السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وَإِذ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ أَبىٰ ﴿١١٦﴾
میں استثناء متصل ہے یا کہ منقطع کیا یہ صحیح ہے۔ کہ ابلیس پہلے کثرت سے عبادت کیا کرتا تھا۔ ؟
.1اصل میں ایسا ہی ہے۔ (راز)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ملائکہ کے ساتھ ابلیس کو بھی سجدے کا حکم ہوا تھا۔ لقولہ تعالیٰ ۔ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ لَم يَكُن مِنَ السّـٰجِدينَ ﴿١١﴾ قالَ ما مَنَعَكَ أَلّا تَسجُدَ إِذ أَمَرتُكَ ۖ .... ﴿١٢﴾ (آل عمران)
آیت کی تقدیر عبارت یوں ہے۔ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ ﴿١١﴾ اس تقدیر عبارت پر استثناء متصل ہے۔ بہت سے حضرات منقطع بھی کہتے ہیں۔ ہمارے علم میں قرآن وحدیث سے ابلیس کی عبادت کا کوئی ثبوت نہیں کسی عالم سے پوچھیے۔ (اہل حدیث جلد نمبر 40 نمبر 37)
میں کہتا ہوں بدلیل ما مَنَعَكَ أَلّا تَسجُدَ إِذ أَمَرتُكَ ۖ .... ﴿١٢﴾ تقدیر عبارت یہی مناسب ہے۔ سورہ کہف میں ہے۔ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ كانَ مِنَ الجِنِّ .... ﴿٥٠﴾ اور صحیح مسلم میں ہے۔ قال رسول الله صلي الله عليه وسلم خلقت الملائكة من نورق خلق الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ(الحدیث مشکواۃج2ص506)یہ اتصال سے مانع ہے۔ ہاں اگر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر کہ ایک قسم ملائکہ کی ایسی ہے۔ جو نور سے مخلوق نہیں ۔ اگر رسول اللہﷺ سے یہ ثابت ہوجائے تو تخصیص بعض ملائکہ از نار اتصال صحیح ہوسکتا ہے۔ مگر یہ روایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسرائیلی روایات میں سے ہے۔ اور صحیح مسلم کی مرفوع حدیث کے خلاف ہے۔ لہذا استثناء منقطع صحیح معلوم ہوتا ہے اور تقدیر عبارت یہی صحیح ہے جو مولانا نے لکھا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب