السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک ضروری استفسارَ
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بحضور علامہ مدیر اہل حدیث دام فیوضہم
السلام و علیکم ! واضح ہو کہ کئی ایک طریق ہائے باطلہ نے حدیث رسول ﷺ کو محض ا پنی کم علمی اور عدم فہمی کی وجہ سے مورد الزام وطعن بنا رکھا ہے۔ اور یا ہر وقت کوئی ن کوئی الزام اس شریف علم کے ساتھ تھوپا جاررہا ہے۔ باقی فرقہ ہا کو جانے دیجئے۔ صرف فرقہ شعیہ ہی کو لیجئے۔ اس کو حلم حدیث سے اس قدر دوری ہے۔ کہ خدا کی پناہ۔ کئی ایک رسالے واخبارات حدیث کی برائی اور ہجو میں سیارہ ہورہے ہیں۔ آج خاکسار ان کے ایک رسالے''اصلاح'' کے دو اعتراض نقل کرکے آنجناب کی خدمت میں بغرض جواب بھیج رہا ہے۔ ملاحظہ ہو کہ کس قدر دیدہ دہنی سے مضمون نگار نے حدیث شریف پر بیجا حملہ کیا ہے۔
چنانچہ پہلی صفت چوری کرنا ہے۔ اس کی روایات آپ ﷺ کےمتعلق ملاحظہ ہوں۔ سنن ابو دائود اور جامع ترمذی سے جو دونوں صحاح ستہ میں داخل ہیں۔ کتاب تلخیص الصحاح مطبوعہ لاہور جلو اول ص 142 میں یہ عبارت مرقوم ہے۔
"عن ابن عباس قال نولت هذه الايات وما كان لنبي ان يغل في قطيفه حمراء فقد ت يوم بد ققال بعض القوم لعل رسول اله صلي الله عليه وسلم اخذ ها فانزل اله تعالي هذه الايات" (ابو داؤد۔ ترمذي)
یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آیت مبارکہما كا ن لنبي ان يغل (یعنی یہ نبی کا کام نہیں ہے کہ کوئی چیز چرالے) کی شان نزول اس طرح مروی ہے۔ کہ بد ر کی لڑائی میں غنیمت کے مال سے ایک سرخ رنگ کی رویئداد چارد کھوئی گئی۔ تو بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے کہا کہ شاید رسول خداﷺ نے چرائی ہو۔ تب خدا نے یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ ابو دائود۔ ترمذی اس کے راوی ہیں۔
روایت صحیح بخاری کا دوسرا حصہ یا مضمون یہ ہے کہ کوئی شخص زنا بھی کرے و جنت میں جائے گا۔ حضرات اہل سنت نے اس میں بھی جناب رسالت ماب ﷺ کو بتلا کردکھانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اسی بخاری مطبوعہ مصر جلد 3 ص 167 کتاب الطلاق میں ہے۔
حدیث شریف کے صرف ترجمے پر اکتفا کی جاتی ہے۔ یعنی اوزاعی کہتے ہیں کہ می نے زہری سے دریافت کیا کہ آپﷺ کی بیویوں میں سے کسی نے جناب رسول خداﷺ سے خداکی پنا ہ مانگی تھی۔ تو زہری نے کہا مجھ سے عروہ نے بیان کیا کہ اس سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تھا کہ جون کی بیٹی جب حضرت رسول خداﷺ کی خدمت میں لائی گئی۔ اور حضرت ﷺ جب اس کے قریب ہوئے تو اس نے حضرت کو خطاب کرکے کہا۔ اعوذ بالله منك (اے محمد ﷺ میں تم سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔ ) تو حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم نے بڑی ذات کی پناہ مانگی۔ اپنے خاندان میں واپس چلی جائو۔
ابو اسید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم ہم لوگ جناب رسول للہ ﷺ کے ساتھ مدینے سے باہر ایک باغ کی طرف چلے جس کو شوط کہتے تھے۔ یہاں تک ہم لوگ دو باغوں کے قریب پہنچے۔ اور ان دونوں کے درمیان میں بیٹھ گئے۔ تاکہ دونوں باغ دونوں طرف سے پردے کا کام کریں۔ اور ہم لوگوں کی کاروائی کسی آنے جانے والے پر ظاہر نہ ہو۔ وہاں پہنچنے پر جناب رسول اللہﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ یہیں بیٹھ جائو۔ اور خود حضرت خود اندر داخل ہوئے۔ جہاں جونیہ لائی گئی تھی۔ اور امینہ بنت النعمان بن شراحیل کے گھر میں کھجور کی شاخوں میں ایک کمرہ میں بٹھائی گئی تھی۔ اور اس کے ساتھ اس کی دایہ حاضنہ بھی تھی۔ غرض جب آپﷺ اس جونیہ کے پاس پہنچے تو اس نے کہا مجھے اپنا نفس بخش دے۔ اس پر وہ فورا بولی۔ کیا شہزادی بھی بازاری لوگوں کو اپنا نفس بخشتی ہے۔ ؟یہ سن کر آپﷺ نے اپنا ہاتھ ادھر بڑھایا اس بدن پر کھتے تھے۔ تاکہ وہ نرم ہوجائے۔ مگر وہ بگڑ گئی اور کہا اعوذ بالله منك۔ میں تم سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔ کیونکہ اس کے سوا اس مجبوری میں اور کیا کرسکتی تھی۔ جب معاملہ ایسا پیش آگیا تھا تو غالبا اس نے بلند آواز سے کہا ہوگا۔ جو باہر تک گونج گئی ہوگی (کیونکہ جب وہ راضی نہ تھی تو آہستہ کہنے کی کوئی وجہ نہ تھی) تو حضرت نے اس سے کہا کہ تم نے بڑی پنا ہ مانگی۔ پھر حضرت (مایوس ہوکر) اس گھر سے نکل آئے۔ اور مجھ سے کہا اے ابو اسید اس کو دو رازقیہ پہننے کو دے دو (جو کتان کا سیسہ کپڑا ہوتا ہے۔ ) اور اس کے گھر تک واپس پہنچا دو۔ انتحیٰ
شعیہ مضمون نگار اس حدیث کے ترجمہ سے فراغت حاصل کر کے اپنا ریمارکس لکھتا ہے۔
""اس روایت سے معلوم ہوا کہ وہ عورت جونیہ سے نہ خود ائی نہ اپنے اہل و عیال کی اجازت سے طلب کی گئی ۔ اور یہ معاملہ اس ورجہ مخفی کیا گیا کہ حضرت اپنے مخصوص اصحاب کے ساتھ مدینے سے باہر دو باغوں کے درمیان میں ٹھرے۔ اور کھجو ر کا ایک کمرہ بنا یا گیا۔ اس میں وہ رکھی گئی۔ حضرت نے اس سے اپنی خواہش ظاہر کی۔ تو اس نے انکا ر کیا۔ اس پر حضرت نے ہاتھ بڑھا کر کوشش کرنی چاہی مگراس نے تیور بدل دیا جس پر حضرت مجبور ہو گئے۔ جو واضح کرتا ہے۔ کہ حضرت کی نیت اس کے ساتھ کیا تھی؟ حالانکہ اسی صحیح بخاری کی پہلی حدیث یہ ہے۔ انما الاعمال بالنيات یعنی انسان کے اعمال اس کی نیت پر موقوف ہے ۔ پس جب حضرت کی نیت واضح ہوگئی تو اب کیا امر باقی رہا۔ اس روایت سے ایک اور امر معلوم ہوا کہ آپﷺ اپنی خواہش نفسانی کے پورا کرنے میں خداوند عالم کے دوسرے احکام کی مخالفت کا بھی زرہ برابر پرواہ نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ یہ عورت جونیہ کسی کتاب سے معلوم نہیں ہوتا کہ مسلمان رہی ہو۔ اس لئے کہ جو مسلمان عورت حضرت کی صحبت میں ایک منٹ بھی بیٹھ جاتی تھی۔ وہ صحابیہ کی صفت سے متعصف ہوجاتی تھی۔ پس یہ عورت اگر مسلمان ہوتی تو یہ بھی صحابیہ ہوتی۔ حالانکہ علامہ بحر عسقلانی نے اصابہ فی تمیز الصحابہ میں جن اصحابی عورتوں کا نام لکھا ہے۔ اس میں اس عورت کا نام بھی نہیں لیا۔ مگردوسری عورتوں کے زکر میں اس کا قصہ لکھا ہے۔ مگر صحابیات میں اس کا زکر نہیں لہذا ثابت ہوا کہ یہ عورت مسلمان نہیں تھی۔ بلکہ مشرکہ تھی۔ اورغالبا یہی وجہ تھی کہ جب وہ باغ میں لائی گئی۔ اور حضرت اس کے پاس تشریف لے گئے۔ تو اس سے یہ نہیں فرمایا کہ (انكحي اياك اياي يا انكحي نفسك اياي) اپنا نکاح مجھ سے کردے۔ نہ یہ فرمایا کہ زوجي نفسك مني یعنی اپنی تزویج مجھ سے کردے۔ بلکہ وہ لفظ فرمایا جو ناجائز طریقے پر مطلب حاصل کرنے کے لئے مشرکہ عورتوں سے کہا جاتا ہے۔ کہ هبي نفسك لي یعنی تو اپنا نفس مجھے بخش دے۔ حالانکہ مشرکہ عورتوں سے تو نکاح کرنے تک سے خدا نے منع فرمایا ہے۔ چہ جائکہ اس سے مطلب پورا کرنا۔ چنانچہ سورہ بقرہ رکوع 11 میں فرماتا ہے۔ وَلا تَنكِحُوا المُشرِكـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ ۚ﴿٢٢١﴾سورة البقرة
’’اے رسول! تم اور کل مسلمان مشرکہ عورتوں سے نکاح تک نہ کرنا۔‘‘ لیکن حضرات اہل سنت کی نہایت صحیح دینی کتاب صحیح بخاری کہتی ہے۔ کہ آپﷺ نے مشرکہ عورت سے بغیر نکاح ہی کے مطلب برآری کی کوشش کی۔ شاید اس بارے میں کہا گیاہے ۔ چو کفر از کعبہ برخیز و کجا ماند مسلمانی
( ( (راقم ع۔ ح صدر الافاضل ۔ نقل رسالہ اصلاح از ص 32 نعایت ص 36 نمبر 1 جلد 28 ) ) ) رقیمہ نیاز فقیر ابو نعیم عبد الرحیم متعلم جامعہ ٹھل حسن خان ڈاک خانہ کوٹ سمابہ ریاست بہاول پور)
سائل ھذا نے جس سوال نمبر 2 کو آج شیعہ رسالہ سے نقل کر کے بڑی تڑپ سے جواب طلب کیاہے۔ اس کا جواب اہل حدیث مورخہ 3 نومبر 1922ء میں ہم نے دیا ہوا ہے۔ آج بھی حسب منشاء سائل دیگر جدید خریداروں کےلئئے مختصرطور پر ہم بتاتے ہیں۔
جواب۔ نمبر1۔ قرآن شریف کی شہادت ہے کہ بعض بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو کچھ ایسا الزام یا عیب لگایا جس سے ان کو تکلیف ہوئی۔ اور خدا نے ان کو اس الزام سے پاک کیا غور سے پڑھیے۔ ۔ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَكونوا كَالَّذينَ ءاذَوا موسىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمّا قالوا ۚ وَكانَ عِندَ اللَّهِ وَجيهًا ﴿٦٩﴾
ترجمہ۔ یعنی مسلمانو۔ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کو تکلیف دی ۔ پھر خدا نے اس کو اس الزام سے پاک کیا۔ (پ22 ع 6)
بتایئے دشمن تہمت لگائے۔ اور خدا اس تہمت کو دور کرے تو یہ کوئی نقص ہے۔ یا تعریف یہ ہے قرآنی فیصلہ اور فرقانی اصل الاصول۔
اب سنئے۔ ! اس طرح کسی بے ایمان منافق نے کہہ دیا کے رسول اللہﷺ نے چادر غبن کرلی ہے۔ خدا نے باالفاظ خوداس الزام کو دفع کیا تو رسول اللہﷺ کی کمال عصمت ثابت ہوئی یا نقصان؟کیا یہ سچ ہے۔
گل است سعدی ودرچشم دشمناں خارااست
جواب نمبر 2۔ اصل باعث فساد راقم مضمون کا وہ عناد ہے۔ جو سارے آئمہ امام خصوصا امام بخاری ؒ سے ان کو ہے۔ ورنہ دیانت اورصداقت سے کام لیتے تو جو روایت معترض نے امام بخاری کی نقل کی ہے۔ اس میں اس اعتراض کا جواب موجود ہے۔
تزوج النبي صلي اله عليه وسلم اميقه بنت شراحيل فمما ادخلت عليه بسط يده اليها فكا نها كرهت فامر ابااسيد ان يجهرها وينكسوها ثوبين وافقين (صحیح بخاري ص790)
اس روایت کے شروع میں صاف لفظوں میں زکر ہے۔ کہ آپﷺ اس عورت سے نکاح کرچکے تھے۔ جب آپﷺ اس کے پاس گئے تو اس نے آپﷺ کو دیکھا نہ تھا۔ اس لئے پہچانا نہیں اس عدم پہچان میں اس نے کراہت کی حالت میں آپﷺ کو کہہ دیااعوذبا الله منك جیسے حضرت مریم ؑ نے جبریئل ؑ کو مرد کی صورت میں دیکھ کر کہا "إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَـٰنِ مِنكَ ﴿١٨﴾ (مریم)" آپﷺ نے اس کراہت کا جواب ترک سے دیا۔ کیونکہ آپﷺ نے سمجھا کہ جبراً اس عورت کو رکھنا اچھا نہیں حکم دیا کہ اس کو جوڑا کپڑوں کا دے کر عزت کے ساتھ رخصت کرو۔ ہم نے جو کہا کہ اس عورت نے عدم معرفت میں ایسا کیا اس کا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ "قالو لها اتدرين من هذا قالت لا قالوا هذا رسول الله صلي الله عليه وسلم"
لوگوں نے اس عورت کو کہا تو جانتی ہے یہ کون ہیں؟اس نے کہا نہیں میں نہیں جانتی لوگوں نے کہا یہ رسول للہ ﷺ ہیں۔ الخ پس اس قصے کی ساری روایات سامنے رکھ کر ٖغور کریں۔ تو آپﷺ اس نیت سے جونیہ کے پاس گئے تھے۔ جس نیت سے خاوند بیوی کے پاس جاتا ہے۔ جو کسی مذہب میں ناجائز نہیں پس ایسے رفاض معترضین کو کہہ دو۔ ع (4 زی الحجہ 51ھ) ایں گنا ہیست کہ در شہر شما نیز کنند
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب