السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورہ کہف میں حضرت خضر ؑ کے متعلق لکھا ہے کہ ۔ وَعَلَّمنـٰهُ مِن لَدُنّا عِلمًا ﴿٦٥﴾ زید کہتا ہے کہ حضرت خضرؑ کو اللہ تعالیٰ نے علم ادنی عطا کیا تھا۔ جو اس آیت میں مذکور ہے۔ عمر کہتا ہے کہ علم لدنی کی تعریف کیا ہے۔ اس آیت میں تو علم لدنی کا تذکرہ نہیں ہے۔ زید اس کے ثبوت میں صحیح بخاری کے باب العلم کی ایک حدیث جو حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے نبی کریمﷺ نے دو قسم کے علم بتائے تھے۔ ایک کو تو ہم نے سب کے لئے پھیلایااور سب پر ظاہر کردیا۔ اگر دوسرے کو ظاہر کروں تو میرا حلقوم کٹ جاوے گا۔ یعنی میں قتل کیا جاوں گا۔ یہ دوسرا علم وہی علم باطنی یا علم لدنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ علم لدنی کی تعریف کیا ہے۔ علم لدنی کوئی علم ہے یا نہیں؟(احمد ظہیر الحسن بانسدیہ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علم لدنی اس علم کو کہتے ہیں جو بغیر کسب کی وحی یا الہام سے حاصل ہو۔ اس لئے سارا قرآن علم لدنی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
وَقَد ءاتَينـٰكَ مِن لَدُنّا ذِكرًا ﴿٩٩﴾ (طہٰ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو بتا یا گیا اس کی اشاعت کرنے کا حکم یا منع نہیں تھا اسی لئے ابو ھریرہ رضی الله عنہ نے بعض واقعات نہیں بتائے۔ جو ظالم امراء کے متعلق تھے مصلحت بینی تھی۔ گناہ نہیں تھا۔ گناہ جب ہوتا کے حکم کے خلاف ہوتا۔ حضرت ابو ھریرہ رضی الله عنہ موت سے مرے تھے۔
حضرت ابو ھریرہ رضی الله عنہ کو دو قسم کی احادیث معلوم تھیں۔ ایک متعلق احکام دین اور دوسری متعلق شرورفتن آپ نے احادیث احکام کی اشاعت فرمائی۔ مگر فتن کی احادیث کو حکام ظلمہ کی وجہ سے حسب موقع بیان کیا اور بس۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب