سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(112) الصلااۃ والسلام علیک یا رسول اللہ باآواز بلند پڑھنا

  • 5897
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 975

سوال

(112) الصلااۃ والسلام علیک یا رسول اللہ باآواز بلند پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص امام مسجد ہے۔ وہ مسجد میں (1) الصلااۃ والسلام علیک یا رسول اللہ باآواز بلند بعد جماعت کے پڑھتا ہے۔ دوسرے آدمی بھی اس کے پڑھنے کے سبب اس میں شرک ہوجاتے ہیں۔ ایسا آدمی گناہ گار ہے یا نہیں۔ (نور حسین گرجاگھی)

-----------------------------------

1۔ کہنا یا رسول اللہ یا ولی اللہ جو بدعتیوں کی عادت ہے۔ اٹھتے بیٹھتے کہا کرتے ہیں۔ سارے فقہا حنفیہ کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے۔ (جلد اول 337 مجموعہ الفتاویٰ ۔ مولانا لکھنوی مرحوم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شخص مذکوربدعتی ہے۔ اس طرح کا وظیفہ شرع شریف میں ثابت نہیں جتنے آدمی اس کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ سب گناہ گار ہیں۔ وظیفہ خاص کر بعد نماز وہی وظفیہ پڑھنا چاہیے۔ جوشریعت میں آیا ہو۔ (8اکتوبر 15ئ؁)

شرفیہ

یہ روایت صحیح نہیں ہے محدثین نے اس کو موضوع بتایا ہے۔ دیکھو الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوع الامام الشوکانی و موضوعات کبیر ملا علی قاری وغیرہ اور بعض نے جو حاکم کی روایت(1) فلو لا محمد ما خلقت آدم ،لا النار الحدیث کو اس کی تایئد میں پیش کیا ہے۔ کہ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ اور بلقینی نے اس کو برقرار رکھا ہے۔ تواس جواب یہ ہے کہ امام ذہبی نے اس کو رد کردیاہ ے ۔ اور کہا ہے کہ کسی کو حلال نہیں کہ مستدرک حاکم دیکھے۔ یا س پر اعتبار کرے۔ جب تک وہ میری تلضیص کو نہ دیکھ لے۔ اورحاکم کا تسائل محدثین میں مشہور ہے۔ امام ذہبی نے کہا ہے کہ اس حدیث میں عمرو بن اوس ہے۔ نہیں معلوم وہ کون ہے۔

لا يدري من هوا زرقاني عمروبن عوس يجعل حاله وابي يجز منكر اخرجه الحاكم مستدرك زاظنه موضوعا من طريق جندل بن واثق حدثنا عمرو ابن اوس حدثنا سعيد عن ابي عروبة عن قتاده عن سعيد بن المسيب عن ابن عباس قال اوحي الله الي عيسي امن بمحمد فلولاه ما خلقت ادم ولا الجنة والنار الحديث ميزان الاعتدال

ایسے ہی ایک روایت حاکم اور ابن عساکر سے تائیید میں بیان کی جاتی ہے۔ لیکن تمام واہی تباہی ہیں کوئی صحیح نہیں۔

---------------------------------------------------

2۔ اس حدیث کومحدثین نے موضوع یعنی جھوٹی اور جعلی قراردیا ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 335

محدث فتویٰ

تبصرے