السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عشرہ محرم میں اگر کوئی شخص سنی المذہب بلا تخصیص وتعین تاریخ ویوم اہل محلہ و احاب کی محفل منعقد کروا کر شہادت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے صحیح صحیح حالات خود پڑھ کر سنائے۔ یا کسی دوسرے لائق آدمی سے سنوائے۔ تو یہ جائز ہوگا یا نہ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح واقعات کا سننا کسی طرح ناجائز نہیں مگر چونکہ زمانہ ہذا میں اس فعل کی شکل بہت کچھ متغیر ہوکر بدنما ہوچکی ہے۔ اس لئے ان ایام میں کوئی مجلس اس غرض سے نہ کرنی چاہیے۔ جیسے قرآن مجید میں فرمایاہے۔ لَاتَقُولُوارَاعِنَاوَقُولُواانظُرْنَا﴿١٠٤﴾سورة البقرة.... (یعنی رَاعِنَا مت کہا کرو۔ اور انظُرْنَا کہاکرو) ۔ ھالانکہ رَاعِنَا اور انظُرْنَاکے معنی ایک ہی ہیں۔ مگر چونکہ راعنا یہودی بولتے اور برے معنی مراد لیتے تھے۔ اس لئے مسلمانوں کو اس اس لفظ کے استعمال سے روک دیاگیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو کام اپنی شکل سے کسی ناجائز شکل میں آگیا ہو اس کو بالکل بند کر دینا چاہیے۔ واقعات شہادت کا صرف حاصل کرنا ہو تو سوائے محرم کے بھی کر سکتے ہیں۔ پھر محرم میں ایسی مجلس کی کیاضرورت ہے۔ عشرہ مھرم میں اہل وعیال پر فراخی کرنے کے متعلق ایک ضعیف سی روایت آئی ہے۔ سو اس کو واقعہ شہادت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ حضرت موسیٰ ؑ کی فرعون سے خلاصی پانے کی وجہ سے بطور خوشی کے ہے۔ نہ بطور ماتم کے مسلمانوں نے اس تہوار کوکچھ ایسا مرکب تیار کیا ہے۔ کہ بظاہر تو گم دکھاتے ہیں۔ مگر کام خوشی ک کرتے ہیں۔ اس لئے متبع سنت آدمی کا فرض ہے۔ کہ اس مہینے کی جملہ رسومات کو یک قلم روکنے کی کوشش کرے۔
محرم کے کربلائی واقعا ت نے جس قدر شہرت حاصل کی ہے۔ دوسرے واقعات اس قدر شہرت نہیں پاسکے۔ ابتداء میں تو اس شہرت کی غرض وغایت سیاست عباسیہ تھی۔ جسے بنو امیہ کو مغلوب کرنا مقصود تھا۔ اس کے بعد اس نے فرقہ شعیہ کے زریعے مزہبی رنگ اختیار کرلیا۔ جس میں زمین و آسمان کے وہ قلابے ملائے گئے کہ بے ساختہ الامان والحفیظ منہ سے نکلتا ہے۔ اتنے مبالغے کیے گئے ہیں کہ محققین کو تحقیق کرنے میں بڑی دقت پیش آئی۔
چنانچہ علامہ ابن خلدون واقعہ کربلا پر پہنچے تو اپنی کتاب کے دو تین صفحے خالی چھوڑ دیے۔ گویا یہ کہہ کر چھوڑے کے مجھے کوئی صحیح واقعہ نہیں ملا۔ جس کو ملے وہ یہاں درج کرلے۔ ہندوستان میں یہ سب شور وغل ایران سے ہمایوں بادشاہ کی معرفت پہنچا۔ اس کے بعد واجد علی شاہ نے اس کوترقی دی۔ آج جوکچھ ہو رہا ہے و ہ بے شک اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ ایک درد مند مسلمان کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے۔ فليبك عل الاسلام ن كان باكياتعزیہ فی نفسہ جوکچھ ہے۔ وہ مسلمان کے دل کو دکھانے کے لئے کافی ہے۔ پھر اس کو بازاروں میں لئے پھرنا اور یوں پنجتن کے نعرے لگانا۔
’’پنجتن نعرے پنجتنی اک نعرہ حیدری یا علی یا علی‘‘
اس کے علاوہ ایک رسم مہندی کی ہے۔ معلوم نہیں امرتسر کے سوا اور جگہ بھی نکلتی ہے یا نہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ میدان کربلا میں امام قاسم کا نکاح رچایا گیا۔ ساتھ محرم کو اس کو مہندی لگائی گئی۔ یہ یاد گار بھی بشکل جلوس منائی جاتی ہے۔ چنانچہ 2 دسمبر کو امرتسر میں مہندی کا جلوس نکلا۔ اور بڑے بڑے بازاروں کا گشت لگا کرگھر جا بیٹھے۔ اس کے بعددسویں محرم عاشورہ کے دن بھی تعزیوں کے ساتھ بہت بڑا جلوس نکلا۔ دونوں دن خیریت سے گزر گئے خطرہ تو بہت تھا مگر پولیس کے کافی انتظام سے خطرہ ٹل گیا۔
کیا یہی تعلیم اسلام ہے۔ ؟ لطف یہ کہ ایسی رسوم قبیحہ کو بجائے بند کرنے کے اور مزید قوت دی جاتی ہے۔ اور اس کو مزہبی شکل میں یاد گار بنایا جاتاہے۔ چنانچہ اخبارشیعہ میں ایک مضممون نکلا ہے۔ جس میں مضمون نگار نے علمی جوہر دکھا کر اپنے دین ویانت کا پورا مظاہرہ کیاہے۔ چنانچہ وہ مضمون نمبر وار درج زیل ہے۔
''عقلائے زمانہ نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کہ ہر چیز جو اپنی صلاحیتوں کے قابل قدر خصوصیتوں کے سبب سے دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا نام چھوڑ جائے۔ یا ایسے کار نمایاں کر جائے۔ جو آئندہ نسل انسانی کے لئے سبق دینے والے ہوں تو وہ اس کی حقدار ہے۔ اس کی یاد ہمیشہ تازہ رکھی جائے۔ اس میں کسی مذہب وملت کی تفریق بھی نہیں ہے۔ ایک دریا دل صاحب جو دوسخا انسان اپنی خصوصی صفت کے باعث انسان کی محبت کا باعث ہوتاہے۔ ایک سچائی پر جان دینے والا پر جگر شخص ہر انسان کی عقیدت کا مرکز بن جاتاہے۔ ایک نیک دل خوش اخلاق آدمی کی ہر ایک تعریف کرتا ہے۔ یہ تمام انسانی اوصاف ہیں جس کا قدر دان ہر انسان ہے۔
اسی طرح غیر انسان جاندار مخلوق میں امتیازی صفات ہر شخص کی توجہ کا باعث ہوسکتے ہیں۔ مہذب اور متمدن جماعتیں یاد گار قائم کرتی ہیں۔ اور یاد تازہ رکھتی ہیں۔ ان جانوروں کی بھی جو کسی اہم واقعے میں کوئی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ مذہبی روایات میں اصحاب کہف کے کتے کا قرآن مجید تک میں زکر موجود ہے۔ اور وہ بھی انہیں امیتازی خصوصیتوں میں شریک کیاگیا۔ جو ’’اصحاب کہف کے لئے حاصل ہیں‘‘
(شیعہ لاہور محرم نمبر 1326ھ ص46)
علم مناظرہ میں ایک اصطلاح ہے۔ جس کو نقض اجمالی کہتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ کسی مدعی کی دلیل کو بایں طریق توڑا جائے کہ فلاں جگہ متخلف ہوجاتی ہے۔ اس لئے اس میں تقریب تام نہیں ہے۔ یہاں اس کا اجر اس طرح ہے۔ اگر ایسی یادگاریں بنانا ضروری ہے۔ تو کیا آئمہ اہل بیت نے بھی ایسا کیا تھا۔ مگر نہیں کیا تو ان کو عقلاً دین داروں میں شمار کریں گے یا نہیں۔ انھوں نے اس عقلمندی اور دین داری کو کیوں چھوڑا اور اگر نہیں چھوڑا اس پر عمل کیا تو اس کا ثبوت دیجئے۔ اصحاب کہف کا زکر قرآن مجید میں ان کی تعلیمی حیثیت سے ہے۔ کہ انھوں نے ایسا کیا اور ویسا کیا۔ آپ کو اس سے کون منع کرتا ہے۔ کہ جو واقعات صحیحہ کتابوں میں درج ہیں ان کو اصحاب کہف کے قصے کی طرح غور سے پڑھیں۔ چاہے محرم کا مہینہ ہو یا رمضان کا یہ تو نہ کریں کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ کی نقلیں بازاروں میں پھرایئں۔ جس کی وجہ سے ملک میں فساد ہو۔
قیاس کرتے ہوئے مقیس مقیس علیہ میں مشابہت بھی تو دیکھا کرو۔ کیا قرآن کے نزول کے وقت سے لے کر آج تک مسلمانوں کے کسی طبقہ نے اصحاب کہف یا ان کے کتے کے سوانگ بھرے۔ جیسا کہ آج تعزیوں کے بھرے جاتے ہیں۔ کہتے ہوئے کچھ تو سوچا کرو کہ کیا کہتے ہو۔ آخر خدا کے سامنے جانا ہے۔ وہاں جا کر زرہ زرہ کا حساب دینا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ اہل بیت کے سچے تابعداروں کو یہ کہنے کا موقع ملے۔
عجب مزا ہو کہ محشر میں ہم کریں شکوہ وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کےلئے
دوسرا نمبر اس سے بھی عجیب تر ہے ۔ چنانچہ اس میں لکھا ہے۔
''کربلا کا اہم واقعہ جو 61ھ میں دسویں محرم کو رونما ہوا وہ اپنے نتائج کے اعتبار سے تمام دنیا کی تاریخ کا ایک اہم سبق آمو ز صحیفہ ہے۔ جہاں تمام انسانی صفات وخصائل عملی طور پر پیش کئے گئے۔ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دم توڑتی ہوئی انسانیت کونئے سرے سے زندہ کردیا۔ اور انسانیت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچا دیا۔ اور اپنی جان دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہ نمونہ قائم کردیا۔ جس کی پیروی ہمیشہ کےلئئے معیار انسانیت رہے گی۔ پس ایسے اہم واقعہ کی یادگار قائم کرنا ہر اس صورت سے جو اس واقعہ کی یاد باقی رکھنے میں مفید ثابت ہوسکے ایک اہم انسانی فرض ہے۔ '' (حوالہ مذکور)
اس موقعہ پر ہمیں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا ہی عرض کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے داماد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ زوالنورین داماد رسول الثلقین ﷺ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعات شہادت کا کیا کم اندوگہیں اور نتیجہ خیزہیں۔ کہ ان کی یاد گار نہ منائی جائے۔ ہاں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بھائی امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی بے یادگار کیوں چھوڑا جائے۔ حالانکہ وہ بھی شہید ہوئے ہیں وہ کونسی مزیت ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد تازہ رکھی گئی۔ اور باقی سب کو بھلا دیاگیا۔ کیا اس کی بابت کوئی حدیث یا اہل بیت سے کوئی روایت آئی ہے۔ قُل هاتوا بُرهـٰنَكُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿٦٤﴾سورة النمل
نہ صرف ہماری بلکہ تمام اہل حجاز (مکہ مدینہ والوں) کی ابتداء سے آج تک یہی رائے ہے کہ واقعہ کربلا کو بالکل بھلا دیا جائے کیونکہ زمانہ خلافت میں بھی اس کی یاد گار تازہ نہیں کی گئی۔ یہ سب تیموربادشاہ کی ایجاد ہے۔ اس قسم کے واقعات کی یاد گار کی شکل میں دکھانا امت مسلمہ کو بدنام کرناہے۔ پس ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ جتنے اصحاب رضوان اللہ عنہم اجمعین اللہ کے راستے میں واصل بحق ہوئے ہیں ان کی نسبت یہی کہنا بجا ہے۔ (اہل حدیث 18 محرم 1366ہجری)
بنا کر دند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب