السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بزم میلاد
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلمان اس بات پ متفق ہیں کہ ان کے ہمارے دینی ا ور دنیاوی تنزل کی وجہ صرف یہی ہے۔ کہ ہم نے اسلام کی اصلی تعلیم کو چھوڑدیا۔ باوجود اس کے وہ ہر ایک ممتاز موقع پر اسلامی تعلیم کے برخلاف کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہندوستان میں محرم کا مہینہ ایک خاص شہرت رکھتا چلا آیا ہے۔ جو بوجہ شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک ماتمی مہینہ مشہور ہے یہاں تک کہ شعرا نے اس مہینے کو بغیر اظہار ماتم کے ماتمی بنا رکھا ہے۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے۔
شادی و عیش تو گھر گھر ہے رچی پر قسمت عید کاچاند محرم نظر آتا ہے ہمیں
علمائے اسلام محرم کی رسومات کے بند کرنے کی فکر میں رہتے تھے۔ اسی نام سے ہنوز فرصت نہ ہوئی تھی۔ کہ دوسرے مہینے ربیع الاول نے بھی قریب قریب اس کے شہرت حاصل کرنا جس کی وجہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ اس ماہ میں حضور پر نور احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ ﷺ کی پیدائش ہوئی تھی اس لئے اس میں خوشی کرنی چاہیے۔ حالانکہ ربیع الاول کے مہہنے میں آپﷺ کی فداہ ابی و امی کی ولادت ہوئی ہے تو وفات بھی ہوئی ہے۔ اس اتفاقیہ وقوعہ (حیات و ممات) کو لہاظ کر کے چاہیے تو یہ تھا کہ خوشی اور غم دونوں بالمقابل مساوی کر کے خاموشی رہتی۔ جیسی کے صدر اول کے مسلمانوں میں تھی۔ مگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ سابق زمانہ سے آجکل بڑھ کر اس پ زور دے رہے ہیں۔
پہلے اس مہینے میں کوئی شخص فردا فردا مجلس میلاد کیا کرتاتھا۔ مگر اب ااس کا نام عید میلاد رکھ کر قومی تہوار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گو ایسی کوشش کرنے والوں کو اس کوشش میں ہنوز کامیابی نہیں ہوئی۔ خدا نے چاہا تو نہ ہوگی۔ مگر وہ اپنی کوشش میں خوب چست ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں نقصان کیا ہے۔ اور مانعین کیوں منع کرتے ہیں۔ ان دونوں سوالوں کا جواب ہم اس مضمون میں دیں گے۔ ان شاء اللہ
شریعت محمدیہ کا عام قانون ہے۔ کہ جو کام دینی ہو یا باالفاظ دیگر جس کام میں ثواب سمجھا جائے اس کی اجازت شرع شریف سے ہونی چاہیے۔ اگر کوئی ایسا کام کیا جائے جس کی بابت شرح سے ثبوت نہ ہو تو اس کو بدعت کہا جاتا ہے۔ اسلام میں بدعت کا درجہ شرک کے درجے سے درجہ دوم پر ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثيرًا ﴿٢١﴾
’’تم ایمانداروں کے لئے اللہ کے رسولﷺ کی تابعداری میں نیک نمونہ ہے۔ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد رکھتے ہیں۔‘‘
ایک او ر مقام پر ارشاد ہے۔
قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ وَيَغفِر لَكُم ذُنوبَكُم ۗ ..... ﴿٣١﴾
’’تو اے نبی ﷺ تو ان لوگوں کو کہہ دے۔ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو۔ تو میری تابعداری کرو۔ خدا تم کو دوست رکھے گا۔ اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ ‘‘
غرض قرآن مجید کو کہیں سے کھول ک دیکھو یہی پائو گے کہ شرعی رنگ میں جو کام ہو۔ اس میں حضور ﷺ سےاجازت یا ثبوت ہونا چاہیے۔ اگر یہ نہیں تو بدعت ہے۔ یہی مضمون اس حدیث شریف کا ہے۔ جس کے الفاظ طبیہ یہ ہیں۔
من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد (مشکواة باب الاعتصام بالسنة)
’’جو کوئی ہمارے دین میں کوئی نیا کام نکالے۔ جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔ ‘‘
بدعت کی مذمت میں اھادیث اور اقوال بکثرت آتے ہیں۔ جن سب کا متفقہ مضمون یہ ہے کہ بدعت کا کام بجائے ثواب کے باعث عذاب ہے بدعتی کا کوئی کام خدا کے ہاں مقبول نہیں وٖغیرہ۔ مانعین اس لئے منع کرتے ہیں تاکہ بدعت کے پھیلنے سے اصل دین الہیٰ پ کوئی برا اثر نہ پہنچے۔ جیسا کہ حضرات انبیاء ؑ کا اصول تھا۔
ہمارا کام سمجھانا ہے یارو اب آگے چاہو تم مانو نہ مانو
بدعت کی پہچان کے لئے آسان صورت یہ ہے کہ زمانہ رسالت یا خلافت میں اس کی تلاش کی جائے۔ اگر ثبوت مل جائے تو سنت ہے۔ نہیں تو بدعت۔ اس امر کی تحقیق کہ ربیع الاول میں مجالس میلاد بدعت ہیں یا سنت اسی اصول سے ہوسکتی ہے۔ آئو اس کی تحقیق کا آسان طریقہ ہم بتلایئں۔
''جو کام کسی زمانہ میں عام طور پر ہوتا ہے۔ اس کی تاریخ او ر وقت میں اختلاف نہیں ہوتا۔ جیسے مسلمانوں کے تہوار عید الفطر عید البقر وٖغیرہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کا کوئی فرقہ یا کوئی فرد ایسا نہیں جو یہ کہے کہ عید الفطر شوال کی چوتھی تاریخ کوہے۔ دوسرا کہے آٹھویں کو کیوں؟اس لئے کہ ابتدا ء سے آج تک یہ دن بطور تہوار کے مانے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں بحکم نبویﷺ مقرر ہوئے تھے۔ او ان کی شان قومی تہواروں کی جو آج تک بھی ہے۔
برخلاف اس کے یوم ولادت آں سرور کائنات ﷺ کا۔ ۔ ۔ ۔ روایات حدیثیہ میں تو اس کا ثبوت بلکہ زکر تک بھی کسی حدیث سے نہیں ملتا۔ کتب تواریخ میں ملتاہے۔ تو دو قول علامہ ابن اثیر مورخ کے الفاظ یہ ہیں۔
ولد رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم الثيين لا ثنتي عشر ليلة مت من ربيع الاول وقيل ولد لعشر خلون منه وقيل ليلتين خلتا منه
(تاریخ کامل جلد اول صفحہ 205) ’’آپ ﷺ پیر کے روز بارہ تاریخ ربیع الاول کو پیدا ہوئے بعض کا قول ہے دس کو بعض کہتے ہیں در ربیع الاول کو ولادت باسعاد ت ہوئی۔‘‘
اس اختالف سے ہر آدمی سمجھ سکتا ہے۔ کہ زمانہ نبوت اور زمانہ خلافت میں یہ دن بطور تہوار کے نہیں سمجھا گیا تھا۔ نہ اس کی بابت کوئی اہتمام تھا۔ جیسے آجکل کے شوقین کر رہے ہیں۔ جس کا نمونہ دیکھانے کو ہم امرتسر ہی کے دو اشتہار نقل کرتے ہیں۔
12 ربیع الاول یوم میلاد قریب آگیا ہے۔ جب اس مبارک دن کی عظمت و فضیلت پر غور کیا جاتا ہے تو ہر مسلمان کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام کے جتنے تہوار عیدین اور خوشی کی تقریبیں ہیں۔ وہ سب اس مبارک دن کی برکتیں اورنتائج ہیں یہی دن تمام اسلام خوبیوں اور نیکیوں کا منبع ہے۔ 1
اگر چہ قدیم الایام 2 سے اس دن مولود شریف کی مجالس منعقد کرنے کا دستور چلا آتا ہے۔ لیکن انجمن اسلامیہ امرتسر نے مناسب سمجھا ہے کہ مثل سال گزشتہ مسلمانان امرتسر توجہ اس طرف مبزول کرائی جاوے۔ کہ اس مبارک دن کو ایسے احسن طریقہ ومدہ انتظام کے ساتھ منائیں کہ موجودہ صورت کی نسبت ثواب بھی زیادہ حاصل ہو۔ اور یہ موقع نہایت عظیم الشان اور پر اثر تقریب بن سکے اس لئے مسلمانان امرتسر کی خدمت میں التماس ہے کہ
1۔ 12 ربیع الاول 1332ھ کے دن کو صبح کو نہادھو کر اجلا لباس پہنا جاوے اور خوشبو لگائی جاوے۔
2۔ صبح سے لے کر 12 بجے دوپہر تک لوگ اپنے گھروں اور محلوں میں مجالس مولود کریں۔
3۔ 4 بجے دوپہر سے شام تک مدرسۃ المسلمین امرتسر میں ایک عظیم الشان قومی مجمع ہوگا جس میں علماء و لیکچرار عظمت یوم المیلاد کی مختلف پہلووں پر موثر طریق سے تقریریں کریں گے۔ جن میں زیادہ تر رسول پاکﷺ کی مابرک زندگی کے حالات بیان کرنے پر زور دیا جائے گا۔ اس جلسے میں تشریف لا کر شامل ثواب ہوں۔
4 ۔ رات کو اپنے گھروں میں چراغاں اور مسجدوں میں بھی چراغاں کریں۔ (چنانچہ عمارت مدرسۃ المسلمین امرتسر میں چراغاں۔ کی جائے گی۔ اور غرباء کو کھانا تقسیم کیا جائے گا۔ )
امید ہے کہ مسلمانان امرتسر اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر اس عظیم الشان طور پرمنانے میں کوتاہی نہ کریں گے۔ (5 ربیع الاول 1332ھ)
حیرت ہوتی ہے ۔ مشتہرین نے کس جرائت سے کام لیا ہے۔ اکھٹے تین حکم صادر کیے ہیں۔ جس میں سے ایک کا حکم بھی شرع سے نہیں۔ تیسرے حکم کی بابت ہم منتظر تھے۔ کہ لیکچرار اور واعظان جناب سرور کائنات ﷺ کی زندگی کے حالات بتلاتے ہوئے یہ بھی فرمادیں گے۔ کہ حضور ﷺ رسالت اور نبوت کی یہ بڑی قوی دلیل ہے کہ آپ نے اپنی شخصیت کو اتنا امتیاز بھی نہیں دیا کہ ساری عمر میں ایک دن بھی اپنے روز ولادت کی خوشی کے لئے مقرر فرماتے۔ مگر افسوس کسی صاحب نے یہ نہیں بتایا کم از کم یہ روایت ہمارے کانوں تک پہونچی۔
اس کے جواب میں کہیے یا حقیقت حال کہیے۔ حقانی تعلیم کا ایک اشہتار بھی امرت سر ہی سے شائع ہوا تھا جو درج زیل ہے۔
از انجمن اہل حدیث امرتسر
اسلام ایک ایسا دین ہے۔ کہ اس میں ثواب و عذاب کی تعلیم صرف اسی پر رکھی گئی ہے۔ کہ خدا کی وحی سے اس کا رسولﷺ بتلادے۔ جب تک کسی کام کو قرآن وحدیث میں ثواب نہ بتلایا گیا ہو۔ اس کو ثواب سمجھنا درست نہیں۔ قرآن مجید میں یہی بار بار زہب نشین کیا گیا ہے۔ کہ مسلمان کوئی کام ایسا نہ کریں جس کا نمونہ آپﷺ میں نہ ملتا ہو۔ ارشا دہے۔
لَّقَدْكَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِاللَّـهِ أُسْوَةٌحَسَنَةٌ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَلَ عَلَّكُمْتُرْحَمُونَ ﴿١٣٢﴾مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْأَطَاعَ اللَّـهَۖ
’’یعنی رسول اللہﷺ مسلمانوں کے لئے نیک نمونہ ہیں۔ اللہ اور اس کے ر سول کی ہی تابعدار ی کرو۔ جو کوئی رسول ﷺ کی تابعداری کرے اُس نے اللہ کی تابعداری کی‘‘
شیخ سعدی مرحوم نے کیا اچھا کہا ہے۔
مپندار سعدی کہ راہ صفا نواں رفت جز درپے مصطفےٰ
یعنی بغیر تابعداری سنت رسول اللہﷺ کے ہرگز نجات نہیں ہوگی۔ اس لئے مسلمانوں پر فرض ہے۔ کہ جو کام کریں۔ پہلے یہ دیکھا کریں۔ کہ ہمارے سردار ہمارے نبی ہمارے شفیع ہمارے آقا نامدار سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ ہے یا نہیں۔ ؟اس سنہرے اصول پرمسلمان آجاویں۔ تو آج کے بہت سے تفرقے مٹ سکتے ہیں۔
ربیع الاول کے مہینے میں مجالس میلاد یا عید میلاد کی رسم کو بھی اسی اصول سے جانچنا چاہیے۔ کہ جس ذات ستود صفات کی پیدائش کا دن سمجھ کر ہم یہ مجالس کرتے۔ اور چراغاں جلاتے۔ یا میلہ مناتے ہیں۔ اُس سردار نے ہم کو فرمایا ہے۔ یا اصحاب کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس روز کچھ کیا ہے۔ ہرگز کچھ نہیں کیا لاگر کیا ہوتا تو آپﷺ کے روز پیدائش میں اختلاف کیوں ہوتا کتب تواریخ میں صاف مرقوم ہے کہ روز پدائش میں بہت اختلاف ہے اس سے صاف ثابت ہے کہ زمانہ نبوت اور زمانہ خلافت میں اس دن کو مذہبی تہوار کی طرح کسی نے یاد نہ کیا تھا۔ آج اگر کوئی شخص دعویٰ کرتا ہے۔ تو ہم کو کسی معتبر کتاب سے دکھا دے۔ کہ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں اس روز ایسے کام کرنے کا حککم فرمایا۔ بعد انتقال آپ کے صحابہ کرام نے کیا یا آئمہ اہل بیت یا آئمہ اربعہ میں سے کسی امام نے حکم دیا یا فقہ کی کسی کتاب میں اس کا زکر ہے۔ ؎
بھایئو!جب کچھ نہیں تو پھر ہم کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ 12 ربیع الاول کو عید منائو۔ چراغاں جلائو۔ کام چھوڑ کر میلہ کرو۔ یاد رکھو جس کام میں خرچ کرنے کی اجازت شرع شریف میں نہ آئی ہو اس میں خرچ کرنا اسراف اور فضول خرچی ہے فضول خرچی کا گناہ سب کومعلوم ہے۔
إِنَّ المُبَذِّرينَ كانوا إِخوٰنَ الشَّيـٰطينِ ۖ وَكانَ الشَّيطـٰنُ لِرَبِّهِ كَفورًا ﴿٢٧﴾
’’فضول خرچی کرنے والے شیطان کے ساتھی ہیں۔‘‘
جب تک قرآن وحدیث یا فقہ کی کسی معتبر کتاب میں مجالس میلاد کا ثبوت نہ ہوا اس قسم کے کام اور اخراجات سب گناہ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ ہیں شیخ سعدی مرحوم نے کیا سچ کہا ہے۔
بزہد و رع کوش و صدق وصفا ولیکن میفزائے بر مصطفےٰ
اس اشتہار میں کسی خوبی اور نرمی سے اسلام کی وہ شاہراہ دیکھائی گئی ہے۔ جس میں کسی ایک متنفس کو بھی اختلاف نہیں۔ اس دعوے پر گو کسی شہادت کی ضرورت نہیں تاہم دو شہادتیں بھی پیش کی جاتی ہیں۔ اول شہادت حضرت مولانا شیخ سید عبد القادر جیلانی کی ہے جو فرماتے ہیں۔ اجعل الكتاب والسنة امامك قرآن اور سنت کو اپنا امام بنا لو اور بس (فتوح الغیب) حضرت سید الطائفہ مجدد صاحب سر ہندی فرماتے ہیں۔
غیر اللہ کی محبت دل سے نکال کر خدا کا مقرب بندہ بننے کا ذریعہ اتباع سنت ہے۔ اور بس ان حوالہ جات اور روایات ک مقابلہ پر کسی مجوز کا یہ کہنا۔ ''چونکہ ہندو۔ عیسائی۔ اور سکھ وغیرہ اپنے اپنے بزرگوں کی ولادت کے دن کی بڑی تعظیم کرتے ہیں۔ اس لئے ہم مسلمانوں کوبھی ایسا کرنا چاہیے۔ کہاں تک صحیح ہوسکتا ہے۔ ؟ہمارے خیال میں مجوزین کی یہ رائے چونکہ غیر مسلم قومیں ایسا کرتی ہیں ہم کو بھی کرناچاہیے۔ ایک اصولی تنقیح پر مبنی ہے جو یہ ہے۔
''ہم مسلمانوں کو اپنے نبی ﷺ کے ساتھ اس طریق سے برتائو کرنا چاہیے جو انھوں نے خود سکھایا۔ اور جو برتائو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے آپ ﷺ کے ساتھ کیا۔ یا وہ برتائو کرنا چاہیے جو ہندو کرشن جی کے ساتھ اور سکھ باوانانک جی کے ساتھ اور عیسائی حضرت مسیح کے ساتھ کرتے ہیں''؟
ہمارے خیال می کوئی مسلمان دوسری صورت اختیار کرنے کی رائے نہ دے گا۔ بلکہ یہی آواز آئئے گی کہ ہم تو وہ طریقہ اخیتار کریں گے۔ جو حضورﷺ نے سکھایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے برتا''خواجہ حالی نے ایک حدیث کا ترجمہ کیا اچھا کیا ہے۔
نصاریٰ نے جس طرح کھایا ہے دھوکا کہ سمجھے ہیں عیسیٰ ؑ کو بیٹا خدا کا
مجھے تم سمجھنا نہ زنہار ایسا میری حد سے رتبہ بڑھانا نہ میرا
سب انسان ہیں واں جس طرح سر فکندہ
اُسی طرح ہوں میں بھی ایک اس کا بندہ
بتانا نہ تربہت کو میری صنم تم نہ کرنا میری قبر پر سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے وہی ہے حق نے بس اتنی بزرگی
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی
اس تنقیح کے فیصلے کے بعد کون مسلمان ہے جو یہ کہے کہ چونکہ ہندو اپنے بڑوں کے ساتھ ایسا برتائو کرتے ہیں۔ ہم کو بھی ایسا کرنا چایے۔ یاد رہے اسلام دوسرے مذاہب کی طرح پنجچائتی مذہب نہیں بلکہ اسلام الہٰی مذہب ہے۔ جس میں کسی بات کے حکم دینے سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے۔ کہ خدا نے اپنے رسولﷺ کی معرفت اسف بارے میں کیا حکم فرمایا ہے۔ اس قسم کی خود رائوں کو اگر دخل دیا جائے تو ہر ایک امتی پیغمبر بن جائے گا۔ اور ہر ایک کا دین اور مذہب الگ ہوگا۔ اور اس مذہب پر چلنے میں کسی طرح مورد الزام نہ ہوگا۔
اگرچہ اس تقریر پر اصولا تو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اور نہ کوئی دانشمند سوال کرسکتا ہے۔ لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا قصہ مشہور ہے۔
''ایک مولوی صاحب نے کسی بے نماز کو نصیحت فر مائی کہ نماز پڑھا کر بے نماز نے جواب دیا۔ آپ نے دوعوت کی تھی۔ تو نمک زیادہ کیوں ڈالا تھا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اس بات سے میری بات کا کیا تعلق جواب دیا تعلق ہو یا نہ ہو بات سے بات نکل آتی ہے۔ ''
اسی اصول سے مجوزین کی طرف سے بھی مانعین پر چند سوال ہوتے ہیں۔ مثلا ''آپ بائسائکل پ چڑھتے ہیں کیا یہ سنت ہے؟اپنے بیٹے کی شادی پر دعوت ولیمہ بڑی دھوم سے کی آپ نے دعوتی خط چھپوائے وغیرہ۔
اے صاحب ! سنیے آپ کے سوالارت سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ آپ نے ہم مانعین کا مطلب نہیں سمجھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ سمجھنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس لئے ایسے معمولی سوال آپ کو پیدا ہوئے ہیں۔
اے جناب سوال وہی معقول اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے جو اصل مضمون کو سمجھ کر کیاجائے اور جے بے سمجھی سے کیا جائے اس کی بابت یہ کہا جاتا ہے۔
چو بشنوی سخن اہل دل مگو کہ خطا است سخن شناس نئی دلبرا خطا ایناست
ہمارا مطلب یہ ہے کہ جس کا م کو ثواب جان کر کیا جائے اُس پر شریعت کی طرف سے ثبوت ہوناچاہیے۔ اگر شریعت کی طرف سے ثواب کاثبوت نہیں اور کرنے والا اس کو ثواب سمجھے تو وہ بدعت ہے اور کرنے والا بدعتی یہی بدعتی کی تعریف ہے۔
پس اس اصول سے اگر کوئی شخص بائسائکل پر اس نیت سے سوار ہو کہ یہ ثواب کا کام ہے تو اس فرض ہے کہ اس کا ثبوت شرح شریف سے دے۔ اگر نہ دے گو بدعتی ہے۔ اور اگر اس نیت سے سوار ہو چونکہ شریعت میں ممانعت نہیں آئی اس لئ جائز ہے تو اس پر مواخذہ نہیں جواز کے برخلاف دعویٰ کرنے والا مدعی ہے اس کا فرض ہے۔ کہ اس کا ثبوت شرح شریف میں دکھا دے۔ پس سائکل ہو یا ریل ململ کا لباس ہو یا لٹھا۔ دعوت ہو یا دعوتی خطوط ان سب میں یہی طریق ہے جو کوئی یہ سمجھ کر شریعت میں اس فعل کی ممانعت نہیں جواز کی نیت سے کرتا ہے۔ وہ بدعت نہیں مگر جوشخص ثواب کے ارادے سے کرتا ہے۔ وہ بدعت ہے جب تک شرع شریف سے ثواب کا ثبوت نہ دکھادے۔ ہاں اس امر کی تنقیح کرنے کی ضرورت نہیں کہ مجوزین مجالس میلاد اس کام کو ثواب کی نیت سے کرتے ہیں۔ نہ محض جواز کی نیت سے کیونکہ مذہبی کام کوئی بھی ہو بغیر نیت ثواب کے نہیں ہوسکتا۔
عام طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رسم صحابہ تابعین اور تبع تابعین اور آئمہ دین کے زمانے میں نہ تھی تو کب سے جاری ہوئی ہے؟گو یہ ایسا سوال ہے کہ اس کی تحقیق پ کوئی امر شرعی موقوف نہیں۔ کیونکہ بدعت ہرحال میں بدعت ہے خواہ اس کا ایجاد کا زمانہ موصول ہو یا نہ ہو تاہم ہم اس کی ایجاد کا زمانہ بتلاتے ہیں۔
موصل کے ملک میں اربل شہر کا ایک بادشاہ تھا۔ جس کا نام تھا سلطان ابو سعید مظفر اس سلطان کے زمانے میں یعنی 204 ہجری میں ایک شخص عمر بن محمد نے مولود ایجاد کیا اس کے بعد شاہ اربل کے بیٹے اور قائم مقاموں نے اس کو بہت رواج دیا۔ علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے حسن المقصد میں اور علامہ شامی نے سیرت میں یہ تاریخ لکھی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ چھ سو برس تک اسلام میں اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ پس باانصاف ناظرین خود ہی انصاف فرمایئں کہ چھ سو سال تک اسلام میں جس کا نام و نشان نہ ملتا ہو اس کے بدعت ہونے میں کیا شک ہے؟
ہندوستان میں اس رسم کے کرنے والے حنفی مذہب کے پیرو کہلاتے ہیں۔ گو سارے حنفی نہیں بلکہ محقق حنفیہ جن کو علم فقہ کے ساتھ ساتھ علم حدیث سے بھی واقفی ہے۔ یا یوں کہیے کہ جس کو بوجہ حدیث دانی کے مذہب حنفی اور رسومات بدعیہ میں تمیز ہے۔ جیسے علماء دیوبند ۔ گنگنوہ۔ میرٹھ ۔ سہارنپور۔ مراد آباد ۔ دہلی وغیرہ۔ جن کو عام طور پر دیوبندی کہا جاتاہے۔ ان کو چھوڑ کر باقی جتنے لوگ میلاد کی رسم ک ےدلدادہ ہیں۔ وہ سب کے سب اپنے آپ کو حنفی مذہب کا مقلد کہتے ہیں۔ خیر اس کا تعجب تو نہیں ۔ تعجب تو اس امر کا ہے کہ کہلاویں مقلد مگر کام کریں تقلید کے صریح خلاف۔ مقلد ک شان بحیثیت تقلید یہ ہے جو کتب اصول میں لکھی ہے کہ ۔ اما المقلد فمستنده قول مجتهده(مسلم الثبوت) اس اصول کو مد نظر رکھ کر ہمارے حنفی بھائی مہربانی کر کے کسی آیت حدیث سے نہیں دکھا سکتے تو امام ابو حنیفہ کے قول سے ہی دکھا دیں۔ کہ ربیع الاول کی مجلس منعقد کرنا کار ثواب ہے۔ یا فقہ کی کسی کتاب میں کسی متاخر امام یا عالم کا فتویٰ پیش کریں۔ ہاں مہربانی کر کے ایسے قیاسات پیش نہ کریں کہ۔
''چونکہ غیر مسلم قومیں اپنے بزرگوں کی پیدائش کے دن مناتی ہیں۔ ہم کو بھی ایسا کرنا چاہیے'' کیونکہ اپنے قیاسات کے حق میں امام زین العابدین کا فتویٰ ہے۔ اول من قاس ابليس (سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیاتھا۔ )
جس طرح کسی مسلمان کو مذہبی کاموں میں یہ اجازت نہیں کہ بغیر حکم خدا اور رسول کے کوئی کام کرے۔ اور اسی پر ثواب کی امید رکھے۔ اسی طرح حنفی مقلد کو یہ جائز نہیں کہ بغیر اجازت اپنے امام کے کوئی کام کرے۔ نہ اس کوثواب جانے۔ اگر جانے گا تو وہ دائرہ تقلید سے نقل جائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ روز ولادت آپﷺ چونکہ دنیا کے لئے موجب رحمت ہے اس لئے ہمں اس روز کو عید منانا چاہیے۔ حالانکہ یہ ٹھیک نہیں۔ کیونکہ روز ولادت سے چالیس سال تک آپ ﷺ کو کسی قسم کی نبوت یا رسالت بالفاظدیگر یہ عہدہ نہ ملا تھا۔ آپﷺ رحمت بنے یا ہادی ہوئے۔ تو وصف رسالت سے ہوئے۔ نہ کہ وصف ولادت سے ہوئے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اسی نکتہ کو سمجھانے کے لئے جہاں حضور ﷺ کے رحمۃ اللعالین ہونے کا زکر کیا ہے۔ یہ فرمایا !
وَما أَرسَلنـٰكَ إِلّا رَحمَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿١٠٧﴾ ترجمہ۔ ہم نے تجھ کو (اے نبیﷺ رسول بنا کر بھیجا ہے۔ تو ا س لئے کہ لوگوں پر رحمت کریں''
یہ نہیں فرمایا۔ مَاخلقنا كَإِلَّارَحْمَةًلِّلْعَالَمِينَ۔ جس کا ترجمہ ہوتا ہم نے تجھ کو پیدا کیا ہے ۔ پیدا ہونے اور رسول بننے میں بہت فرق ہے۔ ان دونوں اوصاف میں چالیس سال کی مدت ہے۔ پس اگر غور کیا جائے۔ قرآن وحدیث اور کتب فقہ اور آئمہ دین کے فتوے سے قطع نظر کر کے اپنے ہی قیاس سے کام لینا ہو تو یوں ہی کہنا چاہیے۔ کہ جس روز حضورﷺ کو رسالت کا کام پہنچا ہے۔ اس روز کو مثل روز عید کا تہوار بنایا جائے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اس دن کی بلکہ اس مہینے کی تعین میں بھی اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کہتا ہے۔ تو کوئی رمضان بتلاتا ہے۔ مختصر یہ کہ مجالس میلاد کا ثبوت آپﷺ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے نہیں اور یہ کہ روز ولادت سے یوم رسالت افضل ہے۔ جس کو مجوزین میلاد نے بالکل چھوڑ رکھا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہماری تحریر کا جواب دی جائے گا۔ ہم بھی اس کو شوق سے دیکھیں گے مگر یہ یاد رہے کہ ہم کسی ایسی تحریر کو وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھا کرتے جس میں کسی کی ذاتیارت پر حملہ ہو۔ یا کسی فرقے کے حق میں دشنام دہی ہو۔ بلکہ ایسی تحریرات لکھنے والوں کو ہم بطور نصیحت استاد صائب کا شعر سنایا کرتے ہیں۔
وہین خویش بدشنام میالا صائب کہ ایں زر قلب بہر کس کہ دہی بازوہد
ہاں ہم اس تحریر کو عزت کی نگاہ سے دیکھا رکرتے ہیں۔ جس میں ہمارا مدعا سمجھ کر محض دلیل کے زور سے جواب دیا گیا ہو،۔ خدا کرے ہمارے دوست جواب دینے سے پہلے ہمارے مطلب پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ کہ جو یہ ہے کہ
''ہم مجالس میلاد کو کار ثواب نہیں جانتے۔ اس لئے کہ زمانہ رسالت و خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ ''
جو کوئی ان کو کار ثواب جانیں۔ بحکم البینۃ البدعی۔ اس کا فرض ہے کہ اس ک ثبوت دے۔ واللہ الموفق۔ (ابو الوفائ فروری 1012ء)
سوال۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مولود شریف کرنا چاہیے۔ لیکن خوشی پر منحصر ہے خواہ کرے خواہ نہ کرے۔ فقط محبتی ہے۔ کچھ قران شریف سے مولود ثابت نہیں ہے۔ ؟
جواب۔ مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے۔ جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے۔ اسی لئے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا جس پر شرع شریف نے ثواب بہ بتلایا ہو اس کام کو بدعت بنادیتا ہے۔ مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے کیونکہ شریعت مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا۔ اسی لئے ثواب سمجھ کر تو یقینا بدعت ہے۔ رہا محض محبت سے کرنے کی صورت یہ بھی بدعت ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے۔ جس پر ثواب کی امید ہے۔ پس جس طریق سے شرح شریف نے محبت سکھائی ہے اس طریق سے ہوگی تو سنت ورنہ بدعت (23 ربیع الثانی 1335ھ)
انعقاد محفل میلاد اور قیام وقت زکر پیدائش آپﷺ کے قرون ثلاثہ سے ثابت نہیں ہوا۔ پس یہ بدعت ہے۔ اور علیٰ یذا القیاس۔ بروز عیدین و پنجشبہ۔ وغیرہ میں فاتحہ مرسومہ ہاتھ اٹھا کر پایا نہیں گیا۔ البتہ نیابۃ عن المیت بغیر تخصیص ان امور مرقومہ کے للہ مساکین وفقراء وک دے کر ثواب پہنچانا۔ اور دعا و استغفار کرنے میں امید منفعت ہے۔ اور ایسا ی ھال سوم ۔ دہم ۔ چہلم۔ وغہرہ اور پنچ آیت اور چنوں اور شیرینی وغیرہ کا عدم ثبوت حدیث۔ وکتب دینیہ سے ہے۔ خلاصہ یہ کہ سب بدعات مخترعات ناپسندیدہ شرعیہ ہیں۔ (سید محمد نزیر حسین۔ حسبنا اللہ حفیظ اللہ۔ محمد م حممود دیوبندی۔ محمد یعقوب مدرس اول دیوبند وغیرہم ۔ فتاوی نزیرییہ ج1 ص 124)
عقد مجالس الميلاد الشافعة في هذا الزمان بدعة لا مرية في كونها بدعة لان عقدها امر محدث وكل محدثة بدعة فعقدها بدعة الخ
(کتبہ عبد الرحمٰن المبارکفوری 0فتاویٰ نزیریہ ج 1 ص 107) قاضی شہاب الدین دولت آبادی تحفۃ القضاۃ میں لکھتے ہیں۔ کہ جاہل لوگ سالانہ ربیع الاول میں جو مجالس میلاد مروجہ کے نام سے کرتے ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اور زکر ولادت کے وقت جو قیام کرتے ہیں اور گمان کرتے ہیں۔ کہ آپﷺ کی روح مبارک وہاں حاضر ہوتی ہے۔ ان کا گمان باطل ہے بلکہ ایسا عقیدہ شرک ہے۔ اور آئمہ اربعہ نے ایسے عقیدوں اور کاموں سے منع فرمایا ہے۔ (فتاویٰ نزیریہ جلد اول ص150) قیام و ہاتھ باندھنا بوقت زکر ولادت بدعت و ناجائز ہے۔ کسی دلیل شرعی سے اس کا ثبوت نہیں ہے۔ اور مولود غزلیات جو آجکل چھپ کر شائع ہیں۔ وہ ناجائز مضامین اور روایات موضوعات و مفتریات سے مملو ہیں ان کا پڑھنا اور سننا بلاشبہ ممنوع و ناجائز ہے (ملخص) حررہ محمد عبد الحق ۔ ملتانی عفی عنہ۔ (فتاویٰ نزیریہ جلد اول ص115)
اسلام کے محققین علماء جیسے علامہ حافظ جلال الدین سیوطیؒ و حافظ ابن کثیر ابن جوزی وغیرہم کی تالیفات کے مطالعہ کرنے سے اس کی پوری پوری تحقیق ہوجاتی ہے۔ کہ مجلس مولد النبی ﷺ کا موجد اور مخترع ایک مسرف بادشاہ تھا۔ جس نے سب سے پہلے اس بدعت کے رچانے کا اقدام کیا۔ چنانچہ حافظ جلال الدین سیوطی اپنے رسالہ احسن المقصد فی عمل المولد میں ارقام فرماتے ہیں۔ واول من احدث ذلك ابن المظفر ابو سعيد ابن ذين العابدين بن علي یعنی سب سے پہلے جس شخص نے مجلس مولود ایجاد کی ہے۔ وہ ابو سعید زین الدین ہے اسی طرح سے حافظ ابن کثیر و ابن جوزی نے اپنی تواریخ میں لکھا ہے۔ اور اسی طرح ابن خلکان اپنی مشہور کتاب وفیات الاعیان میں سب سے زیادہ اس کی تفصیل بیا ن کرتے ہیں۔ اور اس کا موجد مظفر الدین صاحب اربل کو بتلاتے ہیں۔ اور یہاں تک لکھتے ہیں۔ کہ سلطان موصوف کی قائم کردہ محفل مولد النبی ﷺ کو سن کر لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ اور اس کے اس حسن عقیدت کو دیکھ کر ہر سال جمع ہوتے ہیں۔ اورمحرم الحرام سے لے کر ربیع الاول کے پہلے ہفتے تک برابر آتے رہتے ہیں۔ اورسلطان موصوف ان لوگوں کے لئے لکڑی کے چار چار پانچ پانچ منزل کے عارضی مکان بنواتا ہے۔ اور صفر کے پہلے ہفتے سے ان مکانات کی زبیائش اور آرائش شروع ہوجاتی ہے۔ ہر مکان میں ایک گروہ گانے والوں کا ایک گروہ اصحاب خیال کا اور ایک گروہ باجے وغیرہ کا بجانے والے کا ہوتا۔ اور کوئی منزل ایسی باقی نہ رہتی۔ جس میں ان گروہوں میں سےایک گروہ نہ ہوتا۔ ان دنوں میں لوگوں کے کاروبار خوب ہوجاتے ۔ اور ان کا اس کے سوا اور شغل نہ ہوتا کے ان گانے بجانے والوں کا تماشہ دیکھتے پھرتے۔ اور ابن جوزی نے اپنی کتاب مراۃ الزمان میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ويعمل للصوفية سماعا من الظهر الي العصر ويرقص بنفسه معهم صوفیوں کے لئے ظہر سےعصر تک مجلس سماع ـ(راگ) معتقد کراتا۔ اور خود شاہ اربل بھی ان لوگوں ک ے ساتھ ناچتا۔ ـ(دیکھو فتاویٰ میلاد ص10)
حضرات ! اس مختصر تحریر اور کیفیت کے بعد آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ کے مجلس میلاد کی تاریخی حیثیت کیا ہے۔ یہ مجلس محض خوشنودی طبع اور ہوا پرستی کےلئے قائم کئ گئی تھی۔ نہ اس کا ثبوت صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں نہ آئمہ دین کے وقت پایا جاتا ہے۔ بلکہ یہ محض رسمی تقریب تھی جس کو آج تک منایا جاتا ہے۔ (ملخص)(اہل حدیث جون 1933ء)
امرتسر کے حنفی اخبار''الفقیہ '' نے ایک رسالہ میلاد نمبر نکالا ہے۔ جو بغرض ریویو ہمیں بھیجا ہے۔ اس کی نسبت ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کے لکھنے والے مولوی محمد عالم صاحب آسی مدرس مدرسہ اسلامیہ امرتسر ہیں۔ ہم نے رسالہ مذکور کو بغور دیکھا اس لئے ہم عجیب مخمصے میں ہیں ایک طرف ہم مولوی صاحب کی علمی قابلیت کو زہن میں رکھتے ہیں۔ دوسری طرف رسالہ مذکور کو سامنے رکھتے ہیں۔ تو ہماری حیرت کی حد نہیں رہتی۔ ہم سوچتے ہیں کہ مولوی صاحب کی علم و فضل سے انکار کریں۔ یا اس رسالہ کی نسبت کو غلط قرار دیں۔ یعنی یہ کہیں کے مولوی صاحب اپنا پڑھا پڑھایا بھول گئے یا رسالہ کو ان کی تصنیف بتانے میں غلطی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک دوسری صورت آسان تر ہے۔ کیونکہ رسالہ مذکور کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ لکھنے والے کو علم مناظرہ کی ترتیب طبعی سے بھی اطلاع نہیں۔ اس لئے مناظرہ میں مستدل کا فرض ہے۔ کہ سب سے پہلے اپنے وعدے کی تعین کرے۔ پھر جو حصہ اس کا نظری ہو اس پر دلیل لائے۔ رسالہ مناظرہ کو ہم اس طریق سے خالی پاتے ہیں۔ نہ اس میں دعوے کی تعین ہے۔ نہ اس کے نظری حصہ پر دلیل ہے۔ بلکہ ابتداء ہی سے مضمون ایسا لکھنا شروع کیا ہے۔ کہ اگر اس سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو ان کے دعوے کی تردید ہوتی ہے مثلاً گروہ اہل توحید(اہل حدیث ہوں یا حنفی دیوبندی۔ )کا دعویٰ ہے کہ آجکل کی مجالس مولود جس میں زکر ولادت آپ ﷺ ہوتا ہے۔ او ر بروقت زکر ولادت سب لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور یہ شعر پڑھتے ہیں۔
اٹھو مومنو !بہر تعظیم سب تولد ہوئے آج شاہ عرب
یہ شعر بھی پڑھا جاتا ہے۔
ندا از حاملان عرش آمد کہ برخیز داز پے تعظیم احمد ﷺ
اس فعل کے فاعلین اس مجموعی کلام کو شرعی مستحسن اور کار ثواب جانتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
أَم لَهُم شُرَكـٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ ۚ ...... ﴿٢١﴾(پارہ 25 ع 4)
’’ یعنی کیا ان مشرکوں کے کچھ شریک ہیں۔ جنھوں نے ایسے کام ان کےلئے موجب ثواب بنادیئے ہیں۔ جن کی خدا نے اجاز ت نہیں دی۔ ‘‘
اس آیت کے ماتحت اہل توحید کا عقیدہ ہے۔ کے ہر اس کام کےلئے جس کو کار ثواب سمجھا جائے شرعی دلیل سے ثبوت ہونا ضروری ہے۔ اس لئے جو کام ایسا ہو کہ قرآن میں یا حدیث میں اصلا یا فرعا اس پر ثواب کا وعدہ نہیں آیا۔ اس کو کار ثواب جان ک کرنا بدعت ہے۔ یہی ایک اصول ہے۔ جس کے ماتحت سنت اور بدعت میں تمیز کرسکتے ہیں۔ فاضل مصنف شروع سے لکھتے ہیں۔
''اس میں شک نہیں کہ مجلاس میلاد جو موجودہ وقت میں پیش کی جاتی ہیں۔ یا جس طرز پر آجکل جریدہ ایمان پیش کر رہاہے۔ نہ عہد رسالت میں موجود تھیں۔ اور نہ عہد صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اور نہ ہی بعد میں کئی صدیوں تک اس کا نشان نظر آتا ہے۔ کیونکہ عہد رسالت میں بھی حضور ﷺ دنیا میں تشریف رکھتے تھے۔ اس لئے میلاد معہ وفات کا زکر ہوتا تو کیسے ہوسکتاتھا۔ اور عہد صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین میں ہی اتنی فرصت ہی کہاں ملی تھی۔ کہ اس قسم ک شان وشوکت ظاہر کرنے کے لیے مسلمان اپنے آپ کو پیش کرتے۔ علاوہ بریں اس وقت ابھی تمدن سادہ تھا۔ اور ضروریات اسلام کی تکمیل زیادہ مصروفیت رکھتی تھی۔ کبھی جمع قرآن کا سلسلہ جنبانی تھا۔ کبھی نماز تراویح کا سوال پیش تھا۔ اور کبھی آذان جمعہ پر حیص بیص ہوتی تھی۔ اس طرح متعلقہ ثلاثہ کا تنازعہ یا وراثت کے پیچیدہ مسائل حکومت اسلام کی توجہ اپنی طرف منعطف کئے ہوئے تھے اس کے علاوہ انتخاب خلیفہ کی معرکۃ الاراء لڑایئاں اور مجبر العقول تنازعات اس طرح پر تو افگن تھے۔ کہ مجالس میلاد جیسے مستحسنات کی طرف ممکن نہ تھا۔ کہ زرہ بھر بھی نظر ڈالی جاتی۔ اس کے بعد جب عہد امامت آیا تو اس وقت مجالس میلاد سے بڑھ کر دوسری اور اسلامی ضرورتیں رو نما ہوگئیں۔ کے جن کے سر انجام دینے میں مسلمان شب وروز پیم کوشش سے بھی بمشکل عہدہ برآ نہ ہوسکے۔ کیونکہ اسلام میں رخنہ اندازی شروع ہوگئی تھی۔ عہد رسالت کے ستارے غروب ہو رہے تھے علوم جدیدہ اور اقوام عجمیہ کی دخل دہی نے اسلامی دنیا میں ایک بہت برا انقلاب برپا کردیا تھا۔ اب اگر مجالس میلاد وغیرہ مستحسنات کی طر ف مسلمان توجہ کرتے ہیں تو جمع احادیث تدوین۔ مسائل اور جمع روایات کا سلسلہ کیسے چل سکتا تھا۔ اور کیسے آج مسلمان اپنی مذہبی روایات سے روشناس حاصل کرسکتے تھے۔ رفتہ رفتہ جب اسلامی تبلیغ کا انتظام دلخواہ طریق پر ہوگیا۔ اور بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تحریکات کا پر آشوب فتنہ فرو ہوگیا۔ تو سب سے پہلے تصنیف و تالیف اور نشرواشاعت علوم و فنون جدیدہ کی طرف مسلمانوں نے اپنی توجہات منعطف کیں۔ ابھی یہ قصہ ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ مذہبی اختلافات اور مذاہب جدیدہ اور حکمت و فلسفہ و یونان سے مقابلہ کرنے میں مسلمانوں کو زکر و شغل اور عزلت و تحنث کی فرصت نہ ملی۔ تاکہ مجالس میلاد کی نشرواشاعت میں اپنا وقت صرف کر سکیں۔ تاریخی نقطعہ نگاہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ماننا پڑتا ہے کہ مجالس میلاد یا مجالس زکر وشغل کی طرف مسلمانوں کو توجہ اس وقت ہوئی جب کہ ضروریات اسلام سے فراغت پاکر مسلمان اپنی حکومت اور اسلامی ترقیات سے بہرہ ہوکر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ اور غیر اقوام کے میل جول نے ان کو اس امر کی طرف مجبور کیا کہ جس طرح وہ لوگ اپنے اسلاف کی یادگاریں قائم کرتے تھے۔ وہ دوش بدوش مسلمان بھی اسلامی شان وشوکت ظاہر کرنے کےلئے مجبور ہوگئے کہ وہ بھی ایام اللہ کے منانے کی کوشش کریں۔ علاوہ اس کے ساتویں ہجری میں جب تاتاری قوم کی ظالمانہ حکومت سے مسلمانوں کی حکو مت اور اسلامی خلافت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اور لوگ اپنی جان بچانے کی خاطر کچھ تو ہندوستان یاافٖغانستان وغیرہ پر امن ممالک میں پنا ہ گزیں ہوئے۔ اور کچھ عزلت نشین ہوکر دنیا سے بے تعلق ہوکر خانقاہوں اور مساجد یا عبادت خانوں میں یکسوئی حاصل کر کے سیاسیات سے ایسے روکش ہوگئے۔ کہ شب وروز زکر وشغل اور ورد وظائف یا تلقین وار شاد میں ہمہ تن مصروف ہوکر اپنی حیات مستعار کے دن پورے کرنے لگے۔ کیونکہ ساتویں صدی اور اس کا پس و پیش زمانہ کچھ ایسا تھا۔ کے غیر جانبدار طبائع کے لئے سوائے اس وقت زہد وتقویٰ اور گوشہ نشینی کے کوئی چارہ نہ تھا۔ (ص 2۔ 3)
ہم مصنف ممدوح کے شکر گزار ہیں۔ کہ ہمارے دعوے کا ثبوت انھوں نے خود پیش کردیا۔ کس بلاغت اور لطافت سے مروجہ مجالس مولود کی بیخ کنی کی ہے۔ کہ زبان اور قلم سے بے ساختہ نکلتا ہے۔ مرحبا۔ جزاک اللہ
ایں کار از تو آمد ومرداں چنیں کنند
زمانہ رسالت میں مجلس میلاد کی ضرورت نہ ہوئی۔ کہ اس وقت حضور زندہ سلامت تھے۔ جب کہ چھوٹے چھوٹے نیک کام بھی سکھائے جاتے۔ اور کرائے جاتے تھے۔ تو مجلس مولود جیسا نیک کام کیوں چھوٹا رہا۔ جہاں سال بھر میں دو عیدیں ہوتی تھیں۔ تیسری عید میلاد بھی ایک ہوجاتی تو کیا حرج تھا۔ بہر حال ہم آپ میں اختلاف نہیں رہا۔ کہ زمانہ رسالت میں یہ کام نہیں ہوتا تھا۔ اس سے لطیف تر یہ فقرہ ہے۔ ''عہد صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین میں اتنی فرصت کہاں تھی''
اللہ کے فضل سے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے کوئی چھوٹے سے چھوٹا نیک کام نہیں چھوڑا۔ کیا عہد صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں کار خیر کرنے کی فرصت نہ تھی۔
اللہ اکبر!جس زمانہ کو کل اہل سنت اسلام کا مکمل نمونہ اور خیر وبرکت کا زمانہ جانتے ہیں۔ اس کی بابت یہ بدگمانی ہو کہ ان کو ایک بہت ضروری اور بڑے کام کی فرصت نہ ہوتی تھی۔ بہر حال اس میں بھی ہمارا آپ کا اتفاق ہے۔ کہ زمانہ خلافت میں بھی مجلس مولود نہ ہوتی تھی۔ فالحمد للہ
(شائد مراد زمانہ آئمہ اربعہ ہے۔ )ا س زمانے میں بھی یہ کام نہ ہوتاتھا۔ کیونکہ اس میں اہم کاموں پ توجہ تھی۔ عجیب بات ہے ہر جمعے کو تعطیل مناہئں۔ سال میں دو عیدیں کریں۔ ہر ہفتے جمعے کا اہتمام کریں۔ نماز جمعہ پڑھایئں۔ مگر سال میں ایک گھنٹہ مجلس میلاد کرنے کی فرصت نہ ہو۔ بہر حال ہمارا آپ کا اس میں اتفاق ہوا کہ زمانہ امامت میں بھی مروجہ طریق نہ تھا۔ آخر بات نکلی تو یہ کہ
''جس طرح کفار اپنے اسلاف کی یادگاریں قائم کرتے تھے۔ مسلمان بھی ایسا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ''
پس مطلع صاف ہے۔ مرکز بحث یہ ہوا کہ کفار کا فعل بھی ادلہ شرعیہ میں ہے یا نہیں۔ جہاں تک علم اصول کی شہادت ہے۔ دلائل شرعیہ چار ہیں۔ قرآن وحدیث ۔ اجمعاع ۔ او ر قیاس۔ آج سننے میں آیا ہے کہ پانچواں اصل ''فعل کفار '' بھی ہے۔ جو لوگ کفار کے فعل کو شرعی امر کے لئے مقیس علیہ بنایئں ان کے حق میں یہ شعر موزوں ہے۔
میرے پہلو سے گیا پالا ستم گر سے پڑا مل گئی اے دل تجھے کفران نعمت کی سزا
اس تقریب میں فاضل مصنف نے مانعین میلاد کو یہ طعنہ دیا ہے۔
''جو وہابی آج میلاد کی مجلس کو بدعت سمجھے ہوئے ہیں۔ وہ ماتھے پر سیندور لگا کر ہندوں کو خوش کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں۔ (ص 5)
ہمیں ایسے وہابی نہیں ملے جو سیندور لگاتے ہوں۔ واللہ اگر ملیں تو ہم ہاتھوں سے ان کا سیندور اتاردیں۔ ہوسکے تو دو طماچے ان کے منہ پر رسید کریں۔ مگر مصنف صاحب یہ تو بتادیں کہ جو لوگ محبت رسول میں میلاد کرنا ثواب جانتے ہیں۔ وہ قبروں پر اور پیروں کے پروں پ سجدے کیوں کرتے ہیں۔ وہ کیا ان کے فعل کا زمہ دا ر بھی کوئی ہے۔ مولانا! ایں گنا ہیت کہ در شہر شما نیز کنند
سب سے بڑا شبہ کے یہ کتاب مولوی محمد عالم صاحب مدرس اسلامیہ اسکول کی تصنیف نہیں ہے۔ یہ سرخی ہے کیونکہ اس سرخی کے نیچے یوں تو بہت لمبی چوڑی تقریر کی گئی ہے۔ مگر اصل بات ناخنوں سے چھیلنے سے بھی نہیں ملتی۔ ناظرین اس سرخی(بدعت کیا چیز ہے؟)کو اپنے سامنے رکھیں اور اس کے ماتحت عبارت بغور پڑھیں ۔ قابل مصننف لکھتے ہیں۔
''قرآن مجید موجودہ ترتیب کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سعی طبیغ کا نتیجہ ہے۔ سنت تراویح کی باقاعدہ جماعت حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوشش ہے۔ ترتیب ابواب کے ساتھ مسائل فقہ کو جمع کرنے کا سہرا حضرت امام اعظم کے سر لہلا رہا ہے۔ تدوین احادیث نبویہ ﷺ تابعین اور تبع تابعین کے لئے اللہ تعالیٰ نے مخصوص کر رکھا تھا۔ علی ھذا القیاس مسجد نبوی عہد رسالت ﷺ میں سادہ چھپر کی بنی ہوئی تھی عہد ہ خلافت راشدہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں اس میں ترمیمات کے ساتھ اضافے کئے گئے اس کے بعد عہد سلاطین اسلامیہ میں اس میں اسی شان وشوکت کی زینت کی شان دکھلائی گئی کہ آج اسلامی دنیا میں اس سے بہتر اور قیمتی پتھروں کی بنی ہوئی او مسجد صفاء دنیا میں نہیں ہے۔ اس طرح قرآ ن شریف پر حرکات و سکنات اوقاف اور رکوعات کی محنت خلفاء بنی امیہ کے عہد میں ٹھکانے لگی اس کے بعد مفسرین نے اپنے اپنے عہد تالیف میں قرآن وحدیث کے دو سمندروں کو ملا کر مجمع البحرین بنا دیا اور وہ تفاسیر لکھیں کہ قران وحدیث کے تطابق کی زحمت امت محمدیہ ﷺ سے اٹھادی۔ اس ک بعد جب اور بھی سہولت کو مد نظر رکھا گیا۔ تو سب سے پہلے شاہ ولی اللہ صاحب مرحوم نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا جس کی پاداش میں آپ کو حرمین شریفین میں سر چھپانا پڑا۔ بعد میں جب لوگوں نے اس بدعت کو مفید سمجھا تو خود تراجم میں شروع ہوگئے۔ چنانچہ آج یہ بدعت یہاں تک پھیل گئی ہے۔ اور اس قدر زور پکڑ گئی ہے کہ ہندوستان کے وہابی عموما اور بعض حضرات معتزلہ خصوصا اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نماز جمعہ کا خطبہ بھی غیر عربی میں ہونا چاہیے۔ معلوم نہیں کہ چند سالوں بعد اسی جماعت وہابییہ کے جانشین انہی حدود کے اندر پابند رہیں گے۔ یا ساری عبادات اور ادعیہ کو بھی غیر عربی میں رائج کردیں گے۔ بہت ممکن ہے۔ کے انقلاب ترقی سے متاثر ہوکر اب ہی سے غیر عربی میں نماز کی اشاعت کر دیں گے۔ ص3۔ 4۔ )
مصنف کی علمی قابلیت سے ہمیں توقع تھی کہ بطریق محصلین بدعت کی جامع او ر مانع تعریف کریں گے۔ پھر اس پر آثار مرتب فرمایئں گے لیکن افسوس کہ
خود غلط بود آنچہ ما پندا شیتم
بحث کو جتنا لمبا کریں کر سکتے ہیں۔ مگربات صرف اتنی ہے کہ اہل توحید کے دو فقرے ہیں۔ جن پر سارا مدار ہے۔
1۔ مجلس میلاد زمانہ رسالت و خلافت میں نہ تھی۔ 2۔ جو کام ان زمانوں میں نہ ہو وہ دینی کام نہیں۔ نتیجہ یہ کہ مجلس میلاد دینی کام نہیں۔ شکر ہے کہ ہمارے مخاطب کو پہلا فقرہ جو زیادہ بحث طلب ہے مسلم ہے۔ ملاحظہ ہو ان کی منقولہ عبارت (از ص2۔ 3 الفقیہ مذکور) دوسرا فقرہ تو ہر ایک مسلم کو مسلم ہے۔ یہی معنی ہیں اس حدیث کے
من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد (مشکواۃ)’’جو کوئی ہمارے دین میں نئی بات پیدا کرے۔ وہ مردود ہے۔‘‘
مپندار سعدی کہ راہ صفا تواں رفت جز درپے مصفطے ٰ
(اہل حدیث 5 اگست 1932ء)
اہل حدیث پانچ اگست میں ہم نے الفقیہ کے ایک رسالہ کے جواب میں مختصر سا مضمون دوبارہ مولود لکھا تھا ہماری نیت میں تھا کہ آئندہ ربیع الاول میں اس کا جواب مفصل دیں گے۔ ان شاء اللہ
اس کے بعد ''الفقیہ''مورخہ 4 اگست میں ایک مضمون نکلا ہے۔ جسے ہم پہلے کی طرح فیصلہ کن جانتے ہیں۔ قابل مجیب نے اپنے ناظرین کو اہل حدیث سے نفرت دلانے کا کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا مثلا لکھتا ہے۔
'''آئے دن وہابیوں کی طرف سے تکفیر و توہین کی تحریرات شائع ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی فروعات پر خامہ فرسائی کر کے مشین تکفیر و تلعین سے گولہ باری کی جاتی ہے۔ (الفقیہ 14 اگست 32ء ص 2)
حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ انہی لوگوں کی طرف سے ہو رہا ہے۔ جن کا فتویٰ ہے کہ افراد اہل حدیث کے پیچھے اقتداء جائز نہیں۔ کیوں مومن صالح ہیں؟نہیں مومن ہونا تو وجہ عدم جواز کی نہیں۔ اچھا بدعتی ہیں؟بدعتی کے پیچھے بھی نماز جائز ہے خاص کر امام ابو حنیفہ کے نزدیک جن کا فتویٰ اس حدیث کے ماتحت ہے۔
صلو خلف كل بروفاجر (شرح فقہ اکبر) (ہرایک نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھاکرو)پھر کیوں جائز نہیں؟اس کے سوا کیا ہے کہ ان مفتیان کے نزدیک وہ کافر ہیں۔ برخلاف اس کے اہل حدیث ابتدائے حنفیہ کے پیچھے اقتداء جائز کہتے اور کرتے آئے ہیں۔ پھر بتائو تکفیر کس نے کی؟5 اگست کے ''اہل حدیث''رسالہ میں ہم نے لکھا تھا کہ مصنف رسالہ خود لکھتے ہیں کہ'مولود کی رسم نہ زمانہ رسالت میں تھی نہ زمانہ خلافت میں تھی نہ زمانہ امامت میں''تو پھر اس کے بدعت ہونے میں کیا شبہ؟اس کا جواب مجیب نے جو دیا ہے۔ اس کو بھی ہم فیصلہ کن جان کر ناضرین تک پہنچاتے ہیں۔
جس امر کی اجمالی تصویر بھی خیر قرون میں نہ ملے وہ بدعت ہے۔ (ص 4 کالم 1)ہم اس تعریف کو صحیح مان کر فاضل مجیب کو مجمل کی تعریف پر توجہ دلاتے ہیں جو یہ ہے۔
المجمل ما اذد جمت فيه المعاني واشتبه المرادية اشتباها لا يد رك بنفس العبادة بل با لرجوع الي الاستفسار ثم الطلب ثم التامل (نور الانوار ص19)
یعنی مجمل وہ ہوتا ہے جس کے معنی کثیرہ جمع ہوں۔ اند مراد مشتبہ ایسی رہ جائئے کہ استفسار راز متکلم پھر طلب پھر تامل کے بغیر سمجھ میں نہ آئے۔ ''اس تعریف کے بعد آپ مولود کو مجمل صورت قرون ثلاثہ (زمانہ رسالت و زمانہ امامت) میں دکھا دیں۔
واضح رہے کہ مولود متنازعہ یہ ہے۔ ''مجلس میں قرآن خوانی ۔ نعت خوانی۔ ذکر ولادت۔ ذات رسالت۔ اس میں جز اعظم۔ زکر ولادت کے وقت بہ نیت تشریف آوری اور آپ ﷺ قیام کرنا۔ اور دست بدستہ سلام و صلواۃ بایں الفاظ پڑھنا۔ الصلواة والسلام عليك يا رسول الله
اس مفصل کا مجمل پتہ قرون ثلاثہ میں دکھا دیں۔ تو ہم مجیب صاحب کے مشکور ہوں گے۔ مگر یاد رہے کہ مجمل اس طرح کا ہو جو علماء اصول نے بتایا ہے۔ جن کی عبارت ہم نے اوپر نقل کی ہے۔
مجیب موصوف نے بڑے دعوے سے لکھا ہے۔ کہ مولود کرنا اگر شرک ہے تو کیا فلاں بزرگ مشرک تھے۔ مثلا علامہ سیوطی۔ شیخ عبد الحق۔ مولانا عبد الحئی وغیرہ۔
ہم اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ مولانا اہل علم کا اصول ہے۔
ثبت العرش ثم النقش (پہلے تخت بنائو پھر رنگ کرو) پہلے آپ ان بزرگوں کی تحریرات سے مروجہ مولود کا ثبوت تو دکھائیں پھر فتویٰ بھی پوچھیں۔ سنیے! ہم بطور معاوضہ آپ کے گواہوں میں سے ایک زبردست گواہ مولانا عبد الحئی لکھنوی۔ مرحوم کو پیش کرتے ہیں۔ پس آپ انصاف سے سنیے۔ اور داد انصاف دیجئے مولانا موصوف فرماتے ہیں۔
''قیام کرنا جو وقت زکر ولادت کے کرتے ہیں میرے نزدیک یہ بے اصل ہے۔ اور ادلہ شرعیہ سے ثابت نہیں۔ (فتاویٰ لکھنوی۔ جلد اول ص 329 یا چہارم 1314 ہجری)مروجہ مولود سے قیام اگر الگ کردیا جائے تو باقی جسد بلا روح(مردہ) رہ جائے گا۔ اور اگر قیام کو شامل کیا جائے۔ محض قیام کی نظر سے تو حسب فتویٰ مولانا مرحوم بے ثبوت ہونے سے مجمعوعہ مولود بدعت ہے۔ اور اگر بہ نیت حاضر و ناضر کیا جائے۔ تو چونکہ ہر جگہ حاضر وناظر ہونا خدا کی صفت ہے۔ لہذا شرک ہے۔ یہ ہے تفصیل ہمارے اور جملہ اہل حق کے مذہب کی اب آپ کو اختیار ہے جو چاہے صورت اختیار کریں۔ مختصر یہ کہ حسب قاعدہ مناظرہ پہلے مولود کی حقیقت متضمن اجزاء بیان کریں۔ پھر اس کا حکم بتادیں۔ پھر زمانہ خیر میں اس کی مجمل صورت دکھادیں۔ اگر ایسا نہ کریں گے۔ اور محض غصہ اور رنج کا اظہار کر کے اپنے ناظرین کو بھڑکایئں گے تو لا چار ہم یہ کہنے پر مجبور ہوں گے۔ (2 ستمبر 1932ء)
مدعی چوں رگ گردن بفراز دبجدل نیم تصدیق بیانش نہ و تحسینیش کن
مندرجہ بالا عنوان پر ایک مضمون معاصر الفرقان بریلی بابت ماہ ربیع الاخر 1357ھ میں مولوی حبیب احمد صاحب کیرانوی کی طرف سے شائع ہوا ہے۔ چونکہ یہ ایک علمی اور تحقیقی مضمون ہے۔ اور ایک حنفی المذہب کا مرقومہ ہے۔ اس لئے ہم ناضرین اہل حدیث تک اسے پہنچاتے ہیں۔ تاکہ مدعیان حنفیت بھی اس سے خاص کر مستفیض ہوں (مدیر)
اخبار ''الامان'' دہلی کے میلاد نمبر میں ایک مضمون مجالس نبویہ کے انعقاد پر ''محققانہ بحث'' کے عنوان سےشائع ہوا ہے۔ جس میں صرف ذاتی تحقیق پر ہی انحصار نہیں کیا گیا بلکہ مخالفین پر طعن بھی موجود ہے۔ لہذا ہم چاہتے ہیں کہ اس تحقیق کی حقیقت ظاہر کردیں۔ تاکہ فاضل محقق اپنی تحقیق کی غلطی پر متبہ ہوکر حق کی طرف رجوع کریں۔ پس ہم کہتے ہیں کہ
الف۔ اس امر پر دونوں متفق ہیں۔ کہ ان کے میلادی محافل کا وجود نہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں تھا اور نہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں تھا۔ اور نہ تابعین کے زمانے میں اور نہ تبع تابعین کے زمانہ میں جن کی خیر یت کی شہادت رسول اللہﷺ نے دی ہے۔ یہ صرف شرالقرآن کی ایجاد ہے۔ جب کہ زمانہ اجتہاد ختم ہوچکا تھا۔ اور کوئی مجتہد باقی نہ رہا تھا۔ صرف مقلد ہی مقلد باقی رہ گئے تھے۔ جن کو اجتہاد کا حق نہ تھا۔ بلکہ ان کا کام صرف مجتہدین کی تقلید تھا۔
ب۔ یہ حقیقت بھی فریقین کے نزدیک مسلم ہے۔ کے ان مجالس کا موجد کوئی دین دار عالم نہ تھا۔ جس نے آیات وحدیث کے تابع ہوکر ان کا احداث کیا ہو۔ بلکہ وہ ایک دنیا دار بادشاہ تھا۔ جس کو قرآن وحدیث سے کوئی واقفیت نہ تھی۔ اور نہ اس کو ان مسائل کا استنباط کا حق تھا۔
ج۔ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے۔ کے ہر زمانہ میں علماء دو قسم کے ہوئے ہیں۔ ایک دنیا دار دوسرے دین دار دنیا دار دین کو دنیا کی عوض بیچ دیتے ہیں۔ لیکن دیندار ایسا نہیں کرتے۔
د۔ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے۔ کہ اختلاف افہام مجتہدین میں بھی ہوتا ہے۔ اور غیر مجتہدین میں بھی اور بعض لوگوں کو نظر سطحی ہوتی ہے۔ اور بعض کی نہایت گہری گہری نظر اور دقیق فہم والے افراد کم ہوتے ہیں۔ اور سطحی نظر والے افراد زیادہ۔ چنانچہ خدا نے امام ابو حنیفہ کو جو نظر دقیق عطا فرمائی تھی۔ وہ دوسرے مجتہدین کے لئے بھی حاصل نہ تھی۔ اس وجہ سے انہوں نے ان کو صائب رائے کا لقب دیا۔ پس جبکہ مجتہدین میں یہ اختلاف افہام موجود ہے تو غیر مجتہدین میں یہ اختلاف بالاولی ہوگا۔
ہ۔ یہ حقیقت بھی فریقین کے نزدیک مسلم ہے کہ صرف مقلدین کا اجماع بھی حجت نہیں چہ جائکہ کثرت۔
و۔ یہ حقیقت بھی متفق علیہ ہے۔ کہ اس مسئلہ میں ابتداء ہی سے اختلاف موجود ہے۔ چنانچہ علامہ تاج الدین فاکہانی۔ ابن الحاج مالکی۔ مولانا عبد الرحمٰن معتزلی۔ حنفی۔ مولانا نصیر الدین شافعی۔ مولانا اشرف الدین حنبلی۔ مولانا قاضی شہاب الدین۔ دولت آبادی وغیرہ مانع ہیں۔ اور دوسرے بعض حضرات مجوز
ز۔ یہ حقیقت بھی متفق علیہ ہے۔ کہ مقلد کو بلا ضرورت بلجیہ براہ راست دلائل شرعیہ سے استنباط مسائل کا حق نہیں۔ کیونکہ یہ کام صرف مجتہد کا ہے۔ اگ مقلد کو بھی یہ حق ہو تو وجوب تقلید کے کوئی معنی نہیں۔
جب کہ یہ تمام امور ہمارے اور ان کے درمیان متفق علیہ ہی۔ تو ان سے معاملہ کی حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ کہ جس بادشاہ نے ان محافل کو احداث کیا ہے۔ اس نے دلائل شرعیہ کی بنا پر اس کو ایجاد نہیں کیا۔ بلکہ اس نے اس مسئلہ میں عیسایئوں کے کرسمس ڈے کی نقل اتاری تھی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس نے کسی بری نیت سے ایسا کیا تھا۔ کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی نیت اچھی ہو۔ لیکن یہ ضرور نہیں کہ جس فعل کی نیت اچھی ہو۔ وہ فعل بھی اچھا ہو۔ چنانچہ قوم موسیٰ ؑ نے بت پرستوں کو بت پرستی کر کے دیکھ کر موسیٰ ؑ سے درخواست کی تھی۔ اجعل لنا الها كما لهم الهةاور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہﷺ سے درخواست کی تھی کہاجعل لنا ذات انواط كما لهم ذات انواط اور ظاہر ہے کہ اس بارہ میں اصحابرضوان اللہ عنہم اجمعین موسیٰؑ اور اصحاب محمد ﷺ کی نیتیں بری نہ تھیں۔ بلکہ صرف ناواقفی کی وجہ سے ایسی درخواست کی تھی۔ پاس اس بادشاہ نےبھی اپنی نواقفی کی وجہ سے حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کی خوشی عیسایئوں کو مناتے دیکھ کر خیال کیا کہ ہمارے نبیﷺ اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ کہ ہم ان کی ولادت کی خوشی منایئں۔ اس لئے اس نے یہ محٖفل ایجاد کی۔ اس پر بعض خام ذہنیت رکھنے والے علماء نے باداشاہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لئے قرآن وحدیث کی ورق گردانی کی۔ اور جس قدر ان کو اس بدعت کی تایئد میں دلائل مل سکے۔ انہوں نے ان کو جمع کردیا۔ ان دلائل کو دیکھ کر دین دار علماء میں دو فریق ہوگئے۔ ایک وہ جو اہل بصیرت تھے۔ دوسرے وہ وسطحی نظر کے لوگ تھے۔ اہل بصیرتگ نے ان دلائل کی کمزوری کو محسوس کرلیا اور اس سے اختلاف ہوگیا۔ اور اس کے بدعت ہونے کا حکم لگایا۔ سطحی نظر والوں نے اس کو صحیح سمجھ کر ان کے ساتھ موافقت کی اور اسکو بدعت حسنہ قرار دیا۔ اب محقق کا کام یہ ہے کہ فریقین کے دلائل کو پیش نظر رکھ کر انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے۔
1۔ مانعین کی دلیل یہ ہے کہ قرآن رسول اللہﷺ پر نازل ہوا۔ حدیث خود رسول اللہﷺ کے قول و فعل و تقریر کا نام ہے۔ اگر مجوزین کے وہ دلائل صحیح ہیں۔ جن کو قرآن وحدیث سے پیش کرتے ہیں۔ توخود رسول اللہﷺ نے ان دلائل سے ان مجالس کا استحسان کیوں نہ سمجھا۔ اور نبوت کے تئیس برس کے عرصہ میں تیئس دفعہ بارہ ربیع الاول کا دن آیا۔ اور کرسمس ڈے کی نظیر بھی آپ کے سانے موجود تھی۔ مگر باوجود اس کے کہ ایک مرتبہ بھی آپ نے اس کرسمس ڈے کی نقل کا استحسان نہ نہ قولا بیان فرمایا نہ فعلاً اس کے تیس برس تک خلافت راشدہ کا زمانہ رہا۔ اس زمانے میں بھی مسلمانوں کے سامنے یہ دلائل موجود تھے مگر ان کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ اس عیسایوں کی نقل کا استحسان قرآن وحدیث سےاستنباط کرتے۔ اس کے بعد چار سو برس تک مجتہدین کا زمانہ رہا۔ اور اس عرصے میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مجتہدین گزرے۔ اور انھوں نے قرآن وحدیث سے مسائل استنباط کےلئے انتہائی قوت صرف کی ۔ مگر باوجود اس کے اس بدعت کا استحسان بھی ان کو نظر نہ آیا۔ اب جب جکہ زمانہ علم ختم ہوگیا۔ اورزمانہ جہل شروع ہوا۔ تو اس زمانہ جہل میں بھی دو سو برس تک اس بدعت کا استحسان کسی کو نظر میں نہ آیا۔ بلکہ اس کا استحسان ایک ایسے شخص کو نظر آیا جس میں کوئی قابلیت نہ تھی اس غیر عالم شخص نے علماء کی رہمنائی کی اور اب ان کو بھی تمام قرآن وحدیث میں یہ بدعت نظر آنے لگی۔ اب ہم اگ علماء مجوزین کے دلائل کی صحت کو تسلیم کر لیں۔ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے لے کر اس بدعت کی ایجاد کے وقت تک تمام علماء امت صحابہ و تابعین و تبع تابعین اور دوسرے مجتہدین وغیر ہ۔ مجتہدین کو نعوذ باللہ ''جائل اور ''نافہم مان لیں۔ تاکہ اس کے مجوزین کے علمی پوزیشن محفوظ رہ سکے۔ سو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ کہ کوئی مسلمان اس کی جراءت کر سکے گا۔ بجز مجوزین اور ان کے دوسرے ہمنوائوں کے۔
2۔ تمام مقلدین کا اس پر اتفاق ہے۔ کہ دلائل شرعیہ سے براہ راست مسائل کا استنباط کا حق صرف مجتہدین کو ہے۔ اورغیر مجتہدین کو یہ حق نہیں بلکہ ان فرض صرف مجتہدین1۔ کا اتباع ہے۔ اور جب کہ یہ مسلم ہے تو اب کسی مدعی تقلید کو یہ حق نہیں کہ وہ تقلید آئمہ کوچھوڑ کر براہ راست دلائل شرعیہ سے اس مسئلے کو ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ اس کی انتہائی نا فہمی ہے۔ کیونکہ وہ اتنا بھی نہیں سمجھ سکتا کہ میرے قول اور فعل میں تناقض ہے۔ کیونکہ اس کے دعویٰ تقلید کے معنی یہ ہیں۔ کہ اس میں اجتہادی قابلیت نہیں ہے۔ اور اس بدعت کو دلائل سے ثابت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اس میں اجتہادی قابلیت ہے۔
3۔ ایسے لوگ تارکین تقلید سے زیادہ قابل الزام ہیں۔ کیونکہ ان کے اجتہاد کا حاصل تو صرف یہ ہے کہ وہ ایک مجتہد فیہ مسئلہ میں ایک مجتہد کے قول کو ترجیح دے لیتے ہیں۔ اور تمام مجتہدین کے خلاف کوئی بدعت ایجاد نہیں کرتے۔ بلکہ بدعت کونہایت برا جانتے ہیں۔ اور ان کے اجتہادی مسائل میں اگر ایک مجتہد ان کا تخطیہ کرتا ہے۔ تو درسرا مجتہد ان کی تصویب بھی کرتا ہے۔ اور یہ لوگ اجتہاد کرتے ہیں۔ اور پھر اپنے اجتہاد میں کسی مجتہد کی موافقت بھی نہیں کرتے۔ بلکہ سب سے الگ ایک مسلک اختیار کرتے ہیں۔ اسی لئے کسی مجتہد کی تایئد ان کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ لہذا یہ ان سے زیادہ قابل الزام ہیں۔ اور ان کا دعویٰ تقلید بھی سراسر جھوٹا ہے۔
4۔ مروجہ مروجہ حال''عید میلاد '' میں جو مفاسد پیشتر تھے۔ وہ بحالہا باقی ہیں۔ اور اس کے علاوہ ان میں دوسرے مفاسد کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے اب وہ علماء بھی اس کو جائز نہیں کہہ سکے جو قدیم میلاد کو جائز کہتے تھے۔ مثلا ً جلوس نکالنا جو کہ موجودہ یورپ کی تقلید ہے۔ جراغاں کرنا جو کہ دیوالی کی نقالی ہے۔ باجے گاجے جو کہ بالکل حرام ہیں۔ وغیرہ وغٖیرہ پس اس بارہ میں مجوزین کے قول سے بھی استدلال صحیح نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جس وقت انھوں نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ اس وقت وہ مفاسد اس میں موجود نہ تھے جوآج ہیں۔
5۔ ان افعال شنعیہ کے اثبات میں قرآن وحدیث میں تحریف کرنی پڑتی ہے۔ جس کا حاصل خدا اور رسول پر بہتان بابندھنا ہے۔ جو کہ انتہائی ظلم ہے۔ وَمَن أَظلَمُ مِمَّنِ افتَرىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَو كَذَّبَ..... ﴿٢١﴾
یہ وہ مظبوط دلائل ہیں۔ جن سے مانعین تمسک کرتے ہیں۔ ان کی حقیقت اگرچہ اجمالی طور پر سطور بالا میں معلوم ہوچکی ہے۔ لیکن ہم اوپر ان تفصیلات بھی گفتگو کرتے ہیں۔
وَإِذ أَخَذَ اللَّهُ ميثـٰقَ النَّبِيّـۧنَ لَما ءاتَيتُكُم مِن كِتـٰبٍ وَحِكمَةٍ ثُمَّ جاءَكُم رَسولٌ مُصَدِّقٌ لِما مَعَكُم لَتُؤمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ .... ﴿٨١﴾
سےا ن مجالس کے استحسان پر استدلال کیا ہے۔ حالانک یہ کلام الہٰہی کی صریح تحریف ہے۔ کیونکہ اس آیت میں ان مجالس کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں اس لئے کہ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ تمام انبیاء سے یہ عہد لیا گیا تھا۔ کہ اگر تمہارے پاس کوئی خدا کا رسول آئے۔ تو تم اس کی تصدیق و تایئد کرتی ہوگی اور ظاہرہے کہ اس مضمون کو جشن میلاد سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ فاضل محقق نے اس آیت کے زیل میں طبری سے حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے۔ جس کا مضمون یہ ہے کہ ۔
لم يبعث الله نبيا من ادم فمن دون الااخذ عليه العهد في محمد صلي الله عليه وسلم لئن بعث وهو حي ليومنن به ولنينصرنه
لیکن اول تو یہ ر وایت ہی ثابت نہیں۔ کیونکہ اس کا راوی سیف بن عمر و ضاح و کزاب اور مہتمم بالذندقہ ہے
قال الن حبان يروي الموضوعات عن الاثبات قال وقالو انه كان يضع الحديث اتهم بالزندقة وقال الحاكم اتهم بالزندقة وهو في الرواية ساقط وقال ابو حاتم متروك الحديث
اور بالفرض اگر ثابت ہو تو اس سے فقط اتنا ثابت ہوتا ہے۔ کہ تمام انبیاء سے اس کا عہد لیا گیا تھا کہ اگر محمد رسول اللہﷺ تمہارے زمانے میں رسول بنا کر بھیجے جاییں۔ تو ان پر ایمان لانا۔ اوران کی مدد کرنا لیکن اس مضمون کا بھی عید میلاد سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں اگر روایت میں یہ مضمون ہوتا۔ کہ اگر محمد رسول اللہﷺ تمہارے زمانے میں پیدا ہوں۔ تو تم ان کی پیدائش کی اسی طرح خوشی منانا جس طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کی مناتے ہیں۔ تو بے شک ان کا مدعا ثابت ہوجاتا۔ لیکن واقعہ یہ نہیں ہے تو پھر ان کا مدعا کیوں کر ثابت ہو۔
2۔ فاضل محقق نے حضرت عیسیٰ ؑ کے کے ااس قول سے بھی جشن میلاد نبوی پر استدلال کیا ہے۔وَسَلـٰمٌ عَلَيهِ يَومَ وُلِدَ وَيَومَ يَموتُ وَيَومَ يُبعَثُ حَيًّا ﴿١٥﴾ لیکن یہ بی سراسر غلط ہے۔ کیونکہ اول تو اس کی مروجہ جشن میلاد سے کوئی تعلق نہیں اور اگر ہو بھی تو اس سے کرسمس ڈے کا ثبوت ہوگا۔ نہ کہ عید میلاد النبی ﷺ کا۔ اس لئے ان کو چاہیے کہ عیسایئوں کے ساتھ ہوکر کرسمس دے منایا کریں۔ پھر اگر اس سے جشن میلاد کا ثبوت ہوتا تو ۔وَسَلـٰمٌ عَلَيهِ يَومَ وُلِدَ وَيَومَ يَموتُ وَيَومَ يُبعَثُ حَيًّا ﴿١٥﴾ سےجشن میلاداور جشن وفات دونوں کا ثبوت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس میں یوم ولادت اور یوم وفات کو ایک حیثیت میں رکھا گیا ہے۔ لیکن وہ جشن میلاد مناتے ہیں۔ اور جشن وفات نہیں مناتے۔ اس کی وجہ بجز نصاریٰ کی تقلید کی کوئی اور نہیں معلوم ہوتی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ فاضل محقق نے حضرت عیسیٰؑ کے قول سے تو استدلال کیا لیکن خود اللہ تعالیٰ کے قول کو نظر انداز کردیا۔
3۔ فاضل محقق نے اپنے استدلال میں ۔ لَقَدْجَاءَكُمْرَسُولٌمِّنْأَنفُسِكُمْعَزِيزٌعَلَيْهِمَاعَنِتُّمْحَرِيصٌعَلَيْكُمبِالْمُؤْمِنِينَرَءُوفٌرَّحِيمٌ ﴿١٢٨﴾
يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِنّا أَرسَلنـٰكَ شـٰهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذيرًا ﴿٤٥﴾
اور ۔ هُوَ الَّذى أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ المُشرِكونَ ﴿٣٣﴾
آیت کا زکر بھی کیا ہے۔ لیکن ان آیات میں بھی نہ ولادت کا زکر ہے۔ نہ یوم ولادت کا اور نہ جشن میلاد کا بلکہ بعثت اور ارسال کا زکر ہے۔ جو کہ ولادت کے چالیسف سال بعد کا واقعہ ہے پس اگر ان آیات کی بنا پر جشن کا منانا صحیح ہوسکتا ہے تو جشن بعثت منانا چایئے ان آیات کی روشنی میں جشن ولادت منانا کون سےتک ہے۔ اور ہم عرض کر چکے ہیں کہ در اصل ان آیات کو کسی جشن سے کوئی تعلق ہی نہیں او ر ان سے جشن میلاد جیسی بدعات کو ثابت کرنا بعض آریہ پنڈتوں کے ۔ كونوا قِرَدَةً خـٰسِـٔينَ ﴿٦٥﴾
۔ وغیرہ آیات سے تناسخ ثابت کرنے سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔
4۔ فاضل محقق نے اپنے مدعا پر وَأَمّا بِنِعمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّث ﴿١١﴾
سے بھی استدلال کیا ہے۔ لیکن یہ بھی سراسر جہالت ہے۔ کیونکہ نعمت میں ولادت کی تخصیص نہیں تو پھر جشن میں ولادت کی تخصیص کی سوائے پیروی نصاریٰ کے اور کون وجہ ہوسکتی ہے۔ پھر اس میں رسول اللہﷺ کو حکم ہے۔ کہ تم خدا کی نعمتیں بیان کرو۔ اور ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی ولادت کا جشن نہیں منایا اس کی وجہ تو یہ ہوگی کہ اس آیت میں اس جشن کا حکم ہی نہ تھا۔ اور اس سے ایسا سمجھنا خود اہل بدعت کی غلطی ہے۔ یا اس میں حکم تھا۔ مگر رسول اللہﷺ نے نعوذباللہ اس کو نہیں سمجھا۔ یا سمجھ کر اس پر عمل نہیں کیا۔ تو یہ بھی اہل بدعت ہی کہہ سکتے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ استدلال بھی سرا سر باطل اور مہمل ہے اور اس کی بناء پر معاذاللہ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس پر الزام آتا ہے۔
5۔ فاضل محقق نے ۔ قُل بِفَضلِ اللَّهِ وَبِرَحمَتِهِ فَبِذٰلِكَ فَليَفرَحوا هُوَ خَيرٌ مِمّا يَجمَعونَ ﴿٥٨﴾
ے بھی استدلال کیا ہے۔ لیکن یہ استدلال بھی غلط ہے۔ کیونکہ اس سے پہلی آیت یہ ہے۔ ۔ يـٰأَيُّهَا النّاسُ قَد جاءَتكُم مَوعِظَةٌ مِن رَبِّكُم وَشِفاءٌ لِما فِى الصُّدورِ وَهُدًى وَرَحمَةٌ لِلمُؤمِنينَ ﴿٥٧﴾
کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا کہ اہل بدعت کا مقصود ہے۔ تب بھی اس سے ان کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس فضل اور رحمت کا اولیٰ تعلق بھی اسی مجئی موعظہ وغیرہ سے ہے کہ نہ کے ولادت سے پھر استدلال بے معنی ہے۔ اور اگر فضل و رحمت کو عام بھی لیا جائے تب بھی ولادت کی تخصیص بے معنی ہے۔ بلکہ ہر ایک فضل و ر حمت پر جشن منانا چاہیے،۔ الٖغرض یہ استدلال بھی ہر پہلو سے باطل اور سراسر جاہلانہ ہے۔ پھر ان لوگوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ''فلیفرحوا'' کے معنی بھی نہیں جانتے۔ فرح کے معنی خوش ہونے کے ہیں جس کا تعلق دل سے ہے جو ایک طبعی کیفیت ہے۔ جو کسی خوش کن واقعہ کے وقت پیدا ہوتی ہے۔ نہ کے خوشی منانے کے جس کا تعلق جشن سے ہے۔ پس ''فلیفرحوا'' کے معنی یہ ہوں گے۔ کہ ان سے خوش ہونا چاہیے۔ نہ یہ کہ ان کو اس کی خوشی کرنے اور بطور جشن خوشی منانی چاہیے جیسا کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ اور اگر اس کے معنی جشن منانے کے ہوں تو ماننا پڑے گا کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس پر عمل نہیں کیا۔ پھر یہ با ت بھی قابل لہاظ ہے۔ کہ اس کے حکم سے عامۃ الناس ہیں نہ کہ خاص مومنین۔ جیسا کہ آیت سابقہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عنوان خطاب ۔ يَاأَيُّهَاالنَّاسُ ہے نہ کہ ۔ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوا
اور یہ دلیل اس بات کی کہ فلیفرحوا کے معنی جشن منانے کے نہیں۔ اور نہ سرو ر قلبی کے ہیں۔ بلکہ اس کے لازمی معنی مراد ہیں۔ یعنی فليتقبلوه بطيب التفسير(یعنی اس کو بطیب خاطر قبول کرو)اور اس صورت میں بنا ء استدلال ہی منہدم ہے۔ اس موقعہ پر فاضل محقق نے ایک نوٹ دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ حضورﷺ کی ولادت خدا کاسب سے بڑا فضل ورحمت ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کو عطائے نبوت کمالات نبوت ضرور اس سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ انہی کی وجہ سے ولادت کو شرف حاصل ہوا ہے۔ اگر کہا جاوے کے ولادت زریعہ ہے۔ ان کمالات کا اگر ولادت نہ ہوتو وہ کمالات کیسے حاصل ہوتے۔ تویہ اس سے بھی بڑھ کر جہالت ہوگی۔ کیونکہ ذرائع ہمیشہ مقاصد سے ادنی ہوتے ہیں او پھر اگر یہ صحیح ہو تو آپ کے والد کی ولادت کو آپ کی ولادت سے افضل ہونا چاہیے۔ کیونکہ وہ ذریعہ ہے آپ ﷺ کی ولادت کا ٖغرض یہ کہ یہ دعویٰ سراسر مظالطہ ہے۔ پھر ان کا یہ کہنا کہ اس پر مسرت کا نام عید میلاد ہے یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ مسرت اور چیز ہے اور عید میلاد دوسری شے۔ مسرت کا تعلق دل سے ہے۔ جو کسی خوش کن واقعہ کے وقت طبعی طور پر ہوتی ہے۔ اور عید میلاد جشن ہے۔ پھر ولادت کا تحقیق تو بروقت ہے۔ اس لئے بروقت جشن کرنا چاہیے۔ اور خاص دن میں خوشی منانے کے معنی سوائے تقلید نصاریٰ کے او ر کچھ نہیں ہوسکتے۔
6۔ فاضل مھقق نے ''ذَكِّرهُم بِأَيّىٰمِ اللَّهِ ۚ '' سے بھی استدلال کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ خدا کے دنوں میں حضؤرﷺ کی ولادت کا دن عظیم المرتبت ہے۔ اس کی یاد دلانا مسلمانوں کے لئے ضروری ہوا اس سے فاضل محقق کی فضیلت اور ادعائے تحقق کا بھانڈا اچھی طرح پھوٹ جاتا ہے۔ اولا اس لیے کہ یہ حکم حضرت موسیٰؑ کو دیا گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انھوں نے اس پر کس طرح عمل کیا کیا ان کو اپنی ولادت کا دن یاد دلایا۔ اور ان کو اس دن جشن منانے کی ہدایت کی یا ان کو حضرت ابراہیم ؑ و حضرت نوحؑ وغیرہ کی ولادت کے دن یاد دلائے۔ اور ان پر جشن منانے کی تعلیم دی اگر نہیں تو جو معنی اس کے وقت نہ تھے۔ اب وہ معنی اس کے کیسے ہوگئے پھر آیت کا مطلب یہ تھا کہ اپنی قوم کو وہ واقعات سناکر جو نافرمان قوموں کو پیش آئئے ہیں۔ ان کو نافرمانی سے روکو اور اطاعت پر آمادہ کرو۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ان کو خدا کے دن یاد دلائو۔ کیونکہ یہ ترجمه ذكرهم ايام الله کا ہے۔ نہ کہ ذَكِّرهُم بِأَيّىٰمِ اللَّهِ ۚ کا اور ان دونون میں جو فرق ہے۔ وہ ایک معمولی استعداد کے طالب علم پر مخفی نہیں چہ جائکہ ایک فاضل محقق پر اور اگر یہ بھی ہو تو اس میں بڑے اورچھوٹے کی کوئی قید نہیں لہذا ہر روز ہر کام کےلئے جشن منانا چا ہیے۔ غرض یہ کہ یہ استدلال بھی سراسر سفسطہ ہے۔
7۔ فاضل محقق نے ۔ وَرَفَعنا لَكَ ذِكرَكَ ﴿٤﴾
سے بھی استدلال کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ جب احکم الحاکمین حضور ﷺ کے زکر کو بلند فرمادیں تو ہمارا بھی فرض ہے کہ حضورﷺ کا زکر کریں کیا کہنے ہیں اس تحقیق کے؟یہ مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا زکر بلند کیاہے۔ اور اس کے لئے خاص طریقوں کی تعلیم کی لیکن اس سے یہ کب لازم آیا کہ ہم جس طرح چاہیں آپ کا زکر کریں۔ اور اگرخود رسول اللہﷺ بھی اس کو منع فرمایئں تو ہم ان کی بھی نہ مانیں اور جب یہ لازم نہیں تو پھر عید میلاد کا اس سے ثبوت کیسے ہوا؟
8۔ فا ضل محقق نے ۔ وَالضُّحىٰ ﴿١﴾ وَالَّيلِ إِذا سَجىٰ ﴿٢﴾
سے بھی استدلال کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ علماء نے ضحیٰ سے مراد ولادت اور لیل سے مراد شب ولادت ہی کو لیا ہے۔ لیکن اول تو یہ بیان سراسر غلط ہے۔ علماء کرام کو تو ایسی لغو باتوںکا خطرہ بھی نہیں گزرتا یہ تو صرف جاہلوں کی ایجاد ہے۔ اور نہ قرآن میں یہ معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ اس لئے کہ ضحیٰ کے معنی ولادت نہ لغت میں ہیں نہ عرف میں اور اگر استعادہ کیا جائے۔ تو اہول تو یہ استعارہ صحیح نہیں ہے۔ اور اگر ہو بھی تو وہ مجاز ہے اور مجاز کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے۔ اور یہاں کوئی قرینہ اس کا نہیں اس طرح لیل سے شب ولادت مراد ہونے پر بھی کوئی قرینہ نہیں بلکہ آگے۔ ؛؛اذا سجیٰ''صاف اس کے خلاف شہادت دے رہا ہے۔ کیونکہ اذا مستقبل کے لئے آتا ہے۔ اور شب ولادت مدت ہوئی گزر چکی تھی پس ایسا دعویٰ ضرور ایک گونہ تحریف ہوگا۔ اور اس تحریف کے بعد کبھی یہ بدعت ثابت نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ولادت اور شب ولادت کی قسم کھائی ہے۔ سو اس سے یہ کب ثابت ہوا کہ اس دن پر جشن منانا جائز ہو۔ آپ قرآن پڑھیے اور دیکھئے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہر ولد اور مولود کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ وَوالِدٍ وَما وَلَدَ ﴿٣﴾ لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى كَبَدٍ ﴿٤﴾
اور اس کے علاوہ اور بہت سی چیزوں کی قسمیں کھائیں ہیں۔ مثلا چاند سورج االتین زیتون وغیرہ۔ تو کیا ان سب کا جشن منانا جائز ہوگا۔ حد ہے اس لغویت کی آپ انصاف فرما دیں کہ ایسے لوگوں کو کوئی زی علم کس طرح قابل خطاب سمجھ سکتا ہے اور ان کی مہملات وخرافات کے جواب مین وقت ضائع کرتا کیونکہ گوارہ ہوسکتا ہے۔ جن کی گفتگو کا کوئی اصول ہی نہیں اور وہ اس لئے ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ خیر یہ تو دلائل قرآنیہ تھے اب دلائل حدیثیہ کی حالت معلوم فرمائے۔ اس سلسلہ میں اول نمبر یہ حدیث پیش کی گئی ہے۔
''اخبر كم باول امري دعوة ابراهيم وبشارة عيس ورويا امي التي راتها حين وضعتني قد خرج منها نور اضاءلها منه قصور الشام''
ناظرین غو ر فرمایئں ! اس روایت کا جشن میلاد سے کیا تعلق اگر آپ نے کسی موقع پر کسی سلسلہ گفتگو میں یہ تذکرہ فرمادیا کہ میں ابراہیم کا دعا کا نتیجہ او ر عیسیٰؑ کی بشارت کا مصداق اور اپنی ماں کی خواب کی تعبیر ہوں۔ تو اس کے یہ معنی کب ہوئے کہ تم ہر سال عیسایئوں کی تقلید میں میری ولادت کا جشن منایا کرو۔ قرآن میں موسیٰؑ کی ولادت عیسیٰؑ کی ولادت یحییٰ ؑ کی ولادت اور مریم ڈ کی ولادت بلکہ جن و انس آسمان و زمین وغیرہ کی پیدائش کے تذکرے موجود ہیں۔ تو کیا مسلمانوں نے ان کی ولادت اور پیدائش کے جشن منائے۔ ؟اگر نہیں تو آپﷺ کے اتنا فرمادینے سے میلاد کا جواز کہاں سے ثابت ہوگیا۔ افسوس ہے کہ اس گروہ کو علم میں مال استعداد تو کجا غالباً اس سے معمولی مناسبت بھی نہیں اگر ان کے ان دلائل کو کسی غیرمسلم کے سامنے رکھ دیا جائے تو ہو بھی یہی کہے گا۔ کہ ان سے زیادہ غیر معمولی کوئی نہ ہوگا۔ پھر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس حالت میں یہ لوگ اجتہاد کے مدعی ہیں۔ اور اس ک ے ساتھ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ پکے مقلد ہیں۔ (ضدان لا یجتمعان)
دوسرے نمبر پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يعض لحسان بن ثابت منبرا في المسجد الخ
لیکن یہ استدلال بھی سراسر مغالطہ ہے۔ کیونکہ نہ اس میں ولادت کا زکر ہے نہ یوم ولادت کا بلکہ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ جس طرح کفار اسلام کا مقابلہ تلوار سے کرتے تھے اور مسلمان اس کا جواب تلوار سے دیتے۔ یوں ہی جب کفار رسول اللہﷺ کی ہجو میں قصیدے لکھتے تھے۔ تو وہ ان کا جواب قصائد کی صورت میں دیتے تھے۔ اور اس جہاد لسانی کو زیادہ تر حسان بن ثابت انجام دیتے تھے اور ان کی خاطر مسجد میں حضور ﷺ منبر رکھوا دیتے تھے اس کو جشن میلاد سے کیا تعلق ہے۔ ؟ تیسرے نمبر پر حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے زکر رسولﷺ سے استدلال کیا ہے لیکن جب تک اس میں زکر نوعیت نہ معلوم ہو۔ اور یہ نہ معلوم ہو کہ اس مروجہ میلاد جشن کے طریقے پر ہوتا تھا۔ اس وقت اس سے استدلال سراسر جہات ہے۔ اور یہ ثابت ہونا محال ہے۔ چوتھے نمبر پر مجلس اس زکر اللہ میںملائکہ کے حضور سے استدلال کیا ہے۔ لیکن اس میں اس بدعت کا کچھ پتہ وہ نقصان نہیں بلکہ اس میں زکر اللہ کا بیان ہے۔ لہذا یہ استدلال بھی محض سفاہت اور حماقت پر مبنی ہے۔ یہ دلائل حدیثہ تھے۔ جن سے معلوم ہوگیا کہ ان لوگوں کے پاس تنکے کا سہارا بھی نہیں۔ ا س کے بعد فاضل محقق نے تعین تا ریخ پر بحث کی ہے۔ اور اس میں بھی اپنی قابلیت کے کرشمے دکھلائے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کام کے لئے کوئی وقت مقرر فرمایا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کی مصلحت کو جانتا ہے۔ اگر رسول اللہﷺ نے کسی کام کے لئے کوئی وقت مقرر فرمایا ہے تو وہ اگر تشریح کی قسم سے ہے۔ تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہی مقرر کردہ ہے۔ اور اگر وہ تشریح کے قبیل سے نہیں تو وہ محل بحث ہی نہیں۔ جیسا کہ آپﷺ کا ان عورتوں کو وقت دینا جنھوں نے آپ سے وعظ کی درخواست کی تھی۔ رہے وہ علماء جنھوں نے اس بناء پر معمولات کے لئے اوقات کی تعین کی کہ ان اوقات اور تاریخوں میں خدا کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ سو ان کا یہ فعل اس لئے حجت نہیں کہ یہ تعین بلاددلیل شرعی ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہﷺ اور حق تعالیٰ اس کے زیادہ مستحق تھے۔ کہ وہ ان کےلئے ان اوقات کو وجوبا یا استحبابا معین کرتے۔ کیونکہ ان کو ان اوقات کا بھی علم ہے۔ اور ان کاموں کا بھی اور ان کے درمیان مناسبت کا بھی برخلاف علماء کے کہ ان کو ان میں سے کسی بات کا بھی یقینی علم نہیں۔
پس ان کی تعین کو تعین شارح پر قیاس کرناقياس الجهل علي العلم والا دني علي الاعليہے۔ جو کہ بالاجماع باطل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقلدین کو قیاس اور اجتہاد سے روکا گیا تھا۔ مگر افسوس کے وہ باز نہ آئے۔ اور اس وجہ سے دین میں بے انتہا مفاسد پیدا ہوگئے۔ اس کے بعد فاضل محقق نے بعض علماء کے فتاوے نقل کئے ہیں۔ سو اول تو اس فتاویٰ کی بناء معلوم ہوچکی ہے اور معلوم ہوگیا ہے کہ ان کے پاس اس کی کوئی کمزور دلیل بھی نہیں۔ پھر اس کے مقابل ہم دوسرے علماء کے فتاوے پیش کرتے ہیں۔ جو ان کےھ علم و فہہم اور دین کی کسی بات میں بھی کم نہیں بلکہ ان سے بڑے ہوئے ہیں تو یہ فتا وے بھی بےسود ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اس باب میں ان مولوی مفتی صاحب کے پاس کوئی بھی حجت صحیحہ نہیں۔
یہ مسلم ہے کہ جس طرح انبیاء کی مساعی سے دنیا سے کفر و ضلالت کا خاتمہ نہیں ہوا اور جن گمراہوں کی قسمت میں ہدایت سے محرومی مقددر تھی۔ وہ اب بھی گمراہ ہی رہے یوں ہی ان کے جانشینوں کی مساعی جمیلہ سے دنیا میں شرک و بدعت اتباع یہود و نصاریٰ وغیرہ کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ اور جن کی قسمت میں محرومی مقدر ہے وہ ہدایت پر نہیں آسکتے۔ لیکن یہ ان کے لئے فخر کی بات نہیں کیونکہ اس کا نتیجہ ان کو مرنے کے بعد معلوم ہوجائے گا۔
بوقت صبح شود وہمچو روز معلومت کہ باکہ باختہ عشق ورشب دیجور
امید ہے کہ فاضل محقق اور ان کے ہم خیال دوسرے افراد اگر علم و فہم کا کچھ حصہ رکھتے ہیں۔ تو ہماری اس تحریر سے فائدہ اٹھاویں گے۔ اور اگر ان کو ان چیزوں سے حصہ نہیں ملا ہے۔ تو تقلید باطل کو چھوڑ کر مسلک احتیاط کو اختیار کریں گے۔ اور اگر دین مقصود ہی نہیں تو اس کا کوئی علاج ہی نہیں۔ وَالسَّلـٰمُ عَلىٰ مَنِ اتَّبَعَ الهُدىٰ ﴿٤٧﴾ (الفرقان بریلی 30 صفر 1358ھ)
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ ماہ محرم میں دسویں تاریخ کا اور مارہ ربیع الاول میں بارویں تاریخ کی عظمت کا ثبوت حدیث و قرآن و صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین تابعین و تبع تابعین آئمہ اربعہ محدثین میں سے ہے یا نہیں؟
2۔ ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ اور محرم کی دسویں تاریخ کو تمام دن کاروبار بند کرنا اور اس کی عظمت سمجھنا اور اس دن محفل میلاد کرنا کیا وقعت رکھتا ہے۔ اس دن کی عظمت اور محفل میلاد کرنے کا ثبوت قرآن وحدیث صحابہ تابعین آئمہ محدثین سے ہے یا نہیں؟
3۔ ماہ ربیع الاول میں شریعت مطہرہ سے محفل میلاد کرنے کا ثبوت ہے یا نہیں؟فقط
الجواب۔ دنیا کا کاروبار بند کردینا مسلمانوں کے لئے بغرض اظہار غم عاشورہ کے روز بھی شرعاً ادلہ شرعیہ اربعہ میں سے کسی ایک دلیل سے بھی ثابت نہیں اس بندش پر بارہیوں ربیع الاول ک بندش قیاس کرنا صحیح ہوسکتا ہے۔ خلفاء ر اشدین و آئمہ مجتہدین و سلف صالحین کے زمانے میں اس بارہ تاریخ کو دنیا کے کاروبار بند رکھنا ثابت نہیں۔ اور اسی طرح محفل میلاد کا منعقد کرنا بھی اس مروج طور پر ثابت نہیں اور شرعا کسی میت پر تین روز سے زائد صدمہ کا اظہار کرنا جائز نہیں ماسوا بیوہ عورت کے کہ اس کے لئے چار مہینے دس دن مقرر ہیں۔ کہ ان ایام میں زینت و آرائش نہ کرے۔ لیکن دنیاوی ضروری کام کے ترک کر دینے کا حکم شرعی اس کے لئے بھی نہیں۔ تو آپﷺ کے وصال کی بارہویں تاریخ کے روز اگر اس زمانے میں دنیاوی روزگار وبازار کا بند کردیا جانا جاری کردیا جائے گا۔ تو چند سال کے بعد عوام الناس اس حکم کو شرعی وضروری ٹھرانے کی وجہ سے گناہگار گمراہ ہوں گے اور ایسا کام جو ذریعہ معصیت کا ہوتا ہے۔ تو وہ بھی ناجائز اور گناہ ہوجاتا ہے۔ (اجابہ وکتبہ حبیب المرسلین عنی عنہ نائب مفتی مدرسہ امینیہ دہلی (حنفی)
الجواب صحیح۔ مولوی محمد موسیٰ خان۔ مدرس مدرسہ حسینیہ۔ دہلی۔ الجواب صحیح محمد اسحاق محلہ گڑھیا دہلی۔ الجواب صحیح۔ ابو یحیٰ عبد اللطیف اہل حدیث صدر دہلی۔ بغرض اظہار غم کاروبار بند کرنا۔ ایک دنیاوی رسم ہے۔ شرعا اس کا ثبوت نہیں ہے۔ اور اظہار عظمت کے واسطےبھی کاروبار بند کرنے کا شرح شریف سے بالکل ثبوت نہیں۔ محمد شفیع مدرس مدرسہ عبد الرب حنفی دہلی۔ جواب صحیح ہے۔ بے شک اس روز کاروبار بند کرنا کوئی شرعی حکم نہیں ہے اس کو شرعی حیثیت سے دے کر تعطیل جاری کرنا ایک ایجاد واحداث فی الدین ہوگا۔ محمد کفایت اللہ۔ حنفی صدر جمعۃ علماء ہند دہلی۔ اصل جواب اور بعد کی تصدیقات ازروئے اولہ شرعیہ صحیح ہیں۔ بندہ محمد میاں۔ مدرسہ حسین بخش حنفی دہلی۔ مروجہ میلاد ساتویں صدی کی بدعت اور اس دن کاروبار بند کرنا چودہویں صدی کی بدعت ہے۔ بدعتی خدا اور رسول ﷺ کے دشمن ہیں۔ اس دن دوکانیں بند کرنے والے دنیاوی نقصان کے ساتھ ساتھ اخروی نقصان بھی کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو مل جل کر اس بدعت کو اتھا دینا چایے۔ واللہ الموفق ۔ محمد اڈیٹر محمدی دہلی۔ الجواب صحیح۔ مولوی احمد اللہ شیخ الحدیث دہلی۔ الجواب صحیح مولوی عبد السلام مدرس مدرسہ حاجی علی جان دہلی اہل حدیث ۔ الجواب صحیح۔ مولوی محمد یونس۔ مدرس مدرسہ حضرت میاں صاحب پھاٹک حبش خان دہلی اہل حدیث الجواب صحیح مولوی ابو الفضل عبد الحنان دہلی اہل حدیث۔ (اخبار اہل حدیث 19 ربیع الاول 1357ھ)
1۔ ساری نیکیوں کا متبع یوم بعثت یعنی وہ دن ہے جسمیں حضورﷺ کو رسالت ملی جس کو آپ لوگ جانتے بھی نہیں(مولف)2۔ قدیم الایام سے نہیں بلکہ چند ایام سے(مولف)
3۔ کتب اصول فقہ کی تصریھات آپ کی تایئد کرتی ہیں۔ توضیح میں ہے۔ دليل المقمد ان يقزل هذا ما ادي اليه راء ابي حنيفة وكلما ادي اليه راء ابي حنيفة فهو عندي الصحيح نیز اصول کی بلند پایہ کتب مسلم الثبوت میں مرقوم ہے۔ اما المقلد فمستنده قول مجتهد اسی طرح دیگر کتب اصول میں بھی تصریھات ملتی ہیں۔ افراد اہل حدیث جب سنتے ہیں۔ کہ بعض اعلمائے مقلدین فتویٰ دیتے ہیں کہ غیر مقلد کے پیچھے اقتداء جائز نہیں تو وہ اس بناء پر سوال کرتے ہیں۔ کہ اس فتوے کی دلیل آئمہ مجتہدین کے قول سے دکھایئے۔ کیونکہ مقلد کو حق نہیں ہے کہ کہ وہ بغیر قول امام کے فتویٰ دے۔ تو اس کے جواب میں وہ خاموش ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ اصول امر بالتقلیدکا مسلمہ ہے۔ اس لئے اس سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ یہ کنا بے جاہ نہ ہوگا کہ اس انحراف کرنے والے کو دائرہ تقلید سے باہر سمجھنا چاہیے۔ (اہل حدیث)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب