السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خواجہ حسن نظامی ؒ دہلوی کے سوالات علمائے اہل حدیث سے
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خواجہ صاحب دہلوی نے مختلف فرقوںسے چند سوال کئے مثلا شیعوں سے قادیانیوں سے اور علمائے اہل حدیث سے خواجہ صاحب نے جو سوالات کئے ہیں۔ اہل حدیث کی طرفسے ان کے جوابات خواجہ صاحب کو غالبا معلوم ہوں گے۔ چونکہ مذہب اہل حدیث اوراسلام مترادف لفظ ہیں۔ اس لئے جواب سے پہلے ہماری گزارش تو یہی ہے۔
نئے لوگوں کی کیجئے آزمائش ضرورت کیا ہمارے امتحاں کی
بہر حال خواجہ صاحب کے سوالات مع جوابات درج زیل ہیں۔
سوال۔ نمبر 1۔ کیا فر ماتے ہیں۔ جماعت اہل حدیث کے علماء اس مسئلہ میں کہ جو مسلمان آیات قرآنی اور احادیث نبوی پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید ان کے ایمان میں کوئی فتور پیدا کرتی ہے یا نہیں؟ (منادی دہلی ص3 8 جنوری 1941ء)
جواب۔ نمبر 1۔ اس سوال کا جواب شمس العلماء مولانا سید نزیر حسین صاحب دہلوی المعروف میاں صاحب نے اپنی کتاب ''معیار الحق''میں دیا ہوا ہے۔ مرحوم نے مسئلہ تقلید شخصی کو چند قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے ایک قسم مباح بتائی ہے۔ یعنی اس پر کوئی گناہ مرتب نہیں ہوسکتا۔ وہ یہ ہے کہ مقلد کسیایک امام کو محقق سمجھ کر ہمیشہ اسی کی بات مانتے رہے۔ مگر اس تعین کو شرعی حکم نہ سمجے۔ بلکہ ایسے مقلد کو اگر اپنے امام کے قول کے خلاف کوئی حدیث معلوم ہوجائے۔ تو فورا اس کیطرف رجوع کرے۔ اپنے امام کی بات پر اصرار نہ کرے۔ مرحوم نے دوسری قسم کو حرام بتایا ہے۔ یہ وہ تقلید ہے جس میں مقلد اس تعین کو حکم شرعی سمجھے۔ اس فتوے میں میاں صاحب مرحوم متفرد نہیں ہیں۔ بلکہ فقہاء حنفیہ بھی اس کے قائل ہیں۔ رد المختار شامی شرح در مختار میں بالتصریح مذکور ہے۔ ليس علي الانسان التزام مذهب معين (شامی مطبوعہ مصر جلد 1 ص 53)
بس اس وسوال کا جواب تقلید کرنے والوں کی نیت پر موقوف ہے۔
دوسرا سوال۔ جو مسلمان اہل حدیث کے عقائد اور اعمال سے الگ ہیں۔ اور کسی امام کی تقلید میں اس طرح ارکان اسلام کو ادا کرتے ہیں۔ جن میں جماعت اہل حدیث کے عقائد اور اعمال کے مقابلہ میں کچھ فروعی فرق اور اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ تو ایسے مقلد مسلمانوں سے مزاحمت کرنا ضروری ہے۔ یا نہیں۔ ایسی حالت میں کہ وہ مقلد مسللمان غیر مقلد مسلمانوں کے عقائد اور اعمال کے بارے میں کچھ نہ کہتا ہو۔ (منادی تاریخ مذکور)
جواب نمبر 2۔ اس کا جواب بھی پہلے سوال کے جواب میں آگیا ہے۔ تقلید کرنے والی پہلی دو قسموں میں سے جس قسم میں داخل ہوگا۔ ویسا ہی حکم اس پر لگے گا۔ فقہاء حنفیہ نے تقلید شخصی کے متلق لکھا ہے۔ کہ کوئی شخص کسی ایک امام کی تقلید اپنے اوپر لازم کرلے۔ تو یہ بھی لازم نہیں ہوتی۔ (رد المختار مصری جلد 3 ص 196)
تیسرا سوال۔ کیا علمائے اہل حدیث سیاسی معاملات میں اپنے عقائد کے اختلافات کو محدود رکھنا اور دوسرے فرقوں کے مسلمانوں سے متحد ہوجانا جائز سمجھتے ہیں یا نہیں؟ (منادی دہلی۔ تاریخ مذکور)
جواب نمبر 3۔ بے شک جائز سمجھتے ہیں۔ کیونکہ علماء اہل حدیث ازروئے علم منطق جائے ہیں کہ انواع ممتاز اپنی جنس اور جنس الا جناس میں ضرور شریک ہوتی ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہالانسان والفرس والبقر ما هم کے جواب میں حیوان آتا ہے۔ اگر آپ چاہیں گے۔ تو ہم ان علمائے اہل حدیث کے نام بتا دیں گے۔ جو اس وقت بھی ہندوستان کی سیاسیات میں بلا تکلف شریک ہیں۔
خواجہ صاحب! ہم آپ کے سوالات سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اب ہمارا بھی ایک سوال حل کر دیجئے۔ اگر آپ اسے حل کردیں گے۔ تو ہم آپ کے بہت مشکور ہوں گے۔ پس توجہ سے سنیے!آپ جو اپنی تحریر میں جملہ ھوا نکل لکھا کرتے ہیں اس کے کیا معنی ہیں۔ ؟ اس میں تو شک نہیں کہ ھو کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے اور الکل سے مراد کل کائنات ہے۔ پس ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ کل افرادی ہے یا مجموعی افرادی ہونے کی حالت میں کاینات میں سے ہر شے اس ھوا کی جو مبتدا ہے خبر بنے گی۔ اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے۔ ھو کل شئ جو بحکم حیوان عککس القضیہ یوں بولا جائے گا۔ کل شئ ھو۔ مثلا ۔ انسان ۔ چڑیا۔ کوا۔ طوطا۔ مینا وغیرہ۔ میں سے ہر ایک اللہ کا مصداق ہوگا۔ یعنی اللہ انسان ہے۔ چڑیا ہے طوطا ہے مینا ہے۔ (نعوذ باللہ) اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس قو ل کے نزدیک ہر ایک جانور ۔ طوطا۔ مینا وغیرہ الہٰ (معبود) ٹھرے گا۔ کیونکہ یہ ھو (مبتدا ) کی خبر ہے۔ کل کو مجموعی کہنے کی صورت میں یہ ترجمہ ہوگا۔ کہ کل کائنات کا مجموعہ مل کر معبود ہے۔ جس میں اس قول کا قائل بھی داخل ہے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ معبودیت میں وہ بھی حصہ دار ہے۔ آپ خود ہی فرمایئے کہ ان دونوں تشریحوں میں سے آپ کی مراد کون سی تشریح ہے۔ یا ان کے علاوہ کوئی اور تشریح مراد ہے۔ ہم سے پوچھیں تو ہم اپنا عقیدہ مولانا مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں پیش کئے دیتے ہیں۔ جو فرماتے ہیں۔
اے بروں از دہم وقال وقیل من خاک بر فرق من و تمثیل من
اس مضمون کو آپ کے دہلوی شاعر مرزا غالب نے یوں ادا کیا ہے۔
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا معبود قبلہ کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
(2 محرم 1360ہجری)
از قلم حضرت العلامہ مولانا مفتی ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری ؒ
آج اسلامی دنیا سے ایک گونج اور آواز آرہی ہے۔ کہ مسلمانوں کو فرقہ بندی نے تباہ کردیا۔ مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ فرقہ بندی کیا چیز ہے۔ ؟ اور اس کی ابتداء کب سے ہوئی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ زمانہ رسالت اور عہد خلافت میں اسلام ایک ہی شکل میں تھا مسائل میں اختلاف تھا۔ باوجود اس کے فرقہ بندی نہ تھی۔ جس کسی کو ضرورت پیش آتی۔ وہ اپنے ہاں کے جس عالم سے چاہتا مسئلہ پوچھ لیتا شیخ ابن الہام رئیس الحنفیہ کا قول ردالمختار شامی میں ایسا ہی منقول ہے۔ (مصری جلد سوم ص 196)
اتفاق حسنہ سے رسالہ برہان دہلی بابت جولائی 45ء میری نظر سے گزرا تو اس میں یہ مضمون با الفاظ زیل ملا۔ مولوی مناظر احسن صاھب حیدر آباد سے لکھتے ہیں کہ عہد صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین ہی سے مسلمان ان امور میں مختلف ہوتے رہے۔ لیکن نہ اس اختلاف کو انہوں نے چنداں اہمیت دی۔ اور یہ تو کبھی ہوا ہی نہیں کہ محض اس اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں نے کسی گروہ کو دوسرے طبقہ سے جدا کیا گیاہو۔ بلکہ اس اختلاف میں افاد سے نت نئے پہلو مختلف زمانوں میں مسلمان جو پیدا کرتے رہے۔ ان کی ایک حد تک تفصیل سنائی جا چکی ہے۔ (برہان دہلی بابت ماہ جولائی 45ء ص 6)
اس کے ساتھ ہی حضرت حجۃ اللہ شاہ ولی اللہ قدس سرہ کا بیان ملایا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ کہ فرقہ بندی ارباب تقلید نے پیدا کی ہے۔ حضرت ممدوح حجۃ اللہ میں فرماتے ہیں۔ تین سو سال تک فرقہ بندی بشکل تقلید نہں تھی۔ چوتھی صدی کے شروع میں اس کی ابتداء ہوئی۔ انا اللہ
کہ مسائل میں اختلاف ہونے سے فرقہ بندی نہیں ہوتی۔ ہاں فرقہ بندی یہ ہے کہ کہا جائے کہ یہ ہمارا مذہب ہے۔ اور وہ شافعی کا اور وہ مالک کا یہاں تک کہ طریق استدلال بھی جدا جدا بتایا جائے۔ چنانچہ صاحب توضیح نے حنفی مقلد کا طریق استدلال یوں بتایا ہے۔ هذا ما ادي اليه راي ابي حنيفة وكل ما ادي اليه راي ابي حنيفة فهو عندي صحيح ’’یعنی یہ مسئلہ ابو حنیفہ کی رائے ہے۔ اور جو ابو حنیفہ کی رائے ہے میرے نزدیک وہ صحیح ہے۔‘‘ یہی حق شافیعوں کو دیا گیا ہے۔ هذا ما ادي اليه راي شافعي وكل ما ادي اليه راي شافعي فهو عندي صحيح
منطقی اصلاح میں یوں سمجھنا چاہیے کہ ہر صنف کو نوع بتایا جائے۔ جیسا یہ غلط ہے۔ ویسا ہی فرقہ بندی بھی غلط ہے۔ مولانا حالی مرحوم نے ایک بند اس کے متعلق یوں لکھا ہے۔ (6رجب المرجب 1365ہجری)
سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے سے دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدار اعمل ہے ہر ایک رائے قرآن کا نعم البدل ہے
کتاب وسنت کا ہے نام باقی
خدا اور نبی ﷺ سے نہیں کام باقی
اس عنوان سے اخبار ''سچ''لکھنو میں ایک سلسلہ مضمون نکلا ہے۔ فاضل مضمون نگار مولانا مناظر احسن استاد جامعہ عثمانیہ حیدر آباددکن کا نام دیکھ کر ہم نے اس مضمون کو بغور دیکھا۔ گمان تھاکہ فاضل موصوف مسئلہ تقلید کو اپنے علم وفضل سے کما حقہ منقح کر کے ناظرین کو مستید فرمایئں گے۔ مگرسارا مضمون دیکھ کر ہماری تشنگی بحال رہی کیوں؟
اس لئے کہ بحکم۔ وَأتُوا البُيوتَ مِن أَبوٰبِها ۚ
مسئلہ تقلید کی تنقیح اور تحقیقی کرنے والے کا فرض ہوتاہے۔ کہ پہلے تقلید کی تعریف کرے۔ پھراس کی تقسیم پھر اس کا حکم ہوناچاہیے۔ سلسلہ مذکورہ کو ہم نے اس سے خالی پایا بلکہ مولانا موصوف ان سب مراتب سے آگے جا کرایک فقرہ لکھ گئے۔ جس کی وجہ سے ہمیں یہ نوٹ لکھنا پڑا ورنہ ہم اس پر توجہ نہ کرتے۔ مولانافرماتے ہیں۔
’’سچ ہے کہ آئمہ السلام اصول میں نہیں بلکہ بہت دور کے بعض فروعی مسائل میں باہم کچھ اختلاف ضرور رکھتے ہیں۔ لیکن ان اختلافات کو تم اتنی اہمیت کیوںدیتے ہو۔ اختلاف جس سے تفرق پیدا ہوتا ہو۔ قابل ملامت ہے ہم سے کہا گیا ہے۔ وَلا تَكونوا كَالَّذينَ تَفَرَّقوا وَاختَلَفوا مِن بَعدِ ما جاءَهُمُ البَيِّنـٰتُ ۚ
''اور نہ ہوجانا ان لوگوں کی مانند جو بکھر گئے۔ اور مختلف ہوئےکھلی باتوں کے آجانے کے بعد‘‘لیکن کون کہہ سکتاہے کہ حنفیت اورشافعیت کے اخٹلاف نے باہم مسلمانوں کو جدا کیا۔ حنفیوں نے ہمیشہ شافعیوں سے تعلیم حاصل کی۔ شافعیوں نے بسا اوقات حنفیوں کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مرید ہوئے اور دیکھو! عرب میں ۔ عجم میں ۔ مصر میں مراکو میں کیا مالکیوں نے حنفی امام کے پیچھے نماز یں نہیں پڑھیں؟کتنے حنفی تھے جن کو شافعی غزالی نے صوفی بنایا۔ اور کتنے شافعی تھے جو حنبلی شیخ الشیوخ قطب الاسلام گیلانی کے توسل سے فلاح فوز کی بلند یوں تک پہنچے۔
اہل حدیث۔ ۔ ۔ اس دعوے کی تحقیق کے لئے آئمہ اصول کے اقوال سامنے رکھ کر پوچھیں گے کہ خدارا انصاف
جامع مانع تعریف یہ ہے کہ "التقليد اخذ قول من غير معرفة دليله" (متن جمع الجوامع السبکی) یعنی کسی غیر نبی کا قول بغیراس کی دلیل پہچاننے کے قبول کرنا تقلید ہے۔
اس کا نتیجہ شارح الفاظ میں یو ں ہے۔ ''یعنی کسی غیر نبی کی بات کو اس کی دلیل کے ساتھ قبول کرنا تقلید نہیں بلکہ اجتہاد ہے۔ '' (شرح جامع الجوامع جلد 2 ص 251)
فاضل مضمون نگار حیدر آباد میں رہتے ہیں۔ اس لئے تعریف تقلید میں حیدرآباد کے ایک بزرگ کا قول ہم نقل کرتے ہیں۔ ''تقلید کے معنی یہ ہیں۔ کہ کسی شخص کو معتبر سمجھ کر اس کے قول وفعل کی پیروری بغیر طلب دلیل کی جائے۔ (حقیقہ الفقہ مصنفہ مولانا انوار اللہ مرحوم حیدرآبادی حصہ دوم ص 51)
اس کی تعریف بعد تقلید کی تقسیم تقلید مطلق یہ ہے کہ بغیر تعین کسی عالم سے مسئلہ پوچھ کر عمل کیاجائے۔ جو اہل حدیث کا مذہب ہے۔ تقلید شخصی یہ ہے کہ خاص آئمہ اربعہ میں سے ایک امام کی بات مانی جائئے جو مقلدین کا مذہب ہے۔ یہ ہے تعریف اور تقسیم اب سوال یہ ہے کہ تقلید کا حکم کیاہے۔ اصحاب تقلید کہتے ہیں۔ کہ تقلید فرض واجب ہے۔ اس پر غور طلب امر یہ ہے کہ جس صورت میں تقلید کی تعریف میں عدم معرفت دلیل داخل ہے۔ اور ان کے نزدیک دلیل نام ہے۔ قرآن وحدیث اور اجماع اور قیاس کا تو اس صورت میں تقلید کے فرض واجب ہونے کا صاف نتیجہ ہے۔ کہ مقلد کو بوقت تقلید قرآن وحدیث وغیرہ کا پڑھنا حرام ہے۔ کیونکہ اس تقلید کی فرضیت میں نقص آتا ہے۔ خیر یہ تو ہے تقلید کی تعریف ۔ تقسیم۔ اور حکم پر بحث اب ہم فاضل مضمون نگار کے مقولہ پر متوجہ ہوتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ ''آئمہ اسلام اصول میں مختلف نہ تھے حالانکہ علماء اصول کی تصریحات اس کے خلاف ہیں۔ علامہ تاج الدین سبکی لکھتے ہیں۔ ’’صاحبین امام صاھب کے اصول میں مخالف تھے۔‘‘ (طبقات سبکی ج1 ص243) مولانا عبد الحئی لکھتے ہیں۔ ’’یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد کی امام صاحب سے اصول میں مخالفت بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ امام غزالی نے لکھا ہے کہ یہ دونوں صاھب امام ابو حنیفہ کے مذہب کےدو ثلث مخالف تھے۔ ‘‘
قاضی دبوسی نے کتاب ''تاسیس النظر'' میں ان کے اصول کی تفصیل دی ہے۔ جس میں شاگرداپنے استاد معظم کے مخالف تھے۔ اس کے سوا وہ اصول بھی لکھے ہیں۔ جن میں آئمہ اربعہ باہمی مخالف ہیں۔
اس بحث کی تفصیل ہمارے رسالہ’’تقلید شخصٰ اورسلفی‘‘میں ملتی ہے۔ اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فاضل مضمون نگار نے جو حنفیت اور شافعیت وغیرہ کو موجب ہونا تسلیم نہیں کیا۔ ہماریدلی تمنا ہے کہ موجب تفریق نہ ہومگر علماء اصول کی تصریحات اس کے خلاف ہیں۔ فاضل موصوف سےمخفی نہ ہوگا۔ کہ جن دو فریقوں میں حجت شرعیہ اور طریق استدلال الگ لگ ہو تو ان میں فرق لازمی ہے۔ زرا تفصیل سے سنیے۔ !
علم اصول کی مستند کتاب توضیح کے مصنف صدر الشرعیہ حنفی مقلد کی دلیل اور طرز استدلال بناتے ہیں۔ هذا ما ادي اليه راي ابي حنيفة وكل ما ادي اليه راي ابي حنيفة فهو عندي صحيح (توضیع تعریف علم الفقہ)
یعنی حنفی مقلد کی تعریف یوں ہونی چاہیے کہ ''یہ قول اما م ابو حنیفہ کا ہے۔ او ر جوقول ابو حنیفہ ہے۔ وہ میرے نزدیک صحیح ہے۔ ’’ٹھیک اسی طرح شافعیہ کا اصول ہے۔ اور ہونا چاہیے کہ یہ قول اما م شافعی کا ہے۔ او ر جوقول شافعی ہے۔ وہ میرے نزدیک صحیح ہے۔ علی ھذا دوسرے مقلدین کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایئے۔ جب ہر فریق کے نزدیک اس کے امام کی یا نسبت داخل فی الدلیل ہے تو تفریق ہوئی یا وحدت۔
میں اس کی مثال یوں ہے کہ جنس فصول مختلفہ سے مل کر انواع مختلفہ بنتی ہے۔ اور انواع مختلفہ قسیم ہیں۔ جو یقینا الگ الگ ہیں۔ اسی طرح دلیل (دلیل قرآن وحدیث) کی حجیت میں جب امام کا فہم داخل ہے۔ تو قرآن وحدیث بمنزلہ جنس کے ہوئے جو فہم ابو حنیفہ اور فہم شافعی وغیرہ سے مل کر انواع بنتے ہیں۔ پس تفریق لازم
ہوا کہ کعبہ شریف جیسے واحد مرکزی مقام میں چار مصلے بنائے گئے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک گروہ کے جماعت کراتے ہوئے دوسرا اور دوسرے کے کراتے ہوئے تیسرا اور تیسرے کے کراتے ہوئے چوتھا گروہ بیٹھا رہتا تھا۔ حتیٰ کہ کسی عارف خدا کو کہناپڑھا۔
دین حق راچار مذہب ساختند رخنہ دردین نبی اندا ختند
جلالۃ الملک ابن سعود کو جن کی حکمت عملی سے چار مصلوں کی بجائے ایک ہی جماعت ہوگئی۔ الحمدللہ (اہل حدیث امرتسر ص 4 12 جمادی الاول 50ء)
سوال ۔ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و فضلاء اس مسئلہ میں کہ چار مصلوں کا ایجاد کرنا قرآن شریف اور احادیث رسول اللہﷺ یا آئمہ اربعہ سے ثبوت ہے یا نہیں؟
جواب۔ چار مصلے قائم کرنا خود آئمہ مجتہدین سے ثابت نہیں۔ نہ ان کے زمانہ میں قائم ہوئے ہیں۔ بلکہ ان کے زمانہ سے بہت دنوں بعد ایک بادشاہ نے قائم کردیئے ہیں۔ اس میں یہ خرابی تو ظاہر ہے کہ جماعت ہورہی ہے۔ اور دوسرے مصلے کے لوگ بیٹھے ہیں۔ جماعت اولیٰ میں شریک نہیں ہوتے۔ بلکہ اس کے خلاف ہے۔ حرمین شریفین کی وہ باتیں جن میں کوئی ممانعت شرعی موجود ہو قابل حجت اوراستدلال نہیں اور خود مذہب اربعہ کے محققین نے ان چار مصلوں کو ناجائز فرمایا ہے۔ (محمد کفایت اللہ مدرس مدرسہ امینیہ دہلی۔ سکرٹری جمعیت علماء ہند) (اخبار محمدی بابت 15 ستمبر 1924ءجلد 2 نمبر 1)
مولوی محمد طیب صاحب دارلعلوم دیوبند نے جلسہ احناف مئوامہ ضلع الہٰ آباد میں خطبہ صدارت پڑھا خطبہ میں ساری توجہ مسئلہ تقلید پر مبزول رکھی۔ اور جلسہ امرتسر میں بھی منتظمین نے تقلید کا عنوان داخل کیا ہے اس لئے میرے دل میں خیال آیا۔ کہ اس جلسے میں دبو بندی علماء کی خدمت میں ایک سوال پیش کر کے حل کروئوں۔ امید ہے کہ علمائ ممدوحین اس سوال کو علمی مذاکرہ تحریری جواب سے خود سند فرمائیں گے۔
آپ لوگوں سے مخفی نہیں کہ علماء اصول کی اصطلاح میں نفس مسائل شرعیہ کا جاننا علم نہیں بلکہ کتاب وسنت کی ر وشنی میں دلائل کے ساتھ جاننا علم ہے۔ ان مذہبوں کی مثال قدوری اورہدایہ ہے۔ تقلیدکی تعریف میں امام غزالی فرماتے ہیں۔ (اتقليد هو قبول قول بلاحجة) کتاب المستعفی مصری ج2 ص 387)
صاحب مسلم الثبو ت لکھتے ہیں۔ (التقليد العمل بقول الغير من غير حجة (مسلم ص 289) علامہ مصابن حاجب مصنف کافیہ فرماتے ہیں۔ (فاتقليد العمل بقول غيرمن غير حجة) (مختصر ابن صاھب ج2 ص 305)
جمع الجوامع میں تقلید کی تعریف میں یوں مرقوم ہے۔ (التقليد اخذ القول من غير معرفة دليله (جمع الجوامع ابن سبکی ج2 ص 251) نور الانوار میں تقلید کی تعریف یوں ہے۔ (التقليد اتباع الرجل غيره فيما سمعه بقوله اوفي فعله علي زعم انه محقق بلا نظر في الدليل) ( حاشیہ نور الانوار ص 211 مطبع انوار محمدی لکھنو)
ان سب تعریفات کا مفوم مولانااشرف علی تھانوی مرحوم نے یوںادا کیا ہے۔ تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلادے گا۔ اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ (الاقتصار ص17)
آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ تقلید کی تعریف میں بالاتفاق دلیل کی عدم معرفت داخل ہے گویا وہ فصل مقوم ہے جس کے بغیر تقلید کی ماہیت مقرر نہیں ہوسکتی۔ پس جو شخص مسائل دینیہ کو دلیل کے ساتھ جانتا ہو نہ صرف جانتا ہو بلک تعلیم دینا ہو بلکہ ان کو حق ثابت کرنے کے لئےہر وقت مستعد رہتا ہو۔ جیسے آپ حضرات کی ذات مبارکہ میں ایسے شخص کے علم وفضل پر تقلید کی تعریف کیوں کر صادق آسکتی ہے۔ اور اس کو مقلد کیوں کرکہا جاسکتاہے۔ اس کے متلق بھی علماء اصول کا فیصلہ پیش کرتا ہوں۔ شرح جامع الجوامع میں تقلید کی تعریف پر جو امر متفرع کیا گیا ہے۔ وہ قابل غورہے فرماتے ہیں۔ اخذ قول الغير مع معرفة دليله اجتهاد وافق اجتهاد القائل (ج2 ص 251) یعنی کسی مجتہد کو دلیل کے مسئلے کے ساتھ صحیح سمجھنا اجتہاد ہے۔ جو مجتہد اول کے موافق واقع ہوا ہے۔ تقلید کی تعریف اور تشریح کے بعد میں آپ حضرات کی علمی حیثیت کا زکر کرتا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ آپ لوگ اگر مسائل دینیہ کو بالدلیل جانتے ہیں ۔ ۔ ۔ ایسا جانتے ہیں کہ نہ صرف طلباء کو سمجھانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ بلکہ ان کو عالم بالدلیل بناتے ہیں۔ تو کیا آپ حضرات کی علمی حیثیت ملحوظ رکھ کر آپ کو مقلد کہا جائے۔ یا غیر؟ یہ ایک سوال ہے جس کے لئے میں نے آپ حضرات کو متوجہ کیا ہے۔ میں اپنا عندیہ عرض کیے دیتا ہوں۔ کسی شخص کو مقلد کہنا اس کے عالم ہونے کی نفی کے برابر ہے۔ اس لئے آپ حضرات کو مقلد کہنے کے علاوہ تعریفات مذکورہ کے مجھے امام غزالی سخت مانع ہوئے ہیں۔ گویاوہ فرماتے ہیں کہ دبو بندی علماءچونکہ مسائل کو دلیل کے ساتھ جانتے ہیں۔ اس لئے ان کو مقلد نہ کہو۔ کیونکہ (ليس ذلك التقليد طريقا الي العمل لا في الاصول ولا في الفروع) (حوالہ مذکور) تقلید علم کا درجہ نہیں ہے۔ اور نہ علم کا ہے۔ بلکہ جہالت کا درجہ ہے۔ یہی معنی ہیں علماء اصول کے اس قول کے۔ انما التقليد وظيفة الجاهل
پس آپ حضرات ان اصولی حوالہ جات کے ماتحت اعلان فرمایئں کہ آپ کو مقلد کہیں یا غیر ۔ بینواتوجروا۔ پس اس امر کا فیصلہ کہ آپ مقلد ہیں یا غیر۔ آپ حضرات کے جواب پر موقوف ہے۔
اس مضمون میں میں نے بوجہ خاص خطاب حضرات دیوبندیہ سے کیا ہے۔ مگردراصل یہ خطاب جملہ ان علماء کو ہے۔ جومسائل دینیہ کو دلیل کے ساتھ جانتے ہوں۔ خواہ وہ بریلی کے ہوں یا لکھنو کے۔ دہلی کے ہوں یا لاہورکے۔ پنجاب کے ہوں یا ہندوستان کے۔ سندھ کے ہوں یا بنگال کے عرب کے ہوں یا عجم کے سب میرے مخاطب ہیں۔ وہ علماء اصول کی تصریحات ملحوظ رکھ کر اپنے لئے جو نام تجویز فرماییں۔ ہم اسی کوقبول کریںگے۔ اس سے زیادہ طول دینا نہیں چاہتے۔ کیونکہ استادغالب مرحوم کہتے ہیں۔ (خادم العلماء ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری 30 ستمبر 1943ء)
نہ دے نامے کو اتنا طول غالب مختصر لکھ دے
کہ حسرت سیخ ہوں عرض ستم ہائے جدائی کا
علماء سلف میں علمی مذاکرات ہوا کرتے تھے۔ جن کو موجب ترقی سمجھتے تھے۔ مگر آج ہماری حالت اس کے خلاف ہے۔ جونہی کوئی علمی سوال ہمارے سامنے پیش آتا ہے۔ اس کو سائل بدنیتی پر محمول کر کے ہم اعلان جنگ کر دیتے ہیں۔ یہ طریقہ علماء سلف کا پسندیدہ نہیں ہے۔ اہل حدیث مورخہ 5 دسمبر 43ء میں ناضرین کی نظر سے ایک علمی سوال گزرا ہوگا۔ جو مسئلہ تقلید کے متعلق تھا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تقلید اپنی جامع مانع تعریف کے لہاٖظ سے علماء مقلدین پر صادق نہیں آتی۔ پھر وہ مقلد کیوں کہلاتے ہیں۔ سوال کی عبارت نہایت شیریں تھی۔ اور مضمون بالکل صاف تھا۔ اس کا جواب جمیعت الاحناف مئوناتھ بھنجن ضلع اعظم گڑھ کی طرف سے دیاگیا۔ جن صاحب نے یہ جواب لکھا ہے ہم ان کو جانتے ہیں اسی لئے ہم ان کو مخاطب کر کے کہتے ہیں۔
چھپ نہ تو ہم سے کہ او ماہ جبین دیکھ لیا
ناظرین! اس اشتہار کا جواب الجواب پڑھیں۔ امرتسر کے جلسہ احناف منعقدہ 5 دسمبر 43ء کے موقع پر میں نے ایک اشتہار کے زریعے ارباب تقلید سے ایک علمی سوال کیا تھا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تقلید کی تعریف جو علماء اصول نے کی ہے وہ ان علماء پر صادق نہیں آتی۔ جو خدا کے فضل سے علمی استعداد اتنی رکھتے ہیں کہ مسائل فقہیہ کو دلائل کے ساتھ جانتے ہیں۔ جتنے اقوال تقلید کی تعریف میں میں نے نقل کیے تھے۔ ان کا ترجمہ ار مطلب بھی میں نے اپنے الفاظ میں نہیں کیا تھا۔ بلکہ مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے لفظوں میں بتایا تھا جو یہ ہیں۔ ''تقلید کہتے ہیں کہ کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلائے گا۔ اوراس سےدلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ (الاقتصاد ص17)
اس اشتہد سے میری غرض یہ تھی کہ میں معزز علماء تقلید کو ان کے علم کی حیثیت سے اطلاع دوں۔ کہ آپ مقلد کے درجے میں کیوں بیٹھے ہیں۔ جو ادنیٰ درجہ ہے آپ اعلیٰ درجہ میں بیٹیئے۔ جس کا ٹکٹ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ کوئی مسافر جس کے پاس اول یا دوم درجہ کا ٹکٹ ہو۔ وہ تھرڈ کلاس (تیسرے درجے) میں بیٹھ جائے۔ تو اس کو کہاجائے گاکہ آپ اپنے ٹکٹ کی عزت کیجئے۔ میری غرض یہ نہ تھی کہ جماعت مقلدین کی کسی خاص شخص کی توہین کی جائے۔ مگرافسوس ہے کہ علماء مقلدین نے میری منشاء بلکہ روش کے بھی سخت خلاف توہین آمیز الفاظ میں ایک اشتہاردیا ہے۔ جو مئو ضلع اعظم گڑھ سے 6 مارچ سندروں کو میرے پاس پہنچا ہے۔ جس میں میری نسبت بہت سے الفاظ ایسے لکھے ہیں۔ جن سے ان کا غیض وغضب نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ لیکن میں ان کے جواب میں اپنے مسلک کو نہیں چھوڑ سکتا۔ بقول۔
مجھے تو ہے منثظور مجنو ں کو لیلیٰ نظر اپنی اپنی پسند اپنی اپنی
اس لئے میں نہ الفاظ کونقل کرتا ہوں۔ اور نہ جواب دیتا ہوں۔ جواب مذکورہ کا خلاصہ یہ ہے۔ کہ مجیب نے میری منقولہ تعریفات تقلید کو صحیح مان کر لکھا ہے۔ کہ دلیل کی پوری معرفت ہدایہ وغیرہ پڑھنے سے نہیں ہوتی۔ کیونہ معرفت دلیل اس کو کہتے ہیں۔ کہ دلیل کو پورے طور پر جاننا۔ باالفاظ دیگر یہ جاننا کہ اس کا معارض کوئی نہیں۔ اور یہ منسوخ بھی نہیں وغیرہ۔ ایسا جاننا مجتہدکا خلاصہ ہے۔
میں کہتا ہوں کہ مجیب نے جو کچھ لکھا ہے صحیح ہے۔ مگر مجیب صاحب نے یہ خیال نہیں فرمایا۔ کہ جن علماء کی نسبت میرا سوال ہے۔ وہ تو دلیل کی معرفت تامہ رکھتے ہیں۔ اب میں مجبورا علماء کے چند اسماء گرامی بطورکے مثال پیش کر کے پوچھتا ہوں کہ کیا مولانا رشید احمد گنگوہی مرحوم۔ مولانا انورشاہ دیوبندی مرھوم۔ مولانا محمود الحسن دیوبندی مرحوم۔ مولاناحسین احمد۔ مولانا اشرف علی مرحوم ۔ مولانا احمد رضا برویلوی مرحوم۔ وغیرہ اکابر علماء حنفیہ کو بھی دلیل کی معرفت تامہ حاصل تھی۔ یا نہ تھی۔ واللہ مجھے اس کی نفی کرتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ میں ایسا خیال کرنا ان بزرگوں کی ہتک سمجھتا ہوں۔ کیا ہی لطف ہے کہ درسوں میں تصنیفوں میں بڑے زورسے اپنے مسائل کو مدلل بیان کریں۔ اورفریق مخالف اہل حدیث ہوں یا شافعیہ۔ مالکیہ۔ یا حنبلیہ۔ اشعریہ ہ ہوں یا ماتریدیہ۔ ) کے دلائل کی تردید اپنی تایئد پورے طور سے کریں۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ حضرات جوکچھ کہتے ہیں اور لکھتے ہیں علیٰ وجہ البصیرت کہتے اور لکھتے ہیں۔ چنانچہ مجیب صاھب خود مانتے ہیں کہ''علماءدیو بند اوردیگر علماء مقلدین حدیث کا درس دیتے ہیں۔ اور علل حدیث و رجال پر نہایت محققانہ وعالمانہ گفتگو کرتے ہیں۔ (اشتہار مذکور)
پھر معلوم نہیں کہ مجیب صاحب ہماری تایئد کرتے ہیں۔ یا تردید مختصر یہ کہ ہماری دلیل کے دو مقدمے ہیں۔ اول یہ کے آجکل کے اکابر علماء حنفیہ دلائل شرعیہ کی معرفت تامہ رکھتے ہیں۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ جس صاحب کودلیل کی معرفت تامہ حاصل ہو۔ وہ مقلد نہیں ہے مجیب صاحب کے جواب سے معلوم ہوتا ہے۔ کے ان کودنوں مقدمے مسلم ہیں۔ اور ہر ایک طالب علم جانتا ہے کہ جس دلیل کے دونوں مقدمے (صفریٰ کبریٰ) مسلم ہوں۔ نتیجہ بھی مسلم ہوتا ہے۔ اس لئے مقام شکر ہے کہ ہمارااور ہمارے مجیب کا دوعویٰ کی صحت پر اتفاق ہوگیا۔
شکر اللہ کہ میان من او صلح فتاد حوریاں رقص کناں سجدہ شکر از زوند
مقلد کے بعد دوسرا مرحلہ مجتہد کا ہے۔ پہلے اشتہار میں ہم نے اپنا سوال محض تقلیداور مقلد پر منحصر رکھا تھا۔ اب مجیب کی تحریک ہے ہم مجتہد کا بھی زکرکرتے ہیں۔ خدا جانے ان حضرات نے مجتہد کا رتبہ کیا سمجھا ہوا ہے۔ کتب اصول فقہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ ولادت اربعہ (عبارت النص۔ ارشادات النص۔ اقتضاء النص۔ دلالت النص) سے کام لینا مجتہد کا کام ہے۔ (نور الانوار ص 13۔ مطبوعہ انواراحمدی لکھنو) پس مجتہد وہ ہے جوان دلالات اربعہ سے استدلال کرسکے۔
ہمارا خیال ہی نہیں بلکہ یہ امر واقع ہے۔ کے ہندوستان کے اکابر علماء مقلدین دلالات اربعہ سے استللال کر سکتے ہیں۔ بلکہ کرتے ہیں۔ یہ ان پر خدا کا فضل اور علمی نعمت ہے۔ مقلد کہلانے سے اس نعمت کی ناقدری لازم آتی ہے۔ اس بات کا ان کو اختیار ہے کہ خدا کی نعمت کی قدر کریں۔
من نگوئم کہ ایں مکن آں کن مصلحت میں دکار آسما ں کن
کسی اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ ہر علم کی معرفت اس علم کے آئمہ کے اقوال سے ہوتی ہے۔ علم صرف نھو کے قواعد کے علماء صرف اور نھو سے ماخوز ہوتے یں۔ علم لغت کی تھقیق علماء لغت سے ہوتی ہے۔ اس کا نام تقلید رکھ کر تقلیدمذہبی کو ثابت کرنا تار عنکبوت سے زیادہ ضعیف ہے۔ پس مجیب کے سوال مندرجہ اشتہار کاجواب مختصر یہی ہے کہ بقول آپ کے جو علماء علی وجہ البصیرت علوم شرعیہ کادرس دیتے ہیں۔ وہ مقلد نہیں ہیں بلکہ میں تو ان کو باعلم اصطلاح اصول مجتہد کہنا بھی جائز سمجھتا ہوں۔ وہ آپ کو اختیار ہے کہ فسٹ سییکنڈ کلاس اول،دوم ۔ درجوں کا ٹکٹ رکھنے والوں کو تھرڈ کلاس میں بٹھایئں۔ میں اس سے آپ کو منع نہیں کرسکتا۔ ہاں میں اپنا عندیہ ان لفظوں میں عرض کروں گا۔
گر برسر و چشم من تشینی نازت بکشم کہ ناز نینی
اس سال جلسہ احناف مئوائمہ ضلع الہٰ آباد میں خطبہ صدارت مولوی محمد طیب صاحب دیوبندی نے پڑھا۔ تقریبا سارے خطبے میں آ پ نے مسئلہ تقلید ہی کا زکر کیا۔ پھراس مضمون کو اتنی اہمیت دی کہ رسالہ دارالعلوم دیوبند کے خاص نمبر میں اس کو جگہ دی گئی۔ اس لئے فریق ثانی نے بھی بٖغرض تحقیق ایک علمی سوال کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا۔ جو 5 دسمبر 52ء میں جلسہ احناف امرتسر میں تقسیم ہوا۔ اوراسی تاریخ کے اہل حدیث میں بھی درج کیا گیا۔ سوال اس بناء پر تھاکہ علم معقول میں یہ بات مصرح ملتی ہے۔ کہ ہر تعریف کے لئے ضروری ہے کہ کہ وہ دو اوصاف سے موصوف ہو اس لئے ہم نے تقلید کی تعریف علماء اصول کے لفظوں میں بتائی تھی۔ اور امام غزالی سے لے کر مولانا اشرف علی تھانوی تک اقوال نقل کئے تھے۔ ساری تعریفوں کا خلاصہ مولانااشرف علی تھانوی مرھوم کے لفظوں میں یہ بتایا تھا کہ
’’تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلائے گا۔ اوراس سےدلیل کی تحقیق نہ کرنا‘‘ (الاقتصاد ص 17)
بات تو مختصر تھی کہ تقلید کی تعریف جامع مانع ہونی چاہیے۔ برادروان احناف جو باوجودعالم معلم علی وجہ البصیرت مصنف ہونے کے اور معرفت تامہ رکھنے کے مقلد کہلاتے ہیں۔ اس سے تقلید کی تعریف مانع نہیں رہتی۔ ایسے حضرات کو چاہیے کہ تقلید کی تعریف پر غائر نظر ڈال کر اپنے کو اس سے علیحدہ رکھیں ۔ اس معقول سوال کے جواب میں ایک اشتہار جمیعت الاحناف مئو ضلع اعظم گڑھ کی طرف سے نکلا جو تردیدی کی بجائے ہمارے سوال کی تایئد میں تھا۔ کیونکہ اس میں لکھا تھا کہ
’’علماء دیوبند جو ہرسال دورہ حدیث پڑھاتے ہیں۔ اور علل حدیث و رجال پر نہایت ہی محققانہ وعالمانہ گفتگو کرتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے اور بہت سے علماء ہیں جو اپنی تصانیف میں بہت خوبی سے بحث کرتے ہیں۔ ‘‘
اہل دانش کے نزدیک اس اعتراف سے ہمارا خیال مزید قوت پاگیا کہ جو حضرات اتنی قابلیت رکھتے ہیں۔ ان پر تقلید کی تعریف صادق نہیں آتی۔ مگر بغرض مزید توضیح ہم نے ایک مضمون بعنوان'' جواب الجواب؛؛ اہل حدیث موخہ 24 مارچ سنہ رواں میں اور بذریعہ اشتہار مورخہ دس مارچ (سنہ رواں ) کو شائع کیا۔ جو ناظرین کے ملاحظہ سے گزرا ہوگا۔ اس کے جواب میں پھر ایک دوسرا اشتہار جمعیت الاحناف مئو نے (بے تاریخ) شائع کیا۔ جو 23 مارچ سنہ رواں کو بذریعہ ڈاک ہمیں ملا۔ اس جواب میں بحث کو اصل مرکز سے دور لے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو آداب محققین سے بعید ہے۔ اس لئے میں بحث کورمرکزپر لا کر گفتگو کرتا ہوں۔ پس ناظرین اور سامعین غور سے پڑھیں اور سنیں۔
خدا جائے خیر دے علماء اصول کو جنھوں نے تقلید کی جامع مانع تعریف کرنے کے علاوہ اور مقلد کے استدلال کا ترازو ایسے صاف الفاظ میں پیش کیا ہے۔ جوہمارے اور ہمارے مخاطبوں کے درمیان فیصلہ کن ہیں۔ پس ہمارے مخاطب نظر انصاف سے دیکھیں اورسماع قبول سے سنیں۔ علم اصول میں توضیح چوٹی کی کتاب ہے۔ اس میں مقلد کا طریق استدلال یوں لکھاہے کہ''مقلد کا استدلال یوں ہے کہ یہ مسئلہ امام ابو حنفیہ کی رائے ہے اور امام ابو حنیفہ کی جو رائے ہو وہ میرے نزدیک صحیح ہے۔
کیا آپ کا طرز استدلال یہی ہے۔ کیا شعیہ کے سامنے مسئلہ خلافت کے ثبوت ہیں۔ آپ اس طرز عمل پر قناعت کر سکتے ہیں۔ ہاں اہل حدیث اورشوافع کے مقابلے میں مسئلہ فاتحہ خلف الامام کے متعلق اتنا ہی کہہ دینا کافی جانتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنا امام ابو حنیفہ کی رائے ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ صحح ہے۔ واللہ مجھے یقین ہے کہ آپ ہرگز ایسا نہیں کرتے۔ اور نہ کرسکیں گے کیونکہ ایسا کرنا آپ کے نزدیک بھی بجوئے نیرزو(1) کا مصداق ہے۔ بلکہ آگے چل کر آیات او ر احادیث سے استدلال کریں گے۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ وہ استدلال آپ کا علمی وجہ البصیرت اور معرفت تامہ کے ساتھ ہوگا یا بے بصیرت اور معرفت ناقصہ کے ساتھ بس یہ ایک سوال ہے کہ جس کے متعلق آپ لوگوں کے ضمیر سے میری اپیل ہے۔
خدا بھلا کرے مولوی خیر محمد جالندھری صاحب کا جنھوں نے باوجود دیوبندی مقلد ہونے کے مسئلہ تقلید کا بہت سا حصہ صاف کردیا۔ آپ اپنے رسالہ خیر التنقید میں لکھتے ہیں۔ کہ قرآن وحدیث کی نصوص میں تقلید نہیں ہے۔ تقلید صرف مسائل استباطیہ میں ہے۔ اس بناء پر جملہ احناف سے پوچھا کرتا ہوں۔ آپ نماز میں جو ارکان ادا کرتے ہیں۔ یہ آپ ک نزدیک منصوص ہیں یا نہیں؟مثلا قیام ۔ رکوع۔ سجود۔ اور قعدہ وغیرہ منفرد حالت میںفاتحہ کا پڑھنا مقتدی ہونے کی صورت میں نہ پڑھنا کیا یہ سب افعال منصوص نہیں ہیں۔ ؟اس طرح دیگر ارکان منصوص ہیں۔ پھر آپ بتایئے کہ ارکان اسلام کے ادا کرنے میں آ پ مقلد ہوئے کے محقق؟
بس ایک سوال یہ ہے کہ جو قابل غورہے۔ باوجود اس کے کہ اگر آپ مقلد ہی کہلانا چاہتے ہیں۔ تو ہمارا اس میں کوئی نقصان نہیں البتہ اس سے دو خرابیاں لازم آیئں گی۔ ایک یہ کہ تقلید کی تعریف مانع نہ رہے گی۔ دوسری یہ کہ آپ کا مخاطب آپ کا میدان کلام تنگ کرنے کو کہہ سکتا ہے۔ کہ آپ بحیثیت مقلد پیش ہوئے ہیں۔ تو صرف اپنے امام کا قول پیش کیجئے۔ استدلال بالنص نہ کیا بس یہ ہے مدار گفتگو اور یہ ہے مرکز بحث۔
حضرات مقلدین کی تصنیفات ملاحظہ کیجئئے۔ کہ ہر مسئلہ پر نصوص پیش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ نصوص ان کے مدعا کو مثبت ہوں۔ یا نہ ہوں۔ حضرات دیو بند نے کتب حدیث کی جو شروح لکھی ہیں۔ ان پر سرسری نظر ڈال کردیکھئے۔ صاف معلوم ہوسکتاہے کہ مصنف نے جو کچھ لکھا ہے۔ بڑی بصیرت اور معرفت کے اتھ لکھتا ہے۔ مگر جب پوچھا جائے تو مجیب صاھب کہتے ہیں۔ کہ ان کو معرفت تامہ حاصل نہیں۔ کیا خوب ہم بہت خوش ہوکراپنا سوال واپس لے لیں گے اگر حضرات مقلدین یہ اعلان شائع کردیں۔ کہ ہم نے جو کچھ اپنی تصنیفات میں جو کچھ لکھا ہے۔ یا ہم درس میں اپنے خیالات کی تایئد میں جو کچھ کہتے ہیں۔ سب بے بصیرت اور بے معرفت کہتے ہیں۔ اس وقت ہم صرف یہ عرض کریں گے۔ کہ آپ حضرات زرا غور فرمایئے۔ کہ ضروری کی نقیض ممکنہ عامہ ہوتی ہے۔ اور یہ منطقی قاعدہ آپ کی جملہ تحقیقات علمیہ کے متزلزل کرنے کو کافی ہوگا۔ باقی رہی بحث مجتہد کی اس کےلئے محاذ قائم کرنا ابھی ہمارا مقصود نہیں وقت آنے پر اس بحث کے لئے بھی ہم تیار ہیں۔ ہم علماء اصول کی تصریحات سے دکھکایئں گے کہ اجتہاد کامنصب رسالت کی طرح رہی نہیں ہے۔ بلکہ کسبی ہے اور یہ کبھی بند نہیں ہوا۔ بلکہ برابر چلا آیا ہے۔ اگر یار لوگوں نے امام بخاری جیسے مجتہد کو بھی مقلد لکھ دیا ہے۔ تو یہ ان کی خوش فہمی اورخوش اعتقادی ہے۔ مجیب نے دوسرے اشتہار میں یہ بھی سوال کیا ہے۔ کہ تم علماء دیوبند میں سے مولانا محمد حسین احمد صاھب سے پوچھو کہ وہ معرفت تامہ رکھتے ہیں یا نہیں؟ مجیب نے اس سوال کو مدار فیصلہ قرار دیا ہے میں کہتا ہوں۔ مولانا حسین احمد کو پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ آپ نے ان کو درس دیتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ اگر نہیں دیکھا تو جب رہا ہوکر آیئں گے۔ تو آپ دیکھ لیجئے گا۔ وہ اپنے مذہب کا اثبات اور فریق مخالف کا ابطال معرفت تامہ سے کرتے ہیں۔ یا معرفت ناقصہ سے؟اچھا اسے جانے دیجئے۔ میں دو عادل گواہ پیش کرتا ہوں۔ مولانا انورشاہ مرحوم کی درسی نوٹ دو کتابوں کی شکل میں شاائع ہوئے ہیں۔ ترمذی کے حواشی عرف الشذی۔ اوربخاری کے حواشی فیض الباری کے نام شائع ہوئے ہیں یہ کتابیں بڑے فخر ومباہات کے ساتھ مصر میں چھپوائی گئی ہیں۔ ان دونوں کی کتابوں کو دیکھ لیجئے۔ تو ان کے درس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی۔ کہ مرھوم کس طرح اپنے مسائل کو معرفت تانہ کے ساتھ مدلل بیان کرتے ہیں۔ ہاں اس سوال کا جواب میرے ذمہ نہیں ہے۔ کہ علماء دیوبند وغیرہم باوجود معرفت تامہ رکھنے کے مقلد کیوں کہلاتے ہیں۔ میں کہوں گا۔ یہ ان کی تواضح ہے یا پرانا دستور ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کا طریق عمل کیا ہے۔ اگر اس کا طریق بقول صاحب توضیح محض امام کے قول سے استدلال ہے۔ تو بے شک مقلد ہیں۔ اگر اس سے بڑھ کر نصوص کے ساتھ استدلال ہے تو آپ ہی ان کا نام تجویز کیجئے۔
ہماری یہ گفتگو سر دست محض تقلید کی جامع مانع تعریف پر ہے۔ ابھی مسائل فرعیہ پر نہیں ہے مشتہرین نے مولانا حسن احمد صاحب سے دریافت کرنے کو لکھا ہے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم مئو ہی کی جماعت احناف کو مخاطب کر کے پوچھتے ہیں کہ وہ اپنا حلفیہ بیان شائع کرے کہ ہمارے علماء کو مسائل شریعہ کی معرفت تامہ نہیں ہے۔ اس وقت ہم بڑی خوشی سی مندرجہ زیل شعر ان کی نذر کریں گے۔
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا سرے حق ہیں زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا
---------------------------------------------
1۔ جو برابر قدر نہیں رکھتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب