السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مشکواۃ شریف باب اثبات عذاب القبر میں ایک حدیث ہے کہ مردہ سے قبر مین نکیرین سوال کرتے ہیں۔ کہ من ربكتو اگر مردہ مومن ہے تو جواب دیتا ہے کہ فيقول ربي الله پھر سوال ہوتا ہے۔ ما دينكپھرجواب دیتا ہے۔ فيقول ديني الاسلام پھرسوال ہوتاہے۔ فيقولان ما هذا الرجل الذي بعث فيكم جواب دیتا ہے۔ فيقول محمد رسو ل الله صلي الله عليه وسلم حدیث مذکورہ بالا کے پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ مردے کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ ما هذا الرجل الذي بعث فيكم کیونکہ لفظ ھذا سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ رسول اللہﷺ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ اور اگر اس لفظ ھذا کے اور دوسرےمعنی ہوتے ہیں۔ تو معہ دلیل و حوالہ جات کے شائع فرمایئے گا۔ اور اگر لفظ ھذا سے موجودگی ثابت ہوتی ہے۔ تو بھی شائع فرما دیجئے گا تاکہ عوام اس سے فائدہ اٹھائیں اس کے جواب دیکھنے کے بہت سے لوگ منتظر ہیں۔ (رحمت اللہ خان بانسی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث شریف میں ھذا کے ساتھ الذی بعث بھی آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول مبعوث سے سوال ہے۔ معنی یہ ہیں کہ جو شخص تم میں رسول کر کے بھیجا گیا تھا۔ اس کو کیا کہتے ہو۔ ھذا کے ساتھ جب الذی آئے تو ہاں موجود مراد نہیں ہوتا بلکہ موصول معہ صلہ کی طرف کلام کا رخ ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت ہیں۔ أَمَّن هـٰذَا الَّذى هُوَ جُندٌ لَكُم .... ﴿٢٠﴾ اسی قسم سے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آپﷺ کی شکل دکھائی جاتی ہے یہ ان کا اپنا خیال ہے۔ جس کے زمہ دار وہی ہیں۔
وقت سوال منکر نکیر کے آپﷺ کا تشریف لانا کسی حدیث یا آثارسے ثابت نہیں اور اعتقاد رکھنے والا اس کا گمراہ ہے۔ (فتاویٰ نزیریہ جلد1 ص151) لفظ ھذا اس مذکورہ موجود شے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے موضوع ہے۔ جوقریب ہے عام اس سے کہ مذکور حقیقی ہو یاحکمی او ر موجود خارجی ہویا ذہنی رویات مذکروہ فی السوال نیزدیگر روایات مختلفہ فی الباب ک مجمعوعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ حضور ﷺ کے اوصاف زکر کیے جاتے ہیں۔ اور پھر اشارہ کرکے کہا جاتا ہے تو اگر بندہ مومن ہے تو تمام اوصاف کو سن کر جوابدے گا۔ عبداللہ ورسولہ پس لفظ ھذا سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں۔ اور بعضوں نے روایت مذکروہ فی سوال کی بنا پر یہ بھی کہا ہے کہ ممکن ہے کہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک مکشوف ہوتا ہو اور مکشوف ہونے کے بعد کہا جاتا ہےکہ ما تقول في هذالرجل الذي مگر اس بارے میں کوئی صحیح روایت نہ ملی ۔ (فقط محمد نانا عفا اللہ عنہ سمیلکی ۔ مرسلہ صالح یعقوب جوہانسبرگ سائوتھ افریقہ)
جواب صحیح ہے۔ اول تو سوال میں لفظ الذي بعث فيكم موجود ہے۔ جس سےاشکال ہی واقع نہیں ہوتا یا رفع ہوجاتا ہے۔ پھر ھذا میں اشارہ عام ہے۔ خصوصا مومن کے زہن میں کلمہ توحید ہے لہذا ما حضرفی الزہن بھی صحیح ہے۔ اور کشف صورت کے بارے میں کوئی روایت صحیح نہیں۔ محض لفظ ھذا سے لوگوں کووہم ہوتاہے۔ (راقم ابو سعید محمدشرف الدین ناظم مدرسہ سعیدیہ عربیہ بنگش دہلی 22 رجب 1354ھ)
جواب یہی ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کا قبر میں مردہ کے سامنے ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ آپ کا وصف اور زکر ہے۔ الذي بعث فيكم یعنی یہ شخص جو تمھارے میں نبی ﷺ بنا کر بھیجا گیا تھا۔ اس کے بارے میں کیا جواب ہے۔ اس کے جواب میں کہتاہے۔ ھو رسول اللہﷺ یعنی وہ رسول اللہ کے ہیں ھو اور ھذا میں فرق ہے۔ ھو ضمیر غائب کی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ھذا سے مراد آپ کا وصف بعثت ہے۔ ھو سے جو آپ کے وجود کا ہے جو نبی ہوکر آئے تھے۔ آپ کا حاضر ہونا تو ثبوت چاہتا ہے۔ اور ہر مومن کے عقیدہ ایمان میں ہر وقت موجود ہیں۔ وہی وجود ھذا سے مراد ہے۔ یعنی جو کچھ آپ کے زہن میں وصف نبوت ہے۔ اور ھو سے مراد آپ کا وجود یا نبوت ہے۔ (الراقم لعاجز۔ عبیدا لرحمٰن کفاالمنان مدیر اشاعۃ الحق دہلی)
جواب صحیح ھذا سے اشارہ آپ ﷺ کی جانب بااعتبار شہرت اور وصف کے ہے اس اعتبار سے نہیں کہ آپ اس وقت قبر میں مردہ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ ایسا ماننے سے بہت سی خرابیاں پیداہوتی ہیں۔ اور ایسا ثابت بھی نہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نیک عقیدے کی توفیق دے۔ آمین (عبد الوکیل خطیب ناظم ریاض توحد نواب گنج دہلی) الجواب صحیح۔ سید تقریظ احمد مدرس مدرسہ رشیدیہ اجمیری دروازہ دہلی (اہل حدیث گذٹ دسمبر 35ء)
یہهذا الرجل الذي بعث فيكم ایسا ہے جیساکہ ہرقل شاہ روم نے ملک شام میں تجار مکہ کو بلا کر ان سے رسول اللہﷺ کا حال دریافت کیا تو ان سے پوچھا اور کہاايكم اقرب نسبا بهذالرجل الذي يزعم انه نبي الي قوله قال (اي هرقل) لترجمانه قل لهم (اي تجار مكه) اني سائل عن هذا الرجل (اي رسول الله ﷺ) الي ان قال هرقل كيف نسبه فيكم (اي الرجل المذكور) فيكم قلت (اي قال سفيان) هو فينا ونسب الخ (صحیح بخاری جلد 1 ص4)
دیکھے رسول للہ ﷺ مدینہ منورہ میں تھے اور ہرقل شاہ روم ملک شام میں وہ رسول اللہﷺ کی طرف ھذا الرجل سے اشارہ کر رہا ہے۔ اور تجار مکہ اہل لسان ہی اس کا کلام نقل کر رہے ہیں۔ ثابت ہواکہ کبھی ھذا سے محسوس مبصر کی طرف اشارہ نہیں بھی ہوتا۔ بلکہ ما حضر فی الذہن۔ یا سیاق کلام کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ خصوصاً جب آگے موصول موصلہ موجود ہو کما فی الحدیث ۔
اس مضمون کی تین حدیثیں آئی ہیں۔ تینوں کے الفاظ درج ہیں۔
1۔ ما کنت تقول فی ھذا الرجل
2۔ ما کنت تقول فی ھذا الرجل المحمد
3۔ ما ھذا الرجل الذی بعث فیکم (مشکواة باب اثبات عذاب القبر)
پہلی روایت کا ترجمہ یہ ہے۔ کہ ’’اے میت تو اس آدمی کے حق میں کیا کہتا تھا۔‘‘
دوسری روایت کے یہ معنی ہیں۔ ’’اے میت تو اس آدمی یعنی محمد ﷺ کے بارے میں کیا کہتا تھا۔‘‘
تیسری روایت کے معنی یہ ہیں۔ ’’اے میت تو اس آدمی کے حق میں جو تمہاری طرف بھیجاگیا تھا کیا کہتا تھا۔‘‘
ان تینوں روایتوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اصلی الفاظ جو آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہیں۔ وہ آخری الفاظ ہیں۔ پہلی اوردوسری روایتوں میں راوی نے اختصار کردیا ہے۔ پس ساری گفتگو کا مدار کار آخری روایت ہے۔ اس میں نہ صورت دکھانے کا کوئی لفظ ہے۔ نہ تصویر کا زکر ہے بلکہ یہ لفظ ہے کہ یہ آدمی محمدﷺ جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا اس کی بابت تو کیا کہتا تھا۔ اس سوال میں آپﷺ کی بعثت کا زکر کر کے سوال اس غرض سے ہے۔ کہ آپ ﷺ کی نبوت کی بابت تصدیق یا تکذیب کا اقرار کرے۔ یہ نہیں کہ تصویردیکھائی جائے۔
ھذا الرجل کی تشریح کرنے میں بعض علماء نے کہہ دیا کہ آپﷺ کی قبر مبارک تک پردہ اٹھ جاتا ہے۔ بعض نے کہا کہ تصویر دیکھائی جاتی ہے۔ یہ سب ان کے اپنے خیالات ہیں۔ کسی روایت سے ثابت نہیں ھذا کا استعمال مشہور آدمی کے لئے بھی آیا کرتا ہے۔ اس کے ثبوت میں سر دست ہم تین مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔
1۔ تاریخ ابن خلدون کی جلد اول کے صفحہ 150 پر لکھا ہے۔ هذا جوهر الصقلي الاكاتب قائد جيش العبيديين الخمصنف اپنے سے بہت پہلے کا واقعہ لکھتا ہوا کہتا ہے۔ ""یہ جوہر صقلی جب لڑائی کو چلا وغیرہ۔ 2۔ اسی جلد کے صفحہ 173 پر لکھا ہے۔ هذا عثمان لما حضر في الدار (یہ عثمان رضی اللہ عنہ جب گھر میں گھر گئے)3۔ اسی صفحہ پر لکھا ہے۔ هذا علي اشارعليه المغيرة یہ علی رضی اللہ عنہ ہیں جن کو مغیر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا تھا۔ پس نہ خود صوت منورہ دکھائی جاتی ہے۔ نہ تصویر نہ کچھ بلکہ شہرت کی وجہ سے صرف یہ کہا جاتاہے ۔ کہ یہ نبی ﷺ جو تم میں رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ تو اس کے حق میں کیا کہتا تھا۔ ایسے موقع پر ھذا کا استعمال عام طور پر کیا جاتا ہے چنانچہ مثالیں ہم بتاچکے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب