سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(225) عورت کے جنازہ میں تابوت بنانا کہیں ثابت ہے ؟

  • 5732
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1369

سوال

(225) عورت کے جنازہ میں تابوت بنانا کہیں ثابت ہے ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورت کے جنازہ میں تابوت بنانا کہیں ثابت ہے یا نہیں ۔ بعض مولویوں نے ایک عورت کے جنازہ پر تابوت کو توڑ وا دیا اور ناجائز بتایا اور وقت دفن کرنے کے قبر میں چادر سے پردہ کرناثابت ہے یا نہیں ۔ بینواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 (ترجمہ عربی عبارت)  ’’نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا قیامت کے دن اس کی اللہ پردہ پوشی کرے گا‘‘ اس میں ترغیب ہے کہ مسلمان کے نقائص کی پردہ پوشی کرنا چاہیے خواہ زندہ ہو یا مردہ۔ اس عموم میں یہ بھی داخل ہے جو غسل دینے والامیت کی شرم گاہ وغیرہ کو دیکھتا ہےمکروہ ہےاس کا حال بیان کرنا ۔عورت کےجنازہ میں امام کا وسط میں کھڑا ہونا بھی اسی لیے ہے کہ عورت کی پردہ پوشی ہو بخلاف مرد کے اور عورتوبں کے لیے تابوت بن جانے سے پردہ کاانتظام تو ہوگیا اب درمیان میں کھڑا ہونا ضروری معلوم نہیں  ہوتا۔‘‘

’’مرد کے جنازہ میں سر کے مقابل امام کھڑا ہوتا کہ اس کی شرم گاہ پر اس کی نظر نہ پڑے  بہ خلاف عورت کے کہ اس کی کمر کےمقابل کھڑا ہو کیونکہ وہ عموماً تابوت میں ہوتی ہے اور اس کے وسط میں کھڑا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی آنکھوں سے امام  آڑ بن جائے۔ حضرت انس نے ایک جنازہ پر نماز پڑھائی اس کے سر کے مقابل کھڑے ہوئے اور ایک جنازہ آیا اس کا  سبز رنگ کاتابوت تھا آپ  اس کے وسط میں کھڑے ہوئے  علاء بن زیاد نے پوچھا اے ابوحمزہ کیا رسول اللہﷺ جنازہ پراسی طرح نماز پڑھایا کرتے تھے کہنے لگے۔ ہاں۔‘‘

اور نیل الاوطار میں نسبت حدیث ابوداؤد کے لکھا ہے :الحدیث الثانی حسنہ الترمذی و سکت عنہ ابوداؤد والمنذری والحافظ فی التلخیص و رجال اسنادہ ثقات اور مولوی وحیدالزمان ترجمہ ابوداؤد میں تحریرکرتے ہیں ترجمہ نافع سے جن کی کنیت ابوغالب ہے، روایت ہے سکۃ المرید (ایک موضع ہے)میں تھااتنے میں ایک جنازہ نکلا اس کے ساتھ بہت لوگ تھے لوگوں نے کہا عبداللہ بن عمر کا جنازہ ہے یہ سن کر میں بھی اس کے پیچھے چلا تو میں نے ایک شخص کو دیکھا باریک کمبل اوڑھے ہوئے ایک چھوٹی راس کےگھوڑے پر سوار ہے اور اپنے سر پر ایک کپڑے کاٹکڑا دھوپ سے بچاؤ کےلیے ڈالے ہوئے ہے ، میں نےپوچھا زمیندار کون ہے لوگوں نے کہا انس بن مالک ہیں (جنہوں نےدس برس تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی 92 یا 93 میں ان کا انتقال ہوا اور سو سے زیادہ ان کی عمر ہوئی، جب جنازہ رکھا گیا تو انس کھڑے  ہوئے اور انہوں نے نماز پڑھائی میں ان کے پیچھے تھا میرے اور ان کےبیچ میں کچھ آڑ نہ تھی انہوں نے چار تکبیریں کہیں نہ بہت دیر میں نماز پڑھی نہ جلدی پھر جانے لگے  بیٹھنے کو لوگوں نےکہا اے ابا حمزہ (کنیت ہے حضرت انس کی) یہ عورت انصاریہ کا جنازہ ہے پھر اس کو نزدیک لائے اور وہ ایک سبز تابوت میں تھی تو انس کھڑے ہوئے اس کے کولے کے سامنے (یعنی سر کے سامنے کھڑے نہیں  ہوئے جیسے مرد کے سر کے مقابل کھڑے ہوئے) پھر نماز پڑھی اس پر اسی طرح جیسے مرد پر نماز پڑھی تھی بعد اس کے بیٹھے تو علاء بن زیاد نے کہا : اے ابا حمزہ کیارسول اللہ ﷺ جنازہ پر اسی طرح نماز پڑھتے تھے جیسے تم نے پڑھی اور چار تکبیریں کہتے تھے اور مرد کے سر کے سامنے کھڑے ہوتے تھے اور عورت کےکولے کے سامنے، انس نے کہا ہاں۔ رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے اور اسی مقاموں پر کھڑے ہوتے تھے اور اسد الغابہ میں تحت احوال زینب بن جحش کے لکھا ہے: وصلی[1] علیہا عمر بن الخطاب و دخل قبرھا اسامۃ بن زید و محمد بن عبداللہ بن جحش و عبداللہ بن ابی احمد بن جحش قیل ھی اوّل امرأۃ صنع لھا النعش و دفنت بالبقیع انتھی اور تحت احوال فاطمہ ؓ کے لکھا ہے:

(ترجمہ عربی عبارت) ’’ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو اسماء بن عمیس سےکہاجو کچھ عورتوں کے متعلق کہا جاتا ہے میں تو اس کو بُراسمجھتی ہوں کہ عورت پرایک کپڑا سا ڈال دیتے ہیں اور پھر لوگ اس کی باتیں کرتے رہتے ہیں (میت بھاری تھی، ہلکی تھی، فلاں عورت بڑی موٹی تھی وغیرہ وغیرہ) اسماء نے کہااے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی میں تجھے ایک چیز دکھلاتی ہوں جو میں نے حبشہ کے علاقہ میں دیکھی تھی اس کھجور کی تازہ شاخیں منگائیں ان کوجھکایا اور اس پرکپڑا ڈال دیا حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا یہ چیز تو بہت اچھی ہے جب میں مرجاؤں تو مجھے تو اور علی دونوں مل کر غسل دے دینا اور کسی دوسرے کو قریب نہ آنے دینا جب فاطمہ ؓ فوت ہوگئیں تو حضرت عائشہؓ آئیں۔ اسماء نے ان کو روک دیا ۔ حضرت عائشہؓ نے ابوبکرؓ کے پاس شکایت کی کہ یہ خثعمی عورت  ہمیں رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے پاس نہیں  جانے دیتی تو ابوبکر نے دروازہ پر کھڑے ہوکر فرمایا اے اسماء تو نبیﷺ کی بیویوں کو فاطمہؓ کے پاس جانے سے کیوں روکتی ہے اور اسماء نے فاطمہؓ کے لیے تابوت بنایاتھا اسماء نے کہا فاطمہؓ ہی وصیت کر گئی تھیں کہ کسی کو میرے پاس نہ آنے دینا اورمجھے تابوت بنانے کا حکم بھی  دیا تھا۔ ابوبکرؓ نے کہا۔ اچھا بناؤ۔ پھر حضرت علیؓ اور اسماءؓ نے فاطمہ ؓ کوغسل دیا یہ سب سے پہلی عورت تھی جس کی لاش اسلام میں ڈھانپی گئی پھر اس کے بعد زینب بنت جحش کی لاش ڈھانپی گئی پھر فاطمہ کاجنازہ حضرت علی ؓ نے پڑھا بعض کہتے ہیں کہ حضرت عباسؓ نے پڑھایا تھا اور فاطمہ وصیت کرگئی تھیں کہ ان کورات کے وقت دفن کیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ان کی قبر میں حضرت علیؓ، عباس ؓاور فضل بن عباس ؓاترے آپ کی وفات 3 رمضان 11ہجری کو ہوئی۔‘‘

امام نووی نے منہاج میں کہا۔ مستحب ہے کہ عورت کے لیے تابوت بنا دیا جائے تاکہ اس کی پردہ پوشی ہوجائے ابن حجر مکی نے کہا اُم المؤمنین زینبؓ نے اپنے لیے تابوت بنانے کی وصیت کی تھی کیونکہ  وہ ہجرت حبشہ میں وہاں تابوت دیکھ آئی تھیں۔بیہقی نےکہا، حضرت فاطمہؓ نے اپنے لیے تابوت بنانے کی وصیت کی۔ حضرت سعد بن معاذ کو جب دفن کیاجانے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیاکہ قبر پرپردہ کرلو چنانچہ ایک چادر پھیلا دی گئی۔ جب قیس کو دفن کیاجانے لگے تو ان کی قبر پر چادر پھیلائی گئی۔  حضرت علیؓ آئے اور چادر کو کھینچ لیا اور فرمایا عورتوں پر پھیلائی جاتی ہے۔‘‘

 ان سب عبارات سے صاف ظاہر ہوا کہ اجلہ اصحاب کرام جیسے حضرت انس و حضرت ابوبکر و حضرت عمر و حضرت علی و حضرت عباس و جم غفیر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کےسامنے ایسا جنازہ کہ جس پر تابوت تھا سبھوں نے نماز جنازہ خوشی سے ادا کی اور حضرت فاطمہؓ کی وصیت ہوئی ۔ واسطے بنانے تابوت کے اور  قبیح سمجھا بغیرتابوت کے ہونے کو چنانچہ بعد وفات آپ کے حسب وصیت کے عمل سامنے جمیع صحابہ  کے کیا گیا اور نیز حضرت زینب اُم المؤمنین زوجہ  رسول اللہ ﷺ کے جنازہ پر تابوت تھا اور حضرت عمرؓ جیسے صحابی ماحی المنکرات نے نماز بخوشی پڑھائی تھی اور قسطلانی اور فتح الباری کی عبارت سے ظاہر ہوا کہ اسلام میں دستور  تابوت کا تھا اور تلخیص کی عبارت سے ظاہر ہوا کہ عورت کے دفن کرنے کے وقت چادر کا پردہ کرنا چاہیے اور بہت کتب میں اس کاثبوت موجو دہے۔ اہل سنت کے لیے اس قد رکافی ہے پس باوجود ایسے ثبوت کے کون انکار کرسکتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ سنت صحابہ کرام کاہوا موافق فرمودہ آنحضرتﷺ کے علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکوا بھا۔ اور اہل سنت اسی سبب سے اہل سنت والجماعت کے لقب سے ملقب ہوئے پس باوجود اتنے ثبوت کے جو کوئی انکار کرے وہ جاہل ہے عالم نہیں  یا اس میں مادہ رفض ہے کہ جنازہ مسلمین کی بے حرمتی چاہتا ہے حالانکہ آنحضرتﷺ کا حکم ہے۔ من [2]ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ۔ جیسا کہ اوپر گذرا۔ فی زماننا ابوداؤد کا ترجمہ ہوگیا ہے اس کوبھی جس نے دیکھا ہے کبھی ایسی بات زبان پر نہیں  لاسکتا سچ ہے حضرت نے فرمایا کہ بنائیں گے لوگ اپنا پیشوا جاہلوں کو پس پوچھے جائیں گے تو فتوے دیں گے بغیرعلم کے پس گمراہ ہوں گے اور گمراہ کریں گے۔ قال اتخذالناس رؤسا جھالا فسئلوا فافتوا بغیرعلم فضلوا واضلوا متفق علیہ  کذا فی مشکوٰۃ ۔ (سید محمد نذیر حسین)



[1]  ان پرعمر بن الخطاب نے نماز پڑھائی اور ان کی قبر میں اسامۃ بن زید اور محمد بن عبداللہ بن جحش اور عبداللہ بن ابی احمد بن جحش اترے۔کہا جاتا ہے  کہ یہ پہلی عورت تھی جس کے لیے تابوت بنایا گیا اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

[2]   جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو قیامت کے دن اللہ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 695

محدث فتویٰ

تبصرے