سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(20) کیا جنتی جنت میں ہمیشہ رہے گا؟

  • 5799
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3097

سوال

(20) کیا جنتی جنت میں ہمیشہ رہے گا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا جنتی جنت میں ہمیشہ رہے گا۔ جب تک خدا کی خدائی رہے گی یا آخر میں کبھی چل کر معدوم ہوجائےگا۔ زید کہتا ہے کہ خدا کی خدائی جب تک رہے گی۔ تب تک جنتی کا جنت میں رہنا غیر ممکن ہے۔ جب کہ پارہ عم میں سورہ لم یکن الذین میں مذکور ہے کہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اور آپ نے 16 جولائی 1943ء؁ کے پرجہ میں فتویٰ پر جواب لکھاہے۔ کہ ایک وقت ایسا آئے گا۔ کہ جہنم خالی ہوجائے گی جب کہ خالدین فیھا۔ ہے۔ ۔ ایسا ہی جنت بھی شاید ایک دن خالی ہوجائےگی۔ چونکہ جنت کے بارے میں میں کیا جہنم بھی اٹھا دی جائے گی۔ خالدین فیھا۔ آیت ہے قرآن وحدیث صحیح سے جواب دیں۔ اللہ اجر عظیم دے گا۔ ان شاء اللہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنت اور جہنم میں فرق ہے۔ یہ فرق در اصل قرآن مجید کی آیتوں میں صاف ملتا ہے۔ جہنمیوں کی بابت ارشاد ہے،۔ خـٰلِدينَ فيها ما دامَتِ السَّمـٰو‌ٰتُ وَالأَر‌ضُ إِلّا ما شاءَ رَ‌بُّكَ ۚ إِنَّ رَ‌بَّكَ فَعّالٌ لِما يُر‌يدُ ﴿١٠٧جنتیوں کی بابت آیا ہے۔ وَأَمَّا الَّذينَ سُعِدوا فَفِى الجَنَّةِ خـٰلِدينَ فيها ما دامَتِ السَّمـٰو‌ٰتُ وَالأَر‌ضُ إِلّا ما شاءَ رَ‌بُّكَ ۖ عَطاءً غَيرَ‌ مَجذوذٍ ﴿١٠٨

(سورہود)پہلی آیت سے بعض علماء نے سمجھا ہے کہ جہنم کا عذاب ختم ہو جائےگا۔ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے اس کے قائل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اور متاخرین علماء میں امام ابن تیمیہ۔ ابن قیم اور ان کے اتباع ہیں۔ دوسری آیت میں جنتیوں کے غیر مجذوز کا لفظ آیا ہے۔ یعنی جنتیوں کی  عطا غیر منقطع (دائمی) ہوگی۔ اس لئے جنت او ر دوزخ میں فرق ہے۔

تنقید از حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب ؒ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ أُولَـٰئِكَأَصْحَابُالنَّارِۖ هُمْفِيهَاخَالِدُونَیہ آیت قرآن مین بہت جگہ آئی ہے۔ اور فرمایا وَما هُم بِخـٰرِ‌جينَ مِنَ النّارِ‌ ﴿١٦٧ اورحدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں فرمایا ہے ہے کہ جب اہل جنت جنت میں اور اہل نار نار میں داخل ہوجائیں گے تو ایک موذن ان کے درمیان آذان دے گا۔ کہ يا اهل الجنة لا موت ويا اهل النار لا موت كل خالد فيها هو فيه رواه الشيخان اور حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں زکر موت کے ذبح کرنے کا درمیان جنت اور نار کے آیا ہے۔ پھر یہ کہہ یا جائے گا۔ يا اهل الجنة خلود ولا موت ويا اهل النار خلود ولا موت اس باب میں کئی حدیثیں نزدیک ترمذی و حاکم اور ابن ماجہ کے آئی ہیں۔ اور صحت کو پہنچی ہیں۔ غرض یہ کہ قرآن وحدیث دونو ں کی دلیل سے خود اہل دارین کا ابد الاباد تک بخوبی ثابت ہے۔ اور اہل سنت جماعت نے اس پر اجماع اور اتفاق کیا ہے۔ کہ نہ عذاب کفار کا منفقطع ہوگا اور نہ اہل جنت کا انقطاع ہوگا ہاں جہمیہ فناء جنت و نار کے قائل ہیں اور اس مسئلے میں سات قول ہیں۔ جن کا زکر اصل رسالے میں موجود ہے۔ (جوعربی ہے اور جس کا نام یقظۃ ااولی الاعتبار مما رد النار و اصحاب النار ہے۔ )لیکن بعض صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین نے یہ کہا ہے کہ یہ جنت غیر منقطع ہے۔ اور نار ایک دن فانی ہوکر عذاب نار کا ذائل ہوجائےگا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن القیم بھی اسی طرفف مائل ہیں۔ مگر یہ قول ان کا شاذ وفاذ ہے۔ ہم ان سے اس مسئلے میں موافقت نہیں کرتے ہیں۔ ابن قیم نے کچھ اوپر بیس وجہ سے اس مسئلہ کو راحج کہا ہے۔ یہ لوگ اگر چہ اسلام میں کبر آئمہ ہیں لیکن حق اکبر تر ہے یہ قول ظاہر کتاب وسنت کے خلاف ہے۔ کوئی حاجت صرف نصوص ظاہر ہ کی ان کے ظواہر الفاظ واصوات معنی ہے۔ اس جگہ نہیں ہے۔ شیخ حنبلی نے اس باب میں ایک رسالہ لکھا ہے۔ اور اس باب میں ایک رسالہ سید محمد بن اسماعیل اور قاضی محمد بن علی شوکانی کا بھی ہے۔ حاصل ان رسائل کا یہ ہے کہ جنت اور نار باقی رہیں گے۔ اور اہل جنت اور نار ہمیشہ اس میں خالد و مخلود ہوں گے۔ کسی کو فنا نہ ہوگی،۔ یہی حق ہے اور کتاب وسنت و اجماع ائمہ امت بھی اسی پر دلیل ہے۔ قرطبی نے کہا کہ علماء اہل سنت کا اس پر اجماع ہے۔ کہ اہل نار مخلد ہوں گے۔ کبھی اس سے باہر نہ نکلیں گے۔ جیسے فرعون۔ ہامان ۔ قارون۔ اور ہر کافر متکبر کے لئے نار جہنم متعین ہے۔ یہ اس آگ میں مریں گے نہ جئیں گے اللہ نے ان سے وعدہ عذاب الیم کا کیا ہے۔ كُلَّما نَضِجَت جُلودُهُم بَدَّلنـٰهُم جُلودًا غَيرَ‌ها لِيَذوقُوا العَذابَ ۗ .... ﴿٥٦ ۔ نیز اہل سنت کا اس پر اجماع ہے۔ کہ نا ر میں کوئی مومن باقی نہیں رہے گا۔ خود واسطے کافر جامد کے ہے۔ اس جگہ بعض علماء سے لغزش ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایک دن ہر کافر مبطل شیطان بھی آگ سے خارج ہوکر جنت میں جائے گا۔ اور یہ بات عقلا جائز ہے کہ صفت غضب کی منقطع ہوجائے۔ سو جواب اس کا یہ ہے کہ عقلا یہ بھی جائز ہے۔ کہ صفت رحمت کی منقطع ہوجائے اور اس سے یہ لازم آتا ہے۔ کہ انبیاء و اولیاء معاذ اللہ معذب فی النار ہوں۔ (نعوذباللہ من ذلک) اور یہ عقیدہ فاسد مردود ہے۔ اس لئے کہ جو اللہ سب سچوں کا سچا ہے۔ اور اسکا وعدہ سب سے زیادہ پکا ہے۔ اس نے اہل جنت کے حق میں یوں فرمایاہے۔ عَطاءً غَيرَ‌ مَجذوذٍ ﴿١٠٨اور فرمایا ۔ لَهُم أَجرٌ‌ غَيرُ‌ مَمنونٍ ﴿٨

 یعنی غیر مقطوع اور فرمایاہے۔ لَهُم فيها نَعيمٌ مُقيمٌ ﴿٢١ خَالِدِينَفِيهَاأَبَدًاۚاور کفار کے حق میں کہا ہے کہ ۔ وَلا يَدخُلونَ الجَنَّةَ حَتّىٰ يَلِجَ الجَمَلُ فى سَمِّ الخِياطِ ۚ وَكَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُجرِ‌مينَ ﴿٤٠۔ اور فرمایا ہے۔ فَاليَومَ لا يُخرَ‌جونَ مِنها وَلا هُم يُستَعتَبونَ ﴿٣٥

اور یہ واضح ہیں۔ عقول کو بھی اس جگہ کوئی دخل نہیں ہے،۔ اس اعتقاد کی جڑ تو پہلے ہی اجماع نقول سے کٹ گئی ہے۔ وَمَن لَم يَجعَلِ اللَّهُ لَهُ نورً‌ا فَما لَهُ مِن نورٍ‌ ﴿٤٠انتہٰی۔ میں کہتا ہوں کہ شاید مراد قرطبی کی اس جگہ امثال شیخ ابن عربی ہیں۔ اس لئے کہ ان کے اتباع اسی طرف گئے ہیں۔ غالبا ان حضرات کی نظر میں جانب رحمت وسبق کرم کی راحج ٹھری ہے۔

بخاری میں ہے۔ سبقت رحمتي علي غضبي یا بنیاد اس قول کی اس با ت پر ہے۔ وعید میں خلف جائز ہے۔ اور وعد میں ناجائز لیکن اس میں شک نہیں کہ ظاہر نظم قرآنی اور واضح نص اس خلود اہل دارین پر جنت و نار میں دلیل ہے۔ او ر یہی حق ہے۔ مطابق اولہ شرعیہ مجمع علیھا کے بلکہ خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک سوال کے جواب میں یہ لکھا ہے۔ ''بالجملہ جنت ونار لوح وقلم عرش و کرسی۔ حور و قصور کو بوقت نفع صور کے فنا نہ ہوگی۔ اس لئے کہ یہ واسطے بقا کے پیدا کئے گئےہیں۔ یہ تو ابد الاباد تک بلا انقطاع معہ موالی خود باقی و خالد رہیں گے۔ (فقط از حضرت نواب صدیق حسن کان بھوپالی کتاب نزیر العریان ص 7تا 10 مطبوعہ مفید عام آگرہ 1206ھ؁)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

جلد 01 ص 155

محدث فتویٰ

تبصرے