سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) وظیفہ شیئا للہ کب سے ایجاد ہوا ہے؟

  • 5877
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 7238

سوال

(92) وظیفہ شیئا للہ کب سے ایجاد ہوا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وظیفہ شیئا للہ کب سے ایجاد ہوا ہے۔ اور کس نے ایجاد کیا ہے۔ کیا حضرت شیخ عبد القادرجیلانی کے زمانہ کے بعد میں ایجاد ہوا ہے۔ اس کے پڑھنے والے کو کیا گناہ ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیا للہ کے معنی ہیں کوئی چیز دیجیے اللہ کے لئے یہ آواز عرب کے گداگروں کی تھی۔ جو گھروں سے باہر کھڑے ہو کر کہا کرتے تھے۔ اے گھر والو اللہ کے لئے کچھ دو۔ اس میں مخاطب گھ والے ہوتے تھے۔ جو اس سائل کو کچھ دے سکتے تھے۔ اس صورت میں بھی بعض علماء نے ایسا کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ وجہ یہ لکھی ہے کہ ا میں اللہ کے نام کی ہتک ہے۔ (در مختار) اس کے بعد لوگوں نے فوت شدہ اولیاء اللہ کو مخاطب کر کے بطور سوال کے یہ کہنا شروع کیا۔ خذ بيدي يا شاه جيلاني خذبيدي شيئا لله انت نور احمد ۔ ترجمہ۔ اے پیر جیلانی میرا ہاتھ پکڑیئے اللہ کےلئے کچھ دیجئے۔ آپ نوراحمد ہیں۔ یا یہ کہتے ہیں۔

شيئا لله چوں گدائے مستمند المدد خواہم ز خواجہ نقش بند

ترجمہ (میں فقیر کی طرح خواجہ نقشبند کی خدمت میں عرض کرتا ہوں للہ مجھے کچھ دیجئے۔ ) ایسا کہنے سے تین طرح سے شرک آتا ہے۔ ایک تو وہی وجہ جو گداگروں لئے بعض فقہا نے بتائی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ فوت شدہ کو حاضر ناظر یا عالم الغیب و سامع صورت (آواز سننے والا) جانتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کو معطی (دینے والا) سمجھتا ہے۔ اس لئے ایسے وظیفے سے بچنا چاہیے۔ خدا فرماتا ہے ۔ فَاجتَنِبُوا الرِّ‌جسَ مِنَ الأَوثـٰنِ  ﴿٣٠سورة الحج

یہ خدا کی صفت خاصہ ہے۔ الا هو معكم (اہل حدیث امرتسر ص13 25 زی الحجہ 1351؁ء)

یا شیخ عبد القادر شيئا لله

امرتسر میں ایک رسالہ اس نام کا شائع ہوا ہے۔ جو ہم نے سرخی میں لکھا ہے۔ اسی کی طرف ہمارا روئے سخن ہے۔ اس رسالے کے دیکھنے سے ہمیں خوشی ہوئی کیونکہ اس سے اختلاف کا بہت سا حصہ طے ہوگیا۔ اصل معنی اس فقرے کے یہ ہیں۔ ''اے شیخ عبد القادر اللہ کے واسطے کچھ دیجئے۔ '' مفہومصاف ہے کہ پڑھنے والا شیخ ممدوح سے کچھ مانگتا ہے۔ اس لئے علماء توحید اس کے پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسا کرنے میںتین گناہ ہیں۔ ایک توفوت شدہ کو پکارنا۔ دوم اس کو قاضی الحاجات سمجھنا۔ تیسرا اس سے مانگنا۔ یہ تینوں امور ایسے ہیں۔ کہ نصوص قرآنیہ میں ممنوع ہیں۔ ہمارے اس دعوے کی بابت ایک ہی آیت کافی ہے۔

إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمثالُكُم ۖ فَادعوهُم فَليَستَجيبوا لَكُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١٩٤ (پ9 ع 12)

’’ یعنی جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ پس ان کو بلا لو چاہے کہ تمہاری دعا قبول کریں۔ اگر تم سچے ہو‘‘

یہ آیت جملہ ان لوگوں کو چیلنج ہے۔ جو اللہ کے سوا زندہ اور مردہ کو پکارتے ہیں۔ جن میں حضرت مسیح ؑ وغیرہ بھی داخل ہیں۔ اس لئے ان کو عباد (بندے) فرما کر مشرکوں کو ڈانٹتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مضمون کی متعدد آیات سے متاثر ہوکروظیفہ شیئا للہ پر وظیفہ پڑھنے والوں نے اب نرم چال اخیتار کی ہے جو اس رسالے میں درج ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔

''جوشخص حضرت غوث الاعظم کو حاضر وناظر یا عالم الغیب یا حاجت روا مطلق سمجھ کر اس وظیفہ کوپڑھے۔ تو یہ پڑھنا شرک اور کفرہے۔ ص5۔ الحمد للہ!اتنے حصے میں تو اتفاق ہوگیا اب رہا دوسراپہلو جو اس رسالے میں اختیا ر کیاگیا وہ یہ ہے۔ ''اگر بلاعقیدہ مذکورہ بالا ان کلمات کو برکت سے بازن اللہ تعالیٰ فیض وحل مشکلات چاہے تو جائز ہے۔ ص5۔ اس کی مزید تشریح یوں کی ہے۔

؛؛اگر کوئی شخص حضر ت غوث پاک کی طرف متوجہ ہوکربلاعقائد شرکیہ اس کلام کو پرھے۔ اورحضرت غوث پاک باذن اللہ اس کو سنیں۔ اور اس غریب کے حال پر توجہ فرمایئں تو اللہ جل شانہ کی قدرت اوراولیاء اللہ کے خاصہ اور کرامت سے کچھ بعید نہیں (ص6)

اللہ اکبر اتنا بڑا وظیفہ اور اتنا زوردار مسئلہ جس سے مسلمانوں میں اختلاف کی خییج وسیع ہوکرکفرتک پہنچنے ثبوت اس کا یہ کہ ’’بعید نہیں‘‘ اس کی مثال یہ ہے کہ مولوی صاحب وعظ میں فرمایئں۔ جوشخص صبح سویرے خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار کی زیارت کو جائے۔ ’’خدا کی قدرت سے بعید نہیں کہ روزانہ راستے میں روپوں کی تھیلی پائے‘‘

ناظرین کرام غور فرمایئں۔ بعید اور غیر بعید کا لفظ کتنا وسیع ہے۔ اس لئے ہم اس فقرہ کے متعلق چند سوال کرتے ہیں۔

1۔ ''یا شیخ عبد القادر''اس کی نحوی ترکیب کیا ہے۔ ''شیخ'' نکرہ اور عبد القادر معرفہ یہ بات علم نحو کے خلاف ہے۔ کہ نکرہ اور معرفہ باہمی صفت موصوف ہیں۔

2۔ شیئا منصوب کیوں ہے۔ اگر جواب ملے کہ اعط کا مفعول بہ ہے۔ تو سوال ہے کہ فعل امر یہاں کس قاعدے سے حذف گیا گیا ہے۔ ان دوسوالوں کے لا دنحل ہونے سے ثابت ہوگیا۔ کہ اس وظیفے کی تعلیم دینے والا علوم عربیہ سے واقف نہ تھا۔

3۔ یہ سوال فیصلہ کن ہے ٖغو رسے سنیں۔ یہ و ظیفہ کس نے سکھکایا اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ نے یا خود شیخ عبد لقادر نے جو صورت اختیار کریں۔ مہربانی کر کے اس کا حوالہ دیں۔

4۔ اگر خدا یا رسول یا خود شیخ نے نہیں سکھایا۔ تو پھر کیونکہ معلوم ہوسکے۔ کے اس پڑھنے میں برکت ہے۔

5۔ اگر کوئی مسلمان اس وظیفے کو بے ثبوت جان کر نہ پڑھے۔ بلکہ اس کے ظاہر معنی کے لہاظ سے اس کا پڑھنا گناہ سمجھے۔ تو اس کا کیاقصور ہے۔

6۔ اس کے اصلی ترجمے سے تو یہ مفہوم ہوتا ہے۔ کہ پڑھنے والا تو پیر صاحب کو داتا جانتا اور معطی خیر سمجھتا ہے۔ محض برکت کے لئے پڑھتے وقت اس کے اصلی ترجمے کا خیال نہ رکھے۔ ؟یا اس کو خیال نہ آئے گا۔

7۔ عربی زبان میں راعنا۔ اور انظرنا۔ کے ایک ہی معنی ہیں۔ (کہ ہماری طرف نظر کرو) مگر راعنا کے ایک معنی ناپسندیدہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لئے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ لا تَقولوا ر‌ٰ‌عِنا وَقولُوا انظُر‌نا وَاسمَعوا ۗ

’’تم مسلمان راعنا نہ کہا کرو کہ بلکہ انظرناکہا کرو‘‘ شیئا للہ کے بھی دو معنی ہیں۔ ایک شرکیہ دوسرے آپ کے بقول غیر شرکیہ۔ پھر ہم بما تحتلا تقولوا راعنا کیوں نہ اس کوچھوڑنے کا حکم دیں۔

8۔ فقہ کی مستند کتاب رد المختار میں مرقوم ہے۔ اذا تردد الحكم بين سنة وبدعة كان ترك السنة راجعا علي فعل البدعة (مصری جلد اول ص450)

''ترجمہ۔ جب کسی امر کے سنت یا بدعت ہونے میں تردد ہو تو سنت کوچھوڑ دینا بدعت پر عمل کرنے سے اولیٰ (بہتر ) ہے۔ یعنی کسی غیر منصوص امر میں تردد ہوکرسنت ہے۔ یا بدعت تو اس کو بالکلیہ چھوڑ دینا اچھا ہے۔ مثلارسمی میلاد کے متعلق اگر کوئی شخص فیصلہ نہ کر سکے۔ قائل فریق کے دلائل سن کر سنت سمجھے۔ اور غیرقائل کے دلائل سن کر بدعت خیال کرے۔ تو اس صورت میں اس فعل کو نہ کرنا ہی اچھا ہے۔ یہ ہے اس عبارت کا مطلب اس اصل الاصول کے ما تحت وظیفہ شیئا للہ کیوں نہ چھوڑ دیا جائے۔

ناضرین کرام!

 جب تک یہ سوالات حل نہ ہوں۔ اس وظیفہ کا پڑھنا کسی طرح بھی جائز نہیں اور اصل بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہر قسم کے وضائف موجود ہیں۔ دفع امراض۔ قضائے حاجات۔ طلب امداد۔ مغفرت گناہ۔ مغفرت اموات۔ صلاحیت اولاد وغیرہ سب کے لئے دعایئں۔ اور وظائف ملتے ہیں۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ خدا اور رسول ﷺ کی تعلیمات کو چھوڑ کر غیر معلوم اشخاص کی تعلیم کے پیچھے جایئں۔ ایسا کرنا خدا اوررسولﷺ کی بُری ہتک ہے۔ خدا ہم کو ہر طرح کے فعل قبیح سے بچائےبھایئو! شیخ سعدی کی نصیحت سنو۔ !

مپندار سعدی کہ راہ صفا       تواں رفت جز ورپے مصطفےٰ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 295-299

محدث فتویٰ

تبصرے