سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(83) کیا قرآن و حدیث دونوں کا ماننا ضروری ہے؟

  • 5867
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3876

سوال

(83) کیا قرآن و حدیث دونوں کا ماننا ضروری ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قرآن پاک اور حدیث شریف دونوں کا ماننا ضروری ہے۔ یا قرآن پاکافی ہے۔ جونسا شق اختیار کیا جائے۔ مدلل قرآنیہ سے ہے۔ یعنی دلیل قرآن پاک کی آیت ہو اور بس (محمدسلیم از پٹنہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دونوں کا ماننا ضروری ہے۔ ۔ ۔ قرآن کی آیت سے۔ إِنَّما كانَ قَولَ المُؤمِنينَ إِذا دُعوا إِلَى اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم أَن يَقولوا سَمِعنا وَأَطَعنا ۚ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٥١

حدیث کی شرعی حیثیت

از جناب امین افغانی صاحب

آ پﷺ کے بابرکت زمانےسے لےکر پچھلی صدی تک کے تمام مسلمان اس بات پر متفق رہے ہیں۔ کہ قرآن پاک کے بعد احادیث نبویﷺ مسلمانوں ک لئے رشدو ہدایت کا منبع او خیر وبرکت کا سرچشمہ ہیں۔ لیکن جہاں اس صدی میں بعض لوگوں نے مذہب کے دوسرے مسائل کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہاں ایک گروہ اس قسم کا بھی پید ہوا ہے۔ جس نے اعلان کیا ہے۔ کے احادیث نبوی کو مذہبی حیثیت سے کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ اس لئے کہ خودقرآن کریم ہرمزہبی امر کو کافی وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ اوروہ مسلمانوں کی رہمنائی کرنے میں کسی معاون کسی مددگار ار شریک کا محتاج نہیں۔ یہ زعم فاسد ان لوگوں کے دلوودماغ پر اس طرھ مسلط ہوچکا ہے کہ ان کے نزدیک احادیث پر عمل کرنا اور آپ ﷺ کے بتائے ہوئے دستور العمل پر چلنا راہ حق سے بھٹک جانے اور اسلام کی روشن تعلیمات سے دور پڑ جانے کے مترادف ہے۔ یہی وہ جہ ہے کہ وہ کھلے بندوں احادیث نبویہ کی تردید کرتے اور ہر ناجائز طریقے سے اس بات کی کوشش کرتے ہیں۔ کے مسلمانوں کے ہاتھ سے آپﷺ کا دامن چھڑالیں۔

وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے اس قلع کر سر کرلیا۔ تو پھر مسلمان من مانی تاویلوں کے گورکھ دھندے میں پھنس کر قرآن مجید کو خود بخود چھوڑ بیٹھیں گے۔ اور ایک دفعہ پھر ہندوستان کی زمین توحید کے نور سے خالی ہوجائے گی۔ اور مادر وطن کے یہ سپوت متحدہ قومیت کے خواب کی تعبیر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ يُر‌يدونَ أَن يُطفِـٔوا نورَ‌ اللَّهِ بِأَفو‌ٰهِهِم وَيَأبَى اللَّهُ إِلّا أَن يُتِمَّ نورَ‌هُ وَلَو كَرِ‌هَ الكـٰفِر‌ونَ ﴿٣٢

انکار حدیث کی اصل وجہ

 میں نے اس فرقہ کے زمہ دار حضرات سے اس بارہ میں گفتگو کی ہے۔ اور گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھ کر یہ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ کہ ان لوگوںکا نظریہ کیا ہے۔ اور چاہتے کیا ہیں۔ اصل بات جو میں نے سمھی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ مذہبی پابندیوں اورشرعی قیودسے تنگ آگکئے ہیں۔ اور ان احکام کو ماننے کے لئے تیار نہیں جو بہ تفصیل تمام احادیث میں مذکور ہیں۔ اس لئے چاہتے ہیں کہ کس طرح اسلام کی چلتی گاڑی ایک پیہ (احادیث) توڑ دیں۔ دوسرا پیہ خود بخود بیکار ہوجائئے گا۔ اور اپنے منصوبے میں کامیاب ہو کر کس قدر آذادی سے زندگی بسر کریں گے۔ قَد بَدَتِ البَغضاءُ مِن أَفو‌ٰهِهِم وَما تُخفى صُدورُ‌هُم أَكبَرُ‌ ۚ

ایک مبصر کی رائے

 ایک دفعہ میں ایک کیمرج کے مشہور فاضل سے گفتگو کر رہا تھا۔ مرزا صاحب کی نبو ت کا تزکرہ شروع ہوا تو اس فاضل نے کہا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے مرزا صاھب کا مقصد در اصل یہ تھا کہ وہ خود نبی بن کر نبوت کی اہمیت لوگوں کی نظروں میں گھٹا دیں۔ اسی طرح خود بخودمذہب کی اہمیت گھٹ جائے گی۔ اور فلسفیا نہ مذاہب (دہریت۔ زندقہ) کے لئے رستہ کھل جائے گا۔ لیکن مرزا صاحب نے اس مقصد کو ھاصل کرنے کے لئے جو راستہ اختیار کیا وہ عاقبت اندیشی پر مبنی نہیں تھا۔ اس لئے ان کو کامیابی نہیں ہوئی۔ مسلمانوں نے فورا ان کو جماعت سے الگ کر دیا۔ اور اس ک متعبین ایک حقیر سی اقلیت بن کر رہ گئے۔ ہا ں صاحب (امام اہل قرآن) نے نفسیات کے اس مسئلے پر اچھی طرح غور کیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ کہ جماعت کے عقائد دی میں اور تدریجی طور پر بدلتے ہیں۔ اس لئے جب انھوں نے دیکھا ہے کہ اب لوگ فقیر کی بندش سے تقریباآذاد ہوگئے ہیں۔ تو انھوں نے احادیث پر نقطہ چینی شروع کردی ہے۔ اور جب کچھ دنوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوجائےگا۔ تو وہ جمع تدوین قرآن میں رخنے نکالنے شروع کردیں گے۔ اور جب تک لوگوں کو اس عیاری کا پتہ نہ چلے گا۔ و ہ عوام او نئے تعلیم یافتہ طبقہ کے دل و دماغ کو اتنا معصوم کرچکے ہو ں گے۔ کہ اس کا تدارک کسی سے بھی نہ ہوسکے گا۔ يُخـٰدِعونَ اللَّهَ وَالَّذينَ ءامَنوا وَما يَخدَعونَ إِلّا أَنفُسَهُم وَما يَشعُر‌ونَ ﴿٩

جماعت اہل قرآن

ناظرین غالبا ی سمھتے ہوں گے کہ اہل قرآن کسی خاص جماعت کا نام ہے۔ جن کا مذہبی نظریہ ایک ہے۔ اور وہ کسی خاص عقیدے کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پہلے میرا بھی یہ خیال تھا۔ لیکن معلوم ہوا کہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ ان میں کا ہر ایک شخص خودامام اور مجتہدہے۔ اس کو کسی دوسرے کی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تقلید نام ہے پابندی کا اوراس پابندی سے بھاگنے کےلئے تو یہ کھیل سارا کھیلا گیا ہے۔ اس لئے یہ لوگ ایک دوسرے کی بھی نہیں سنتے۔ ہر شخص قرآن کو جس طرح سمجھتا ہے اسی طرح عمل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوئی خاص جماعت نہیں ہے۔ تَحسَبُهُم جَميعًا وَقُلوبُهُم شَتّىٰ ۚ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم قَومٌ لا يَعقِلونَ ﴿١٤

انکار حدیث

 یہی وجہ ہے کہ انکار حدیث ک بارے میں بھی ان کا نظریہ ایک نہیں ہے۔ بعض تو سرے سے ہی حدیث کو قابل استدلال ہی نہیں سمجھتے۔ بعض صرف اس کو تاریخی حیثیت دیتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اصولا حدیث سے مذہبی مسائل کے بارے میں استناد درست ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ احادیث کی تدوین بہت بعد میں ہوئی ہے۔ اس لئے ہم کسی حدیث کے متعلق وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔ کہ وہ آپﷺ کی فرمودہ ہے۔ گویا وہ لوگ چند ایک ضعیف یا موضوع روایتوں کی وجہ سے احادیث کے تمام ذخیرے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ۔ كَبُرَ‌ت كَلِمَةً تَخرُ‌جُ مِن أَفو‌ٰهِهِم ۚ إِن يَقولونَ إِلّا كَذِبًا ﴿٥

اگر ہم ان میں سے ہر ایک نظریہ کی الگ الگ تردید شروع کردیں۔ تو بحث لمبی ہو جائے گی۔ اور غالبا اس کا یہ نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلے گا۔ اس لئے ہم زیل میں ان لوگوں کے باہمی اختلافات سے قطع نظر کرکے صرف عام مسلمانوں کے فائدے کےلئے حدیث کی مذہبی حیثیت کو پیش کرتے ہیں۔

ضرورت حدیث ازروئے قرآن

1۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتا ب ہے۔ جو حضرت جبرئیل کی وساطت سے آپﷺ پر تیئس سال کے عرصے میں نازل ہوئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس کتاب کے متعلق آپ ﷺ کی حیثیت صرف ایک چٹھی رساں کی تھی۔ جس کا کام مکتوب کے مضمون سے واقفیت حاصل کیے بغیر اس کو مکتوب الیہ تک پہنچانا ہوتا ہے۔ یا یہ کتاب آپﷺ پر اس لئے نازل ہوئی تھی کہ آپﷺ اسے دوسروں کو سنایئں ۔ پڑھایئں۔ اور سمجھایئں۔ ظاہر ہے کہ آپ عامل قرآن ہونے کے ساتھ معلم قرآن بھی تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ۔ لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَ‌سولًا مِن أَنفُسِهِم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ


''ترجمہ۔ بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی احسان کیا جو ان میں ان ہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا وہ ان کو خدا کی آیتیں سناتا ہے۔ اور ان کو پاک کرتا ہے۔ اور ان کو کتاب اور علم سکھاتا ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آپﷺ کا منصب یہ ہے کہ آپﷺ لوگوں کو اللہ کی نازل کی ہوئی آیتیں سنایئں۔ اور ان کو قرآن کی باقاعدہ تعلیم دیتے وقت آپ یقینا آیات کی تشریح اور توضیح کے لئے اپنی طرف سے کچھ ارشاد فرمایئں گے۔ کسی مجمل آیت کی تفصیل بیان فرمایئں گے۔ کسی عام حکم کی تخصیص کریں گے کسی مطلق کی تقلید کریں گے۔ کسی عمل کا مفصل طریقہ بتایئں گے۔ اور وہ ارشادات فہم قرآن کے لئے نہایت ضروری اور لازمی ہوں گے۔ آپﷺ کے انہی ارشادات کو ہم حدیث کہتے ہیں۔ اور ان کواسی وجہ سے مذہب کا دوسرا رکن سمجھتے ہیں۔ کہ ان کے ذریعے قرآن کریم کی مختصر آیتوں کی تفسیر ہوتی ہے۔ اور مسلمانزید وعمر کی من گھڑت تاویلوں سے بچ کر آپﷺ کے دامن سے وابستہ رہتے ہیں۔ (تنبیہ) یاد رہے کہ جو شخص اس آیت پر ایمان رکھتا ہے۔ اور آپ ﷺ کو معلم قرآن تسلیم کرتا ہے۔ وہ کسی طرح احادیث کی مذہبی اہمیت کا انکار نہیں کرسکتا۔

2۔ اس امر پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ کہ ہمارا تعلق آپﷺ کے ساتھ اس قدر نہیں ہے۔ کہ آپﷺ حامل قرآن تھے۔ بلکہ اگر ہم مسلمان کا مل بننا چاہیں تو ہمیں اپنی دنیوی زندگی کے ہر شعبہ میں آپﷺ کی پیروی کرنی پڑے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّهَ كَثيرً‌ا ﴿٢١سورة الأحزاب

 اس آیت میں اللہ جل شانہ نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ اخلاق بطرز معاشرت ملکی معاملات اور قلبی اعمال وغیرہ سب میں آپﷺ کے اقوال و اعمال کی پیروی کریں۔ آپﷺ کے اقوال و اعمال کا یہ بیش بہا ذخیرہ مسلمانوں کو کہاں سے ملے گا۔ ؟آپ کی زندگی کے مفصل حالات کہاں سے دستیاب ہوں گے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ کتب حدیث سے اس لئے ہم کہتے ہیں۔ کہ قرآن کریم کی اس آیت پر ایمان لانے والے لوگ مجبور ہیں۔ کہ احادیث نبویہ ﷺ پر عمل کریں۔ اور ان کو مشعل راہ بنا کر منزل مقصود تک رسائی حاصل کریں۔

3۔ قرآن کریم ایک جامع کتا ب ہے۔ اور اپنی جامعیت کی وجہ سے تشریح اور توضیح طلب ہے وہ توضیح آپﷺ فرمایئں یا کوئی اور مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن توضیح اور بیان کا محتاج ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُر‌ءانَهُ ﴿١٧ فَإِذا قَرَ‌أنـٰهُ فَاتَّبِع قُر‌ءانَهُ ﴿١٨ ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ﴿١٩سورة القيامة ’’ترجمہ۔ (اے نبیﷺ) تم قرآن پڑھنے میں اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔ تاکہ اسے جلدی یاد کرلو۔ بے شک اس کا یاد کرادینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ پھر اس کا واضح کرنا ہمارے زمہ ہے۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی قراءت۔ جمع۔ تدوین۔ اور بیان کا خود ذمہ لیا ہے۔ اگر اس ذمہ داری کا ظہور اس طرح ہوا کہ قرآن کریم کی قراءت اور تدوین آپﷺ نے فرمائی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے مطالب کا بیان کون کرے گا۔ کیا اس کام کےلئے ہمیں کسی اورکے در پر دستک دینی پڑے گی۔ اگر نہیں تو ماننا پڑے گا۔ کہ فہم قرآن کو بیان نبویہ ﷺ کو پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ آپﷺ معلم او ر مبین تھے۔ اور آپ نے جو قرآن کے رموز بیان کیے ہیں۔ وہ سب کتب حدیث میں موجود ہے ۔ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ﴿٤٤سورة النحل

قرآن کریم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے۔ کہ آپﷺ کی پیروی کریں۔ اور اسی پیروی کو حب الہٰی اور نجات کی نشانی قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ وَيَغفِر‌ لَكُم ذُنوبَكُم ۗ﴿٣١سورة آل عمران

’’ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تاکہ اللہ تم سے خوش ہو اور تمہارے گناہ معاف کردے۔‘‘

 کیا منکرین حدیث یہ بتاسکتے ہیں۔ کہ آپﷺ کے اقوال و افعال سے انکار کرنے کے بعد بھی اپ کی پیروی کی جاسکتی ہے۔ اور کیا اتباع کے معنی یہ ہیں۔ کہ آپ کی ہر بات اور آپ کا ہر عمل متروک قرار دیا جائے۔

خلاصہ

 قرآن کریم میں اس قسم کی آیتیں بہت کافی ہیں۔ جن میں مسلمانوں کو اطاعت رسول ﷺ کا حکم دی اگیا ہے۔ اور ان کے ساتھ یہ تخصیص نہیں ہے کہ اطاعت رسول ﷺ سے یہ مراد فقط اس پر نازل شدہ آسمانی کتاب کو ماننا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں نے ہر زمانہ میں حدیث وسنت کی مذہبی قددر وقیمت کو محسوس کرکے ان کی خدمت کی ہے۔ اور مسلمانوں کو ایک روشن اور سیدھے راستے پر ڈال کر منصب وراثت نبوت کا حق ادا کیا ہے۔ اور آپ ﷺ کے زمانے سے لے کر اس صدی تک باوجود یہ کہ مسلمان بہت سے فرقوں میں منقسم ہوچکے ہیں۔ لیکن اسناد حدیث سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ تمام علماء اور صلحا مجتہدین ۔ آئکہ۔ تابعین اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین برابر قرآن کریم کے بعد احادیث نبویہ سے استدلال کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ کسی سنی کسی شعیہ کسی خارجی ۔ کسی ناصبی۔ کسی ظاہری۔ کسی باطنی نے کبھی حدیث کے حجت شرعی ہونے کا انکار نہیں کیا ہے اور جن اسلاف کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ کہ وہ حدیث کو حجت شرعی نہیں مانتے تھے۔ یہ صرف ان لوگوں کا دھوکہ ہے۔ ورنہ حدیث صحیحہ کا حجت شرعی ہونا ایک ایسا واضح مسئلہ ہے۔ جس پر تمام دنیائے اسلام کا ہمیشہ اجماع رہا ہے۔

حدیث اور امت اسلامیہ

 اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں۔ کے اس تیرہ سو سال کے اندر تمام دنیا میں جتنے بھی مسلمان گزرے ہیں۔ وہسب کے سب حدیث اور سنت کوحجت اور سند مانتے رہے اور وہ ہمیشہ قرآن مجید کی تعلیمات کو احادیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اب اگر ان چند متفرق الخیال آدمیوں کی بات صحیح مان لی جائے اور کہا جائے کہ مسلمانوں نے حدیث کو حجت شرعی سمجھ کر غلطی کی ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے۔ کہ آپﷺ کے زمانے سے لے کر اب تک جتنے مسلمان ہوگزرے ہیں۔ انھوں نے اسلام کو قطعا نہیں سمجھا ہے۔ بلکہ انہوں نے نعوذ باللہ اسلام میں تحریف کی ہے۔ کیونکہ انھوں نے ایک غیرمتعلقہ امر کو مذہب کا جزو بنا کر وہ گناہ کیا ہے۔ جس کا ارتکاب امم سابقہ میں احبار یہود کیا کرتے تھے۔ دین کو نہ سمجھنے یا دین میں تحریف کرنے کا یہ اعتراض اگر ما ومشا تک مھدود رہتا تو چنداں معیوب بات نہیں تھی۔ لیکن یہ اعتراض تو اتنا ہمہ گیر ہے۔ کہ اس کی زد میں وہ بزرگ بھی آجاتے ہیں۔ جو قرآن مجید کے اول مخاطب آپﷺ کے درس کے تربیت یافتہ اور بلاواسطہ آپ کے شاگرد تھے کیونکہ وہ حضرات برابر حدیث کوحجت شرعی مانتے اور ہمیشہ اس سے استدلال کیا کرتے تھے۔ پس اگر وہ سب اس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اور کسی ایک کو راہ حق معلوم کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ہے۔ تو ہم اس گناہ کو کارثواب سمجھتے ہیں۔

انکارحدیث اور اسلام

اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ اگرحدیث کوشرعی حجت سمجھ کر تمام دنیا کے مسلمان ہمیشہ سے غلطی کرتے چلے آئے ہیں۔ تو کیا اس کے معنی یہ نہ ہوں گے۔ کے نبی کریم اپنے مشن میں سخت ناکار رہے۔ (نعوذباللہ من ذالک) اور آپ جس اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ اس کو تیرہ سو سال تک کسی ایک انسان نے بھی سمجھا یہاں تک کہ اسلام کا نور ایک ہندوستانی کے دل میں جلوہ گر ہوا۔ اور اس نے قرآن کے رموز واسرار لوگوں پر ظاہر کر کے ان کو شرک اور تحریف کے گناہوں سے بچا کر راہ حق پر ڈالا۔

انکار حدیث اور قرآن

1۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید تو ریت کی طرح بیک وقت نازل نہیں ہوا بلکہ 23 سال کے عرصہ میں موقع اور ضرورت کے مطابق تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا کبھی ایک واقعہ پیش آجاتا۔ تو اس کے متعلق اللہ کی طرفسے ایک قطعی حکم نازل ہوجاتا۔ کبھی کوئی شخص آپ سے کوئی مسئلہ پوچھتا تو اس کا جواب حضرت جبرہئیل لے آتے۔ سو جب تک اس واقعہ کو مفصل طور پر نہ سمجھا جائے ۔ یا اس سوال کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔ قرآن کریم کا حکم ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس لئے قرآن کی متعلقہ آیت ان واقعات یا سوالات کے بارے میں افسر اعلیٰ کے آخری فیصلے کی طرح ہوتی ہے۔ جس کا سمجھنا مقدمہ مذکورہ کی ساری مثل کو سمجھنے پر موقوف ہوتا ہے۔ اس واقعہ اور سوال کی تفصیل احادیث ہی سے مل سکتی ہے۔ اس لئے فہم قرآن کےلئے احادیث کو پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے۔

2۔ کبھی قرآن مجید ایک کام کا حکم دیتا ہے۔ لیکن اس کے کرنے کا طریقہ نہیں بتاتا مثلا ارشاد ہوتا ہے: وَأَقيمُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتُوا الزَّكو‌ٰةَ وَار‌كَعوا مَعَ الرّ‌ٰ‌كِعينَ ﴿٤٣سورة البقرة ’’نماز پڑھو ۔ اور ذکواۃ دو‘‘

لیکن یہ نہیں بتاتا کہ نماز کس طرح پڑھنی چاہیے۔ اس کے اوقات کیا ہیں۔ شرائط کیا ہیں۔ اور ذکواہ کن لوگوں سے اور کس حساب سے وصول ہونی چاہیے۔ یہ تمام تفصیلات کتب حدیث میں ملتی ہیں۔ اس لئے کہ آپﷺ کے فرائض میں سے ایک بہت بڑا فرض قرآن مجید کی تشریح اورتوضیح کرنا تھا۔ جو آپ نے بطریق احسن انجام دیا ہے۔ پس جب تک احادیث کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔ صرف ڈکشنری (لغات) کی مدد سے قرآن مجید کا مطلب سمجھا نہیں جا سکتا۔

3۔ کبھی قرآن مجید میں ایک لفظآجاتا ہے۔ جس کے معنی متعین کرنے کے لئے حدیث کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلا قرآن نے خمر کو حرام قرار دیا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا ہے کہ خمر کسے کہتے ہیں۔ اور اس کی کتنی مقدار حرام ہے۔ یہ تمام تفصیلات حدیث سے مل سکتی ہیں۔

4۔ قرآن مجید کی موجودہ ترتیب وہ نہیں ہے۔ جس پر وہ نازل ہوا تھا۔ اس لئے جب اس میں ایک مسئلہ کے متعلق دو مختلف حکم دکھائی دیں تو اس وقت یہ سمجھنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ کہ ان میں سے کونسی آیت پہلے اور کون سی بعد میں نازل ہوئی ہے۔ اور جب تک یہ معلوم نہ کیا جائے قرآن مجید سے مسئلہ نہیں نکالا جا سکتا اور اس کا اصل مطلب سمجھا نہیں جاسکتا۔ اس لئے بھی فہم قرآن کے لئے حدیث کی سخت ضرورت ہے۔

5۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام نے دنیا کے سامنے ایک نظام اخلاق ایک نظام معاشرت ایک نظام سیاست اور ایک نظام فکر پیش کیا ہے۔ اور اس طرح پیش کیا ہے۔ کہ تمام مہذہب دنیا آج تک اسی سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس ''نظام اسلام'' کی تفصیل یقینا قرآن مجید سے دستیاب نہیں ہوسکتی۔ اس لئے اسلامی تہذیب اسلامی تمدن اور اسلامی روح کو باقی رکھنے کے لئے حدیث کو ماننا اور ان کو قرآنی تعلیمات کا جزو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

ایک عرض

 ہمارے بعض بھائی اصولا ھدیث کو حجت مانتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں بعض ایسی باتیں ہیں۔ جو خلاف قرآن ۔ خلاف عقل۔ اور خلاف تجربہ ہیں۔ اس لئے ہم حدیث کو حجت شرعی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے۔ کہ واقعی بعض خود غرض اور نفس پرست لوگوں نے آپﷺ کے نام سے غلط باتیں مشہور کی ہیں۔ لیکن علماء نے احادیث کی چھان بین کر کے ایسی باتوں کو بالکل غلط اور خلاف تعلیمات اسلام قرار دیا ہے۔ اور انہوں نے احادیث کر پرکھنے کے لئے تصحیح سند کے علاوہ دوسرے اصول وضوابط بھی بتائے ہیں۔ جن کی روشنی میں یہ مشکل حل ہوسکتی ہے۔ اس لئے ان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اور اس چھوٹے سے دھبے کے لئے سارے کپرے کو آگ نہیں دکھانی چاہییے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 278-287

محدث فتویٰ

تبصرے