السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احقرکوچندایک شبہات نے ورطئہ اضطراب میں ڈال رکھاہے ۔یہ جب میرے دماغ میں انتہائی صورت میں مستحکم ہوتے ہیں تومیراایمان خطرے میں پڑجاتاہے ۔مبادا میں کہیں ہلاک ہوجاؤں ۔آپ میری پوری تشفی فرمائیں۔ہمارے علاقے میں ایک آدمی موسوم مہرشاہ گزراہے جس کی کرامات بین طورپرآج بھی ظاہرہیں۔جن کاشیطانی اولیاء سے ظہور پذیرہونا ناممکن ہے اوریہ شخص شریعت کا سخت دشمن تھا۔شراب نوشی کا عادی،افیون کارسیا غرضیکہ کل منشیات اس کامعمول تھا۔نماز روزہ اداکرنا توکجا بلکہ اس کی مخالفت کرتاتھا۔کتوں کے ساتھ ہمیشہ اکٹھا بیٹھ کر کھانا کھایا کرتا تھا۔ اس کےبغیرکھاتاہی نہ تھاخواہ کتنے روزفاقہ کشی کرنی پڑے ۔اب میں اس کی کرامات سلسلہ واربیان کرتاہوں ۔
پیرمہرشاہ ایک گاؤں سے گزررہاتھا دوعورتوں نے اسے آگھیرااوربہت منت سماجت کی کہ ہمارے گھراولادنہیں ہمیں اولاد دو۔پیرصاحب نے اردگرد دیکھا توایک کاغذنظرپڑا۔اس کواٹھاکرویسے ہی ایک کوئلہ سے لکھنے لگا اور دوتعویذ تیارکیے۔اور دونوں تعویذ اکٹھا کرکرتے وقت پھٹ گئے اور ایک ایک کرکے دونوں عورتوں کو بانٹ دیے اور کہاجاؤ تمہارے گھرسال کے اندرایک ایک لڑکاپیداہوگا۔ مگرایک ایک آنکھ سے اندھے ہوں گے ۔چنانچہ ایساہی ہوااور وہ دونوں لڑکے موجودہیں جواس وقت جوان ہیں ۔پیرکی زندہ کرامت دنیادیکھ رہی ہے اوراس نےکہاتھاتعویذپھٹنے کی وجہ سے کانے ہوں گے۔فانہم
پیرصاحب مذکور ایک آدمی کے ہاں واردہوئے اوراس کوکہنے لگے۔مجھے دودھ پلاؤ ۔اس نےنہایت عاجزی سےعرض کی۔ پیرجی میری بھینس بھی حاملہ ہے جب جنےگی توپلاؤنگاپیرصاحب خاموش ہوکرچلے گئے۔چنددنوں بعدپھرپیرصاحب تشریف لائے تواس کی بھینس سوئی ہوئی تھی۔اس نے پیرصاحب کوسیراب کرکے دودھ پلایا۔توپیرصاحب نے دعا دی کہ جاؤ تمہارے گھربھینسیں ہمیشہ مادہ ہی جناکریں گی اور بہت بڑھیں گی۔ چنانچہ اب اس کے پاس چالیس بھینسیں ہیں اورمادہ ہی جنتی ہیں ۔اس دعاکے بعدکسی بھینس نے آج تک ایک نربھی نہیں جنا۔فانہم
ایک مریدپیرصاحب کے پاس آیا اورکہا۔فلاں گھرمیری منگنی (نسبت ) ہوئی ہے اور وہ مجھے اب رشتہ نہیں دیتے ۔پیرصاحب اس کے گھرگئے۔انہوں نے نہ مانا۔پیرصاحب نے بددعادی کہ تمہاری لڑکی کے بے صبری کردے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوااوروہ اب زندہ ہے ۔زناکرانے سے سیراب ہی نہیں ہوتی ۔جب دیکھو بازاروں میں پھرتی نظرآتی ہے ۔فانہم
ایک گاؤں میں پیرصاحب گئے وہاں مچھرکاٹتے تھے۔لوگوں نے شکایت کی۔ پیرصاحب نے کہا مکانوں کے اندرسویاکرو مچھرنہیں کاٹیں گے۔ چنانچہ اب تک ایسے ہی ہوتاہے جب لوگ اندرسوتے ہیں تومچھرنہیں کاٹتے جب باہرسوتے ہیں مچھرویسے ہی کاٹتے ہیں ۔
اسی طرح اوربہت سے واقعات خوارق عادات ہیں جن کومیں چھوڑتاہوں۔ یہ چندبطور’’مشتے ازخرارے‘‘ پیش کردیئے ہیں۔خداکے دشمنوں سے ایسی کرامتوں کاظہورپذیرہونا کیا حکمت ہے ؟
نبی علیہ السلام کے کلیات جومقررشدہ ہیں غلط ہیں؟مفصل لکھیں اس میں کیاحکمت ہے؟ ا زراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ خدا کے فضل سے قرآن وحدیث سے واقف ہیں پھرایسے توہمات میں کس طرح چلے گئے ۔قرآن مجیدمیں اولیاء اللہ کی علامت یہ نہیں بتلائی کہ ان سے خرق عادات صادرہوں ۔بلکہ ان کی علامت ایمان تقوی اورپرہیزگاری بتلائی ہے ۔ارشادہوتاہے :
﴿أَلَآ إِنَّ أَوۡلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيْهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحْزَنُونَ - ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ ﴾--سورة يونس62-63
ترجمہ:۔اولیاء اللہ کوکسی قسم کا خوف نہیں ہوگا،اور نہ وہ غم کھائیں گے ۔اولیاء اللہ وہ ہیں جوایمان لائے اورپرہیزگاری کرتے تھے ۔‘‘
اس آیت کریمہ نے مسئلہ بالکل صاف کردیاکہ ولایت کامعیارایمان اورتقوی ہے نہ کہ خرق عادات۔ اگرخرق عادات سے ولایت حاصل ہوسکتی ہے تو پھردجال سب سے فوق المرتبہ ولی ہے۔ کیونکہ آسمان وزمین اس کے تابع ہوں گے۔ زمین کوسبزہ اگانے کاحکم دے گاوہ سبزہ اگائے گی۔ آسمان کوحکم دے گا وہ بارش برسائے۔ وہ بارش برسائے گا۔زمین کے خزانے اس کے پیچھے اس طرح چلیں گے جیسے شہدکی مکھیاں ایک طرف کواکٹھی ہوکر جاتی ہیں ۔جن پر چاہے گا قحط سالی کردے گا جن پرچاہے گا خوش حالی کردے گا۔ جنت دوزخ اس کے ہاتھ ہوگا۔باوجوداس کے وہ اشد کافر ہے اورخداکادشمن ہے عیسیٰ علیہ السلام اس کواپنے ہاتھ سے قتل کریں گے ۔
جوخرق عادات آپ نے ذکرکی ہیں ۔دجال کے مقابلہ میں وہ کسی گنتی میں نہیں۔ایک آدھ خرق عادات کسی سے ہوجائے یاکوئی پیش گوئی درست نکل آئے تودجال سے بہت کم ہے۔ جب وہ خدا کادشمن ہے تودوسرا شرع کے خلاف چلنے والا شخص محض خرق عادات سے کس طرح ولی ہوسکتاہے ؟ مشکوۃ وغیرہ میں حدیث ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :جن شیاطین زمین سے آسمان تک ایک دوسرے پرکھڑے ہوجاتے ہیں جب آسمان میں خداکوئی فیصلہ کرتاہے جواہل زمین سے متعلق ہوتاہے جیسے کسی کی موت وحیات کسی کی ہدایت،ضلالت یا امیری غریبی یا اسی قسم کا کوئی اورفیصلہ توفرشتے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا فیصلہ کیا۔ اس موقعہ پرجن شیاطین کوئی بات سن لیتے ہیں اور زمین میں کاہنوں کے کانوں میں ڈال دیتے ہیں ۔اس کےساتھ بہت سے جھوٹ ملا دیتے ہیں۔آسمانی بات تومن وعن صحیح ہوجاتی ہے۔ اس کےساتھ جھوٹ بھی سچ سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ شریعت کی رو سے کاہن کافرہیں۔ اس سے صاف معلوم ہواکہ خرق عادات پرولایت کامدارنہیں۔ہاں ایمان اورپرہیزگاری کے بعداگرکسی کے ہاتھ سے ایسا معاملہ ظاہرہوجائے تویہ اس کی کرامت ہے۔ اگرشریعت کاپابندنہیں اور پھر اس کے ہاتھ پر دجال کی طرح خرق عادات ظاہرہوجائے یا کاہنوں کی طرح اس کی پیش گوئی پوری ہوجائے یا خبرصحیح ہوجائے تویہ کرامت نہیں ۔ بلکہ اس کواستدراج کہتے ہیں ۔یعنی آہستہ آہستہ پکڑنا۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پرخدائی انعام پورا ہورہاہے اور درحقیقت وہ بوجہ سرکشی کے دوزخ کے قریب ہورہے ہیں ۔چنانچہ قرآن مجیدمیں ہے :
﴿سَنَسْتَدۡرِجُهُم مِّنۡ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ﴾--سورة الاعراف182
ترجمہ:۔’’ہم ان کوآہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑتے ہیں کہ ان کوخبرنہیں ہوتی ۔‘‘
اس کے علاوہ اکثراس قسم کے قصے جھوٹے اورمصنوعی ہوتے ہیں۔ ان کی اصلیت کچھ نہیں ہوتی ۔داڑھی منڈے فقیرشرع کے مخالف ایسے قصے جوڑجوڑکرلوگوں کوگمراہ کرتے ہیں۔ عوام کالانعام سن سن کرفریفتہ ہوجاتے ہیں۔آپ خودہی اندازہ کرسکتے ہیں۔ کہ گدھی کے ساتھ بدفعلی کا قصہ کیسا افتراء ہے ایسافعل کرکے بھی پیربنارہے اور اس کی دعابھی تیربہدف ہو۔ ایسے قصہ کی عامی سے عامی بھی تصدیق نہیں کرسکتا۔آپ کے لیے یہ خطرہ کاباعث کس طرح بن گیا۔
اسی طرح پیرمہرشاہ کی کرامت جھوٹ ہے۔ اگرتعویذکے پھٹنے کا اثرپڑتا تو نصف دھڑپرپڑتا صرف آنکھ پر پڑنے کا کچھ مطلب نہیں۔ اصل میں وہ اتفاقیہ کانے ہوگئے۔ شہرت دینے والوں کوایک بہانہ مل گیا کہ تعویذ پھٹنے کا اثرہے۔ آپ ہمارا رسالہ ’’سماع موتی‘‘ملاحظہ کریں۔آپ کی پوری تسلی ہوجائے گی ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا خاص اس موضوع پرایک رسالہ ہے اس کانام ہے ’’الفرقان بین اولیاء الرحمن والیاء الشیطان ‘‘اس کااردو ترجمہ بھی ہوچکاہے وہ منگوا کرضرورمطالعہ کریں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب