی ملا۔اس لئے معتقدمین محدثین کی یہ روش ہے۔ کے فعل کا اثبا ت کردیتے ہیں۔ اور ا س کا نام نہیں رکھتے۔متاخرین محدثین میں سے بعض بعض کی تحریروں میں ان اسماء کا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن معنی ان ک نزدیک بھی وہی ہیں۔ جو فقہاء کے نزدیک ہیں۔ چنانچہ مولانا شہید دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تنویر العنین میں رفع یدین کو مستحب کہہ کر اس کی تعریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ايثاب فاعله ولا يلام تاركه سنت اس سے زرا موکد ہے۔البتہ واجب اور فرض میں محدثین فرق نہیں کرتے۔بلکہ شافعیہ بھی نہیں کرتے۔

شرفیہ

جواب سوال سنت ومستحب کی تعریف جو حضرت شہید نے رفع الیدین فی الصلواۃ مستحب بتا کر۔ ايثاب فاعله ولا يلام تاركه لکھا ہے۔باجود یہ کہ محمد رسول اللہﷺ نے رفع الیدین افعال کر کے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کو فرمایا تھا۔ صلو كما رايتموني اصلي (صحیح بخاري ص88 ج1) اور ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ کی حدیث جامع ترمذی وغیرہ سے آپ کا اس پ دوام بھی ثابت ہے۔توپھر سنن الھدیٰ اور مستحب میں کیا فرق ہے۔۔ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي﴿٣١ سورة آل عمران فمن رغب عن سنتي فليس مني (متفق علیہ۔ مشکواۃ ص27 جلد1 ) کا کیا جواب ہوگا۔تو ایسے تو صدہا سنتو ں کو مستحب بنا کر ترک کردیں گے۔کس کس آپ کے فعل کو مستثنیٰ کیا جائے گا۔سچ ہے۔

گاہ ناشد  کر حکیم روشن رائے           برینائد درست تدبیر ے

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

جلد 01 ص 344

محدث فتویٰ

تبصرے