کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پختہ بنانا قبر کا چونہ اور اینٹ اور پتھر وغیرہ سے درست ہے یا نہیں اور بلند قبر کا پست کردینا درست ہے یا نہیں اور جو قبریں کہ پتھر سے سنگین اور پختہ بنائی گئی ہوں ان سے پتھروں کا علیحدہ کرنا اور ان کا بیع کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ۔ بینوا توجروا
پختہ بنانا قبر کا اینٹ اور پتھر وغیرہ سے درست نہیں ہے اور بلند قبروں کا جوایک بالشت سے زیادہ بلند ہوں پست کرنا درست ہے۔ یہاں تک کہ بقدر ایک بقدر ایک بالشت کے بلندی باقی رہ جائے اور جو قبریں کہ پتھر سے سنگین اور پختہ بنائی گئی ہوں ان کو منہدم کرکے پتھر علیحدہ کرلینا درست ہے اور چونکہ وہ پتھر متعلق قبر سے نہیں ہے اس لیے اس کا بیع کرنا شرعاً درست ہے۔
(ترجمہ فارسی عبارت) ’’ رسول اللہ ﷺ نے قبر پختہ بنانے اور قبر پر عمارت بنانے سے منع فرمایا، اور عمارت خواہ اینٹ اور لکڑی کی ہو یا خیمہ وغیرہ دونوں منع ہیں۔ (مشکوٰۃ و شرح مشکوٰۃ اشعۃ اللمعات ) قبر کو پختہ بنانا اور اس پر زیب و زینت کرنا منع ہے۔ حسن بصری کچی مٹی سے قبر کو لیپنے کی اجازت دیتے تھے۔ امام شافعی کا بھی مذہب ہے ۔ فقہ کی کتاب خانیہ میں ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور قبر پر کتبہ لکھ کر لگانا مکروہ ہے اور پختہ اینٹ اور لکڑی کو قبر کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرنا مکروہ ہے کیونکہ قبر فنا کی جگہ ہے ۔بدائع اور مستخلص وغیرہ میں ہے کہ قبر پر پختہ اینٹ اور لکڑی استعمال کرنا مکروہ ہے۔ کیونکہ نبی ﷺ نے قبروں کو آبادی کی طرح بنانے سے منع فرمایا ہے اور لکڑی اور اینٹ آبادی کے لیے ہیں مردے کو ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہی کا اصل حرمت ہے جب کہ اصول فقہ کی کتابوں میں ذکر ہے ۔ بحر الرائق میں ہے کہ قبر کوہان نما بنائیں جائے اور ایک بالشت کا اندازہ زمین سے بلند رکھی جائے۔ابوالہیاج اسدی نے کہا کہ مجھ کو حضرت علیؓ نے فرمایا کیا میں تجھ کو اس ملازمت پر مقرر نہ کردوں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو مقرر کیا تھا جہاں کوئی تصویر دیکھو اسے مٹا ڈالو اور جہاں کوئی قبر بالشت سے بلند دیکھو اس کو ایک بالشت کے برابر کردو۔‘‘ (سیدمحمد نذیر حسین)