سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01) مقصد مذہب

  • 5775
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1932

سوال

(01) مقصد مذہب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مقصد مذہب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مقصد مذہب

انجمن احمدیہ لاوور کے اہتمام سے لاہور میں ایک مذہبی کانفرنس بتاریخ 28۔29۔دسمبر 1923ء؁ منعقد ہوئی۔جس نے تمام مذاہب کو دعوت شرکت دی۔ کہ اس مضمون پر اپنی کتاب کی ہدایت سنائو کہ مذہب کا مقصد کیا ہے۔حسب پروگرام مشتہر کانفرنس مندرجہ زیل اصحاب مقررین تجویز ہوئے۔

1۔پندت چمو پتی جی ایم۔اے لیکچر آریہ سماج ۔2۔ خواجہ کمال الدین صاھب لیکچرار اسلام۔3۔پنڈت متھرا پوری صاحب لیکچرار سناتن مرحوم 4۔ پادری علی بخش صاحب لیکچرار عیساییت 5۔لالہ ر ام پرکاش لیکچرار برہمو سماج 6۔مولوی ابو الوفا ثناء اللہ صاحب لیکچرار اسلام 7۔پروفیسر راجا رام صاھب لیکچرار آریہ سماج

میں نے جو مضمون کانفرنس مذکور میں سنایا وہ ناظرین ’’اہل حدیث‘‘کی ضیافت طبع  کےلئے درج زیل ہے۔

مسلم نے حرم میں راگ گایا تیرا                ہندو نے صنم میں جلوہ چاہا  تیرا

دہری نے کہا ہے دہرے تعبیر تجھے                   انکار کسی سے بر نہ آیا تیرا

الحمد للہ و سلم علی عبادہ الذین الصطفیٰ۔صاحبان !السلام و علیکم ۔۔۔۔جلسہ اعظم مذاہب کے بعد یہ دوسرا جلسہ اس نوع کا ہے۔جو 1816ء؁ میں بمقام اسلامیہ سکول دروازہ شیرانوالہ میں ہوا تھا آہ اس وقت کے منتظموں اور مقرروں میں سے اکثر کو میں غیر موجود  پاتا ہوں۔ تو دنیا کی بے ثباتی پر بے ساختہ شعر میرے منہ سے نکلتا ہے۔

یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزارون جانور            اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جایئں گے

اس قسم کے جلسوں کا فائدہ بہ نسبت مناظرانہ مجلس کے بہت زیادہ ہے۔مگر ہمارے ملک کو  مناظرانہ طرز میں کچھ زیادہ لطف حاصل ہوتا ہے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسا جلسہ 27 سال تک ملتوی رہے بحالیکہ مناظرانہ جلسے روزانہ ہوں۔خیر ہر ایک شخص اپنی رائے کا مالک ہے۔

مجھے تو ہے منظور مجنوں کو لیلیٰ           نظر اپنی اپنی پسند اپنی اپنی

خدا ہماری نیتوں کی اصلاح کرے۔اور کلمہ حق میں برکت ڈالے۔

صاحبان! کچھ شک نہیں کہ انسان کی پیدائش مثلل ہونے کے ہے۔جوباوجود قیمتی ہونے کے کان سے خاک آلود نکلتا ہے۔بعد میں صاف ستھرا کیا جاتا ہے۔تو قدروقیمت پاتا ہے۔اسی طرح انسان اپنی فطری حالت میں نفسانی آلائشوں سے آلودہ ہے۔ جس سے صاف ہونا اس کا فرض قراردیا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے۔

 قَد أَفلَحَ مَن زَكّىٰها ﴿٩ وَقَد خابَ مَن دَسّىٰها ﴿١٠ 

’’یعنی جو شخص نفس کو بری آلائشوں سے پاک صاف کرے گا۔وہی نجات پائے گا۔اور جو اس کو آلودہ رکھے گا۔وہ تباہ ہوگا۔‘‘

پس ثابت ہوا کہ مذہب سے  مقصد ہے۔

تہذیب نفس وگر ہیچ یعنی انسان جن آلائشوں میں آلودہ ہے۔ اس سے پاک ہونے کی کوشش کرنا اس   کا فرض ہے۔تاکہ نتھرے ہوئے سونے کی طرح خالص ہوجائے سچ ہے۔

تا مثل حنا سودہ نگر وی تہ سنگ          ہرگز بکف دست تمہارے نرسی

امر تنقیح طلب ابھی باقی ہے۔کہ وہ کیا آلائشیں ہیں۔جن سے انسان کا پاک کرنا مذہب کا مقصد ہے۔ مجمل بیان اس کا قرآن شریف نے ان لفظوں میں فرمایا ہے۔

إِنَّ الإِنسـٰنَ لَيَطغىٰ ﴿٦ أَن رَ‌ءاهُ استَغنىٰ ﴿٧

’’انسان اپنی حدود بندگی سے باہر ہوجاتا ہے۔کیونکہ وہ باوجود محتاج ہونے کے خدا سے استغنیٰ بنتا ہے‘‘

نیز فرمایا!۔ر‌انَ عَلىٰ قُلوبِهِم ما كانوا يَكسِبونَ ﴿١٤

’’بُرے کاموں سے دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے۔‘‘

یہ تو مجمل بیان  ۔قرآن مجید نے اس کی تفصیل فرمائی ہے جو یہ ہے۔کچھ شک نہیں کہ انسان کے تعلقات مختلف اور متعدد ہیں۔مگر آسانی کی غرض سے دو قسموں میں آسکتے  ہیں۔ایک تعلق خدا سے اور دوسرا مخلوق سے جو تعلق ہے وہ بندگی اور عبودیت کا ہے دوسری قسم کا تعلق بنی نوع انسان سے ہے۔جس کو تمدنی تعلق کہتے ہیں۔

پہلی قسم کا تعلق یہ ہے  کہ انسان اپنے خالق مالک کو پہچانے پہچان کر جو تعلقات اس کے ساتھ ہوں۔وہ کسی دوسرے کے ساتھ دل میں نہ لائے۔قرآن مجید کا مختصر ارشاد ہے۔لا تَتَّخِذوا إِلـٰهَينِ اثنَينِ ۖ (ترجمہ۔دو معبود مت بنائو)

دوسرے کسی کے ساتھ وہ تعلق پیدا کرنا انسان کے لئے خاک آلود ہونا بلکہ اس سے بدتر ہے۔قرآن مجید نے اس قسم کی آلائشوں کا نام شرک رکھا ہے۔جس کی صورت یہ بتائی ہے۔

وَمَن يُشرِ‌ك بِاللَّهِ فَكَأَنَّما خَرَّ‌ مِنَ السَّماءِ فَتَخطَفُهُ الطَّيرُ‌ أَو تَهوى بِهِ الرّ‌يحُ فى مَكانٍ سَحيقٍ ﴿٣١             (پ17 ع 12) 

’’۔یعنی جو  کوئی اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے۔ اس کی حالت یہ ہے۔ کہ گویا وہ بہت بلندی سے گرا۔آتے آتے اس کو جانوروں نے نوچ نوچ کر کھایا یا ہوا لے اُس کو کہیں دور دراز مکان میں پھینک دیا۔‘‘

صاحبان!اس تعلق کو قرآن مجید نے اتنا بڑا ضروری قرار دیا ہے۔کہ اور گناہوں پ بھی گو سزائوں کے اعلان جاری کیے ہیں۔مگر اس شرک کی بابت جتنا سخت اعلان دیا ہے کسی اور کی بابت نہیں دیا۔ارشا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ‌ أَن يُشرَ‌كَ بِهِ .... ﴿٤٨

’’۔خدا شرک کو ہرگز نہ بخشے گا۔‘‘

کیونکہ یہ خدا کے ساتھ بغاوت ہے۔اور  اسی سے سب قسم کی آلائشیں پیدا ہوتی ہیں۔قرآنی اصطلاح میں شرک ام الامراض ہے۔ اس لئے اس کی جتنی تفصیل کی ہے۔کسی اور آلائش سے اصل جوہر انسانی (جس کا نام توحید ہے۔)مٹتا ہے جس کے مٹنے سے انسان کی جملہ صفات حسنہ مٹ جاتی ہیں۔

قرآن مجید ''ٹائم از منی کہنے والے عدیم الفرصتوں کا عذر معقول جان کر توحید کی علامت کا زکر نہایت مختصر لفظوں میں کرتا ہے۔جس کا مطلب  یہ ہے کہ خدا کو سب چیزوں سے محبوب ترین  مان کر اپنا سب کچھ مال واسباب دولت قوت تن من دھن اس کے سامنے رکھ کر دل سے فرمانبردار ہو جائے چنانچہ ارشا دہے۔

بَلىٰ مَن أَسلَمَ وَجهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحسِنٌ فَلَهُ أَجرُ‌هُ عِندَ رَ‌بِّهِ ..... ﴿١١٢(پ1ع13)

’’یعنی جو کوئی اپنا تن من ددھن خدا کو سپرد کر کے نیکی اختیار کرے وہ اپنا اجر اللہ کے پاس پائے گا۔‘‘

اسی اصول پر اپنے نبی ﷺ کو حکم دیتا ہے۔

قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢ لا شَر‌يكَ لَهُ ۖ وَبِذ‌ٰلِكَ أُمِر‌تُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣

’’یعنی اے نبی ﷺ! تو اعلان کردے کہ میری نماز ۔میری قربانی۔میری زندگی۔میری موت سب اللہ کے لئے ہیں۔جن کا کوئی شریک نہیں مجھے اس امر کا حکم ہوا ہے۔ اور میں سب سے پہلے خدا کا فرمانبردار ہوں۔‘‘

اسی مضمون کو اسلامی قومی شاعر خواجہ حالی مرحوم نے ایک بند میں بول ادا کیا ہے۔

کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق        زبان اور دل کی شہادت کے لائق

اُسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق      اُسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق

لگائوتو لو اس سے اپنی لگائو                   جھکائو  تو سر اس کے آگے جھکائو

قرآن مجید کو اختصار نویسی میں خاص کمال ہے۔چنانچہ اس مذکورہ بالا اختصارکو بھی مختصر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے۔وَتَبَتَّل إِلَيهِ تَبتيلًا ﴿٨﴾ 

’’یعنی سب غیرا للہ کے کٹ کر اُسی خدا سے مل جائو‘‘

جیسے  ایک محب اپنے  محبوب حقیقی سے ملتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔

وَالَّذينَ ءامَنوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ۗ ..... ﴿١٦٥

’’ایمان داروںکو اللہ کی محبت سب سے زیادہ ہوتی ہے‘‘

ان سب آیات کا نتیجہ ہے کہ جس مدعی اسلام کے دل میں خدا کی محبت اور خوف مع انقیاد واطاعت سب مخلوق ہے۔زیادہ نہیں ہے۔ وہ مسلمان نہیں چاہے مدعی اسلام ہو بلکہ اس کے ماتھے پر سجدوں کے اثر سے بہت بڑا نشان نمایاں ہو۔

خدا جزائے خیر دے شیخ سعدی مرحوم  کو جنھوں نے توحید کا مضمون ایک چھوٹی سی رباعی  میں کیا خوب ادا کیا ہے۔

موحد چہ دریائے ریزی زرش         وچہ تیٖغ مہندی نہی برسرش

امید وہراسش بناشد زکس            ہمیں ست بنیاد توحید وبس

جو کچھ کہا گیا ہے سمجھ دار آدمی کےلئے کافی ہے۔اس لئے میں وقت کے لہاظ سے بادل نخواستہ اس تعلق کے مضمون کو چھوڑ کر دوسرے مضمون پر متوجہ ہوتا ہوں۔

دوسری قسم یعنی بنی نوع انسان کے تعلقات کی جتنی قسمیں ہیں۔وہ کسی انسان سے مخفی نہیں ان تعلقات میں جو آلائشیں پیدا ہوتی ہیں۔ اُن کی مختصر فہرست یہ ہے ۔

ظلم ۔دغا۔زنا۔بد اخلاقی۔مال مردم خوری بذریعہ چوری۔ ڈاکہ ۔کم ناپی۔کم وزنی۔خاص کر یتیموں کا مال کھا  جانا انسان کی خدا اور نعمت پر  جلنا۔کسی اپنے جیسے انسان کا بیجا قتل کرنا۔اپنے پڑوسیوں اور شہریوں کے ملکیوں کے حقوق پائمال کرنا۔اپنے نسلی اور قومی بذرگوں کے ساتھ غرور سے پیش آنا۔ حکومت کی ھالت میں بے انصافی کرنا ۔غصہ کی حالت میں حد سے نکل جانا۔بے جا کینہ عداوت لالچ وغیرہ یہ سب آلائشیں ہیں جن سے پاک ہونا انسان کا فرض مذہبی ہے۔ اور اس کے متعلق معقول ہدایات دینا سچے مذہب کا فرض اولین ہے۔

قرآن مجید ان سب عیوب کی اصلاح بتاتا ہے۔نہ صرف ایک آدھ دفعہ بلکہ انسانی فطرت کے مطابق بار بار مکررسہ کو تنبیہات فرماتا ہے۔ تاکہ باقاعدہ

گرہمی خواہی کہ باشی خوشنو بس                مینو لیس و مینو لیس و مینولیس

انسان اپنی فطری کمزوریوں کی تلافی کرسکے۔قرآن مجید نے ان اصطلاحات کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ان تین مختلف مراتب  پر عمل کرنے والوں کے نام بھی جدا جدا مقر ر  فرمائے۔ ایک 1 کا نام جماعت عقلا ہے۔اوردوسرے2 درجہ کا نام جماعت متزکرین ہے۔تیسرے 3 کا نام جماعت مقتین ہے۔چونکہ سب مراتب کی بنا عقل پر ہے۔ اس لئے سب سے پہلے عقل کا درجہ رکھتا ہے۔ اور قرانی اصطلاح میں سب سے بالا رتبہ متقین کا ہے۔اس لئے ان سب کو بالا تر رکھا ہے۔ان مراتب ثلاثہ کی مثال آجکل کی تعلیمی اصطلاح مڈل انٹرنس اور  بی اے سمجھنی چاہیے،۔میں عرض کر آیا ہوں  کہ تہذہب انفس کا پہلا زینہ یا بنیادی پتھر خدائی تعلق ہے۔اس لئے قرآن مجید اس بنیادی پتھر کو ہر جگہ مقدم رکھتا ہے۔نا ممکن ہے کہ اس سے چشم پوشی ہوجائے۔ کیونکہ یہی بنیادی پتھر امتیاز ہے۔ مذہبی اور غیرمذہبی تہذیب میں۔

اب سنیئے!ان تینوں جماعتوں کے لئے جو کورس قرآن مجید نے بتایا ہے۔وہ یہ ہے ارشاد ہے۔

قُل تَعالَوا أَتلُ ما حَرَّ‌مَ رَ‌بُّكُم عَلَيكُم ۖ أَلّا تُشرِ‌كوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۖ وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم مِن إِملـٰقٍ ۖ نَحنُ نَر‌زُقُكُم وَإِيّاهُم ۖ وَلا تَقرَ‌بُوا الفَو‌ٰحِشَ ما ظَهَرَ‌ مِنها وَما بَطَنَ ۖ وَلا تَقتُلُوا النَّفسَ الَّتى حَرَّ‌مَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ ۚ ذ‌ٰلِكُم وَصّىٰكُم بِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ ﴿١٥١

’’اے نبی ﷺ آئو میں تم کو  وہ احکام  بتلائوں جو تمہارے پروردیگار نے تم پرمقرر کیے ہیں جن سے تمہاری اصلاح نفس ہو۔ یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو ساجھی نہ بنائو۔ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتائو کیا کرو۔ اور اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہ کیا کرو۔(جیسا کہ تم عرب کے لوگ قبل از اسلام کرتے رہے ہو۔)دیکھو تم کو اور  تمہاری اولاد کو بھی ہم (خدا) ہی رزق دیتے ہیں۔پھر تم اس فکر سے ان کو کیوں قتل کرتے ہو۔؟ اور سنو بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا مخفی اس کے نزدیک بھی مت جائو۔ خبردار کھلا تو کیا پردہ پوشی سے بھی بدکاری نہ کرو۔اورسنو کسی جان  کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہو مت مارو۔یہ احکام تم کو اللہ نے بتایئے ہیں تاکہ تم عقلمند بنو۔(مڈل کلاس )اور سنو بے پدر یتیم جب تک بالغ نہ ہو اس کے مال کو کسی طرح مال کو چھوو بھی نہیں ایسا نہ ہو کہ ہاتھ لگاتے لگاتے تمہاری نیت فاسد ہوجائے۔توتم ہضم بھی کر جائو۔ اور  سنو دوکانداری کرتے ہوئے ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو۔ یہ بھی یاد رکھو ہم کسی آدمی کو طاقت سے زیادہ حکم نہیں دیتے۔اور سنو جب  تم کوئی بات بولو تو عدل وانصاف سے بولا کرو جانبداری سے کام نہ لیا کرو چاہے کوئی جانب  تمہاری تعلقداری بھی کیوں نہ ہو۔اور سنو خدا کے وعدے پورے کیا کرو  جو تم نے  بندگی میں رہنے کے اس کے ساتھ  کئے ہوئے ہیں۔یہ احکام تم کو خدا بتاتا ہے تاکہ تم نصیحت یاب بنو۔(انٹر نس کلاس )اور سنو  تمہارا خدا فرماتا ہے۔ میری طرف آنے کا یہی سیدھا راستہ ہے۔ پس تم اس راہ پر چلو اس کے سوا دوسرے راستوں پر (جو ادھر ادھر جا رہے ہیں) مت جائو ورنہ وہ  راستے تم کو اللہ کی طرف سے بھٹکادیں گے۔ دیکھو خدا تم کو یہ حکام بتاتا ہے۔تاکہ تم متقی بن جاؤ۔(بی اے کا درجہ  پاؤ)‘‘

یہ احکام کیسے ضروری ہیں۔ان کی تفصیل اور شریح کی حاجت نہیں ایک اور مقام پر یوں ارشاد ہے۔

وَقَضىٰ رَ‌بُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۚ إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ‌ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَر‌هُما وَقُل لَهُما قَولًا كَر‌يمًا ﴿٢٣ وَاخفِض لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّ‌حمَةِ وَقُل رَ‌بِّ ار‌حَمهُما كَما رَ‌بَّيانى صَغيرً‌ا ﴿٢٤ رَ‌بُّكُم أَعلَمُ بِما فى نُفوسِكُم ۚ إِن تَكونوا صـٰلِحينَ فَإِنَّهُ كانَ لِلأَوّ‌ٰبينَ غَفورً‌ا ﴿٢٥ وَءاتِ ذَا القُر‌بىٰ حَقَّهُ وَالمِسكينَ وَابنَ السَّبيلِ وَلا تُبَذِّر‌ تَبذيرً‌ا ﴿٢٦ إِنَّ المُبَذِّر‌ينَ كانوا إِخو‌ٰنَ الشَّيـٰطينِ ۖ وَكانَ الشَّيطـٰنُ لِرَ‌بِّهِ كَفورً‌ا ﴿٢٧وَإِمّا تُعرِ‌ضَنَّ عَنهُمُ ابتِغاءَ رَ‌حمَةٍ مِن رَ‌بِّكَ تَر‌جوها فَقُل لَهُم قَولًا مَيسورً‌ا ﴿٢٨ وَلا تَجعَل يَدَكَ مَغلولَةً إِلىٰ عُنُقِكَ وَلا تَبسُطها كُلَّ البَسطِ فَتَقعُدَ مَلومًا مَحسورً‌ا ﴿٢٩ إِنَّ رَ‌بَّكَ يَبسُطُ الرِّ‌زقَ لِمَن يَشاءُ وَيَقدِرُ‌ ۚ إِنَّهُ كانَ بِعِبادِهِ خَبيرً‌ا بَصيرً‌ا ﴿٣٠ وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم خَشيَةَ إِملـٰقٍ ۖ نَحنُ نَر‌زُقُهُم وَإِيّاكُم ۚ إِنَّ قَتلَهُم كانَ خِطـًٔا كَبيرً‌ا ﴿٣١ وَلا تَقرَ‌بُوا الزِّنىٰ ۖ إِنَّهُ كانَ فـٰحِشَةً وَساءَ سَبيلًا ﴿٣٢ وَلا تَقتُلُوا النَّفسَ الَّتى حَرَّ‌مَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظلومًا فَقَد جَعَلنا لِوَلِيِّهِ سُلطـٰنًا فَلا يُسرِ‌ف فِى القَتلِ ۖ إِنَّهُ كانَ مَنصورً‌ا ﴿٣٣ وَلا تَقرَ‌بوا مالَ اليَتيمِ إِلّا بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ حَتّىٰ يَبلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوفوا بِالعَهدِ ۖ إِنَّ العَهدَ كانَ مَسـٔولًا ﴿٣٤ وَأَوفُوا الكَيلَ إِذا كِلتُم وَزِنوا بِالقِسطاسِ المُستَقيمِ ۚ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٣٥ وَلا تَقفُ ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ ۚ إِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ‌ وَالفُؤادَ كُلُّ أُولـٰئِكَ كانَ عَنهُ مَسـٔولًا ﴿٣٦ وَلا تَمشِ فِى الأَر‌ضِ مَرَ‌حًا ۖ إِنَّكَ لَن تَخرِ‌قَ الأَر‌ضَ وَلَن تَبلُغَ الجِبالَ طولًا ﴿٣٧ كُلُّ ذ‌ٰلِكَ كانَ سَيِّئُهُ عِندَ رَ‌بِّكَ مَكر‌وهًا ﴿٣٨ذ‌ٰلِكَ مِمّا أَوحىٰ إِلَيكَ رَ‌بُّكَ مِنَ الحِكمَةِ ۗ وَلا تَجعَل مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ‌ فَتُلقىٰ فى جَهَنَّمَ مَلومًا مَدحورً‌ا ﴿٣٩(پ15 ع4)

’’تمہاے پروردیگار کا قطعی حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت  مت کرو۔ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔دیکھو اگر تمہاری زندگی میں و ہ دونوں یا ان میں سے ایک بڑھاپے کو پہنچے (اورتمہاری خدمت کا محتاج ہو) تو خدمت بجالاتے ہوئے ان کو (ہوں) بھی نہ کہو بلکہ عزت کے ساتھ ان کے ساتھ خطاب کیا کرو۔اور اپنی جوانی کے بازو نرمی کے ساتھ ان کے سامنے جھکا دیا کرو۔اور ان کےلئے خدا سے دعا کیا کرو۔خداوند ان دونوں نے  میری صغر سنی میں جس طرح مجھے محبت سے پالا تھا اسی طرح تو ان پر مہربانی کی نظر کر(لوگوں کے دیکھاوے کےلئے کرو گے تو سنو)  تمہارا رب تمہارے دلوں کے  بھیدوں کو بھی خوب جانتا ہے۔اگر تم واقعی نیک ہو گے تو وہ بھی نیک لوگوں کے حق میں بخشتا رہے گا۔ اور سنو باپ کے سوا قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کے حقوق بھی دیا کرو۔(یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کرو) اور اپنی خواہشات نفسانیہ میں فضول خرچی مت کیاکرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے ساتھی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔اگر کوئی ایسا موقع آجائے۔کہ  تم با وجہ رکاوٹ آمدنی کے ان مذکورہ لوگوں کو مالی امداد نہ دے سکو۔ اور آمد کے انتظار میں  ان لوگوں کی امداد میں توقف کرنا چاہتے ہو تو ان کو آسان اور نرم بات کہا کرو۔(تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو)اور ایک اصولی حکم کے متعلق خبرات سنو ( کہ نہ تو خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ کو بالکل بند رکھو نہ بالکل کھلا چھوڑ دیا کرو۔(اگر   یہ مصرعہ ورد زبان کر نے لگو اگر مر رہے ہو تو کوڑی نہ رکھ کفن کو)ورنہ تم پھر شرمندہ  عاجز درماندہ ہو رہو گے۔(خیر کے کاموں میں خرچ کرنے میں تم کو بخل غالب آئے تو سنو)تمہارا پروردیگار جس کو چاہتا ہے فراخ رزق دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔وہ اپنے بندوں کے حال سے واقف ہے اور دیکھتا ہے۔اور سنو! اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہ کیا کرو۔(جیسے عرب کے لوگ اسلام سے پہلے اپنی لڑکیوں کو قتل کیا کرتے تھے۔)ہم (خدا )ہی ان کو رزق دیں گے۔اور تم کو بھی ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے۔اور سنو زنا کاری اور بدکاری کے قریب بھی  نہ جانا کیونکہ یہ بے حیائی کا کام ہے۔اور بہت ہی برا راستہ ہے۔اور سنو کسی نفس کو مت قتل کرو جس کا قتل کرنا خدا نے حرام کیا ہو۔ جو کوئی مظلومی کی حالت میں قتل ہوگا۔ ہم اس کے وارثوں  کو ڈگری دلوایئں گے مگر وہ وارث بھی قتل کرنے میں جلدی نہ کریں۔(شاید باہمی کسی نوع کی مصالحت ہوجائے۔) اس میں شک نہیں کے سرکار سے اس کی مدد کی جائے گی۔اور سنو یتیم جب تک نابالغ رہے اس کے مال کے نزدیک  بھی مت جائو اس طرح جائو کہ اس کے حق میں بہتر ہو۔(مثلا اس کو تجارت وغیرہ میں لگائو) اور وعدہ وفائی کیاکرو بے شک وعدے کے متعلق سوال ہوگا۔(کہ کیوں پورا نہیں کیا)اور سنو جب تم دوکانداری کی حالت میں سودا فروخت کرو تو ناپ پورا دیا کرو۔اور وزن سیدھی ترازو سے کیا کرو۔یہ تہمارے حق میں بہتر ہے۔(اور  اصول تجارت کے لہاظ سے بھی ) انجام کار اچھا ہے۔اور ایک ضروری حکم سنو! جس کے  خلاف کرنے سے دنیا میں فساد عظیم ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جس بات کا تمھیں پختہ علم ہی نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو۔یعنی محض خیالات اور توہمات پر کسی قوم یا شخص کی برائی کی اشاعت نہ کیا کرو۔سنو کانوں آنکھوں اور دل اسی طرح اور اعضاء کی بابت تم سے سوال  ہوگا۔ان کو کہاں استعمال کیا تھا اور سنو زمین میں متکبرانہ روش ملت چلو تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ لمبائی میں پہاڑ تک پہنچ سکتے ہو۔ یہ مذکورہ بالا احکام تمہارے رب کے نزدیک بہت برے ہیں سنو۔ یہ حکمت ایمانیہ ہے جو تمہارے رب نے تم کو دی ہے۔ اور ان سب کے لئے مقطع کلام یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود مت بناؤ۔ورنہ ذلیل و خوار کر کے تم جہنم میں ڈالے جائو گے۔‘‘

یہ ہے وہ  تعلیم جو قرآن مجید نے تہذیب نفس کےلئے بتائی ہے۔ کہ کس قددر جامع تعلیم ہے چونکہ قرآن مجید کی غرض ہی یہ ہے کہ انسان کی اصلاح نفس مکمل ہو اس لئے اس نے  تعلیم کی کئی طرزیں اختیار کی ہیں۔ایک تو یہی جو اوپر زکر ہوئی ہے جس میں ھکمی الفاظ کے ساتھ ہدایت دی جاتی ہے۔جس کو میں اپنے لفظوں میں ریڈر کہتا ہوں۔دوسری تصویری تعلیم ہے جس کو آج کل کی تعلیمی اصطلاح میں پکچر کہتے ہیں۔قرآن مجید نے بھی یہ طرز اختیار کیا بلکہ خود جاری کیا ہے۔ مگر دوسری طرح سے وہ یہ کہ نیک بندوں کی نیک خصلتیں بغیر ان کا نام لینے کے زکر کرتا ہے۔جس سے مقصود تصویری تعلیم دینا ہے‘‘ چنانچہ ارشاد ہے۔

وَعِبادُ الرَّ‌حمـٰنِ الَّذينَ يَمشونَ عَلَى الأَر‌ضِ هَونًا وَإِذا خاطَبَهُمُ الجـٰهِلونَ قالوا سَلـٰمًا ﴿٦٣ وَالَّذينَ يَبيتونَ لِرَ‌بِّهِم سُجَّدًا وَقِيـٰمًا ﴿٦٤ وَالَّذينَ يَقولونَ رَ‌بَّنَا اصرِ‌ف عَنّا عَذابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذابَها كانَ غَر‌امًا ﴿٦٥ إِنَّها ساءَت مُستَقَرًّ‌ا وَمُقامًا ﴿٦٦ وَالَّذينَ إِذا أَنفَقوا لَم يُسرِ‌فوا وَلَم يَقتُر‌وا وَكانَ بَينَ ذ‌ٰلِكَ قَوامًا ﴿٦٧وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ‌ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّ‌مَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ وَمَن يَفعَل ذ‌ٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ﴿٦٨ يُضـٰعَف لَهُ العَذابُ يَومَ القِيـٰمَةِ وَيَخلُد فيهِ مُهانًا ﴿٦٩ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ﴿٧٠ وَمَن تابَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَإِنَّهُ يَتوبُ إِلَى اللَّهِ مَتابًا ﴿٧١ وَالَّذينَ لا يَشهَدونَ الزّورَ‌ وَإِذا مَرّ‌وا بِاللَّغوِ مَرّ‌وا كِر‌امًا ﴿٧٢ وَالَّذينَ إِذا ذُكِّر‌وا بِـٔايـٰتِ رَ‌بِّهِم لَم يَخِرّ‌وا عَلَيها صُمًّا وَعُميانًا ﴿٧٣ وَالَّذينَ يَقولونَ رَ‌بَّنا هَب لَنا مِن أَزو‌ٰجِنا وَذُرِّ‌يّـٰتِنا قُرَّ‌ةَ أَعيُنٍ وَاجعَلنا لِلمُتَّقينَ إِمامًا ﴿٧٤(پ19ع2

 ترجمہ’’۔خدا کے مہذہب بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم روش سے چلتے ہیں۔(یعنی بنی نوع انسان کے ساتھ نرم برتائو کرتے ہیں۔) اور جب نا اہل لوگ ان سے سامنا کرتے ہیں۔تو وہ سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں۔اور وہ لوگ خدا کے مہذب بندے ہیں۔ جو راتوں کو خدا کے سانے عبادت کرتے ہوئے سجدے اور قیام میں گزارتے ہیں۔جو خدا سے دعا مانگتے ہوئے کہتے ہیں اے خدا ہمارے رب تو ہم سے جہنم کا عذاب ہٹائے رکھ اس کا عذاب بری بلا ہے۔اور وہ بری جگہ ہے اور خدا کے مہذب بندے وہ ہیں جن کی عادت ہے کہ  جب کسی نیک کا میں خرچ کرتے ہیں تو سارا نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں۔بلکہ ان کی روش اعتدال سے ہوتی ہے۔ اور وہ لوگ خدائے رحمان کے مہذب بندے ہیں جو اپنے رب کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی جان کو بے جا قتل نہیں کرتے۔ اور نہ زنا کاری کرتے ہیں جو کوئی یہ کام کرے گا وہ بڑی مصیبت میں  مبتلا ہوگا۔اور اس کو قیامت کے روز بہت بڑا عذاب ہوگا۔ جس میں وہ ذلیل وخوار ہو کر پھنسا رہے گا۔ ہاں رحمت الہٰہی کا تقاضا یہ  ہے کہ جو کوئی ان برایئوں سے توبہ کر کے خدا پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔اللہ تعالیٰ (اپنی رحمت کے تقاضا سے) ایسے لوگوں کی برایئوں کو نیکیوں میں بدل دے گا۔کیونکہ اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اور بھلا توبہ کیوں قبول نہ ہو جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ جو کوئی خوف خدا کی وجہ سے برائی سے ہٹتا ہے۔وہ تو اللہ کی طرف جھکتا ہے۔(پھر یہ کیا نظر رحمت ہے کہ خدا کے بندوں کے جھکنے پر بھی نظر رحمت نہ کرے۔) اور مہذہب بندے وہ ہیں جو بے حودہ مجالس میں شریک نہیں ہوتے۔اور جب کبھی ان کو لغو بات پر سے گزرنا پڑتا ہے۔تو عزت کے ساتھ بچ کر نکل جاتے ہیں۔اور وہ لوگ مہذب ہیں جب اللہ کے ااحکام ان کو سنائے جاییں تو بہرے ہو کر نہیں سنتے۔اور آیات قدرت سمجھائی جایئں تو اندھے ہو کر نہیں دیکھتے۔ بلکہ شنوا اور بینا ہوکر  سنتے اور دیکھتے ہیں۔اور سنو وہ لوگ مہذب ہیں جو اپنے نفس کی تہذیب کے سوا اپنے متعلقین کے حق میں( بھی یہی خواہ نیک سگاں رہتے ہوئے کہتے ہیں۔اے ہمارے رب تو ہم کو ہماری بیویوں اور اولادوں (کو ایسا نیک بنا ان کی طرف) سے ہم کو  آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کر او ر ہم کو اعلیٰ درجہ کا پرہیز گار بنا‘‘آمین

یہ ہے قرآن مجید کی  تصویری تعلیم جو بٖغرض اصلاح نفس وہ دیتا ہے۔

ریڈر کا ایک حصہ قابل زکر رہ گیا ہے۔جس میں نہایت اختصار کے ساتھ قرآ ن مجید نے تہذہب نفس کے احکام جاری فرمائے ہیں۔ چنانچہ ارشاد  ہے۔

وَاعبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشرِ‌كوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا وَبِذِى القُر‌بىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينِ وَالجارِ‌ ذِى القُر‌بىٰ وَالجارِ‌ الجُنُبِ وَالصّاحِبِ بِالجَنبِ وَابنِ السَّبيلِ وَما مَلَكَت أَيمـٰنُكُم ۗ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَن كانَ مُختالًا فَخورً‌ا ﴿٣٦

’’اللہ کی عبادت کیا کرو اور اس کے ساتھ ہی کسی کو شریک نہ کیا کرو۔او ر والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کرو۔اور قرابت داروں ۔یتیموں ۔مسکینوں۔ قریبی ہمسایوں۔دور کے  پڑوسیوں سے بھی حسن سلوک کیا کرو۔ اور (سنو جو کسی سفر میں کسی مجلس میں یا  گاڑی میں اور ٹرین میں) جو تمہارے پہلو کے ساتھ بیٹھا ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آیا کرو۔مسافروں اور ماتحتوں کے ساتھ احسان کیا کرو سنو جو ایسے کام نہ کرے وہ متکبر اور بد اخلاق ہے۔اور  خدا کو ایسے متکبر اور بد اخلاق نہیں بھاتے‘‘

ایسی جامع تعلیم پر بھی انسان عمل نہیں کرتے کیونکہ انسان فطرتا ایسا ہے۔ کہ اس کو محض زبانی نصیحت کار گر نہیں ہوتی۔ بلکہ بسا اوقات اس کی اصلاح کےلئے سیاست اور تعزیرات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ کسی پنجابی عارف خدا کا شعر ہے۔

چار کتاباں  عرشوں آیئاں پنجواں آیا ڈنڈا ڈنڈے باجوں بھجدا نایئں بے دینی دا کنڈا

یعنی چار کتابوں کے ساتھ سیاست کا قانون بھی خدا نے نازل فرمایا ہے۔تاکہ سخت دل لوگوں کو اس سیاست سے سیدھا کیا جائے۔قرآن مجید چونکہ بانی فطرت  کی طرف سے ہے۔جو انسانوں کی فطری عادات سے پوری طرح واقف ہے۔اس لئے اصلاحی احکام بصورت تعزیرات بھی اس میں آئے ہیں۔کیونکہ قرآن مجید اپنے اتباع کو مطلع کرتا ہے۔کہ جو میری کامل پیروی کرے گا۔بس خدا کی طرف سے اس دنیا کی سب سے اعلیٰ عزت دلوانے کا اعلان کرتا ہوں۔جس کا نام حکومت ہے۔چنانچہ ارشاد ہے۔

وَلا تَهِنوا وَلا تَحزَنوا وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿١٣٩

اسی اصول سے قرآن مجید میں زانیوں اور چوروں اور ڈاکووں کی تعزیرات بھی آیئں ہیں۔تاکہ ان کی تعزیرات کا اثر دوسروں پر بھی پڑے اور لوگ ان  تعزیرات کے خلاف سے اصلاح نفس پر  متوجہ ہوں۔ ان تعزیری اصلاحوں کا زکر میں نے اپنے رسالہ ''اسلام اور برٹش لا''میں مفصل کیا ہے۔

گزشتہ حکایات

لفظی اور تصویری  تعلیم کے علاوہ تیسری قسم کی تعلیم جو قرآن مجید نے ا خیتار کی ہے۔ وہ واقعات صحیحہ ہیں گزشتہ زمانہ تک نیک اور بد لوگوں کے قصے بھی اس ٖغرض سے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔کہ لوگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ

از مکافات عمل غافل مشو          گندم از گندم بروید جوزجو

چنانچہ ارشاد ہے۔فَاقصُصِ القَصَصَ لَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ﴿١٧٦(پ 9 ع 12)

ترجمہ’’اے ہمارے نبی آپ لوگوں کو واقعات گزشتہ سنایئے کہ ہ لوگ  نیک و بد نتائج پ غو ر کریں۔‘‘

باوجودہ قسم کی تفصیلات کے ان سب کا اختصار بھی کمال پر درجہ پر کر کے بنیادی اصول سامنے رکھ دیا جس کی تمہید یہ ہے۔

''کون نہیں جانتا دنیا میں جتنے فساد جتنے جرائم۔ جتنے مقدمات ۔جتنی سزایئں ہیں۔سب کی بناء ایک ہی ہے۔ جس کو لالچ اور طمع نفسانی کہنا چاہیے چور چوری کرتا ہے تو اس لئے ۔ڈاکو ڈاکہ مارتا ہے تو اس لئے۔غرض ہر کام  میں موزی جلوہ نمائی کر  رہا ہے۔اس بنیادی اصول پر اطلاع دینے کو فرمایا ہے،۔

وَأُحضِرَ‌تِ الأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ .... ﴿١٢٨(پ5 ع 12)

’’یعنی ہر نفس کو اپنا لالچ ہے۔‘‘

جس طرح مرض کا زکر مختصر لفظوں میں کیا علاج بھی مختصر فرمایا۔

وَمَن يوقَ شُحَّ نَفسِهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٩(پ 28 ع4)

’’یعنی جو کوئی اپنے نفس کے لالچ سے بچ جایئں پس وہی حق دار نجات ہوں گے۔''

اس کے علاوہ انسانی فرائض عبادات اخلاق وغیرہ۔کی ہر شاخ کو قرآن مجید نے بالتفصیل بیان کیا ہے۔مگر میں وقت کی پابندی سے  تفصیل عرض نہیں کر سکتا۔ہاں جو صاحب ان قرآنی مضمون کو مفصل دیکھنا چاہیں وہ میری ناجیز تصنیفات ''القرآن العظیم''تعلیم القرآن''الہامی کتاب''(وید اور قرآن کا مقابلہ)اور ''تقابل ثلاثہ' (توریت۔انجیل۔اور قرآن کا مقابلہ)ملاحظہ کریں۔

یہ مقصد جو میں نے بیان کیا ہے۔ تہذیب النفس در اصل در اصل مقصد اصل نہیں بلکہ ذریعہ ہے مقصد اصل کا مقصد اصل نجات ہے۔مگر  تہذیب انفس اصول کے لئے ذریعہ خاص ہے۔چنانچہ ارشاد ہے۔

تِلكَ الجَنَّةُ الَّتى نورِ‌ثُ مِن عِبادِنا مَن كانَ تَقِيًّا ﴿٦٣(پ16ع7)

’’یعنی جنت (نجات )کے وارث ہم(خدا)ان لوگوں کو کریں گے جو پرہیز گار ہوں گے۔‘‘

دوسرے مقام پراس سے زرا زیادہ الفاظ ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے۔

  تِلكَ الدّارُ‌ الءاخِرَ‌ةُ نَجعَلُها لِلَّذينَ لا يُر‌يدونَ عُلُوًّا فِى الأَر‌ضِ وَلا فَسادًا ۚ وَالعـٰقِبَةُ لِلمُتَّقينَ ﴿٨٣(پ20ع12

’’یعنی نجات ان لوگوں کی ہوگی جو زمین پر تکبر اورفسادکرنا نہیں جانتے۔‘‘

بس مذہبیت سے یہ دو مقصد ہیں ایک تہذہب نفس جو ذریعہ ہے دوسرے اصلی مقصد کا جس کا نام نجات یہی اصل مقصود ہے۔چنانچہ ارشاد ہے۔

فَمَن زُحزِحَ عَنِ النّارِ‌ وَأُدخِلَ الجَنَّةَ فَقَد فازَ ۗ وَمَا الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتـٰعُ الغُر‌ورِ‌ ﴿١٨٥

’’(کامیاب ہے)جو کوئی عذاب آخرت سے بچ کر (راہ نجات) جنت میں داخل ہوگا۔‘‘

چونکہ میں قرآن مجید کو اپنا بلکہ جملہ انسانوں کا کامل ہدایت نامہ جانتا ہوں۔ اس لئے اپنا اعتقاد دو شہروں میں ظاہر کر کے بعد سلام رخصت ہوتا ہوں۔

جمال حسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے۔       قمر ہے چاند اور دل کا ہمارا چاند قرآن ہے۔

نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا        بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پا ک رحماں ہے۔

(4 جنوری 1924ء؁خادم اسلام۔ابو الوفاء ثناء اللہ  ایڈیٹر اہل حدیث امرتسر)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 74-86

محدث فتویٰ

تبصرے