سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(218) سارق۔قرضدار۔ڈاکر۔ رہزن وغیرہ کا جنازہ پڑھنے کا حکم

  • 5725
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1205

سوال

(218) سارق۔قرضدار۔ڈاکر۔ رہزن وغیرہ کا جنازہ پڑھنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سارق۔قرضدار۔ڈاکر۔ رہزن وغیرہ کا جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عالمگیری میں ہے : ویصلی[1] علی کل مسلم مات بعد الولادۃ صغیرا کان اوکبیرا ذکرا کان اوانثی حراکان او عبدا الاالبقاۃ و قطاع الطریق ومن بمثل حالھم۔  اس سے ثابت ہوا کہ ڈاکو و رہزن و سارق وغیرہ پرنماز جنازہ نہیں  پڑھنی چاہیے،باقی رہا مقروض سو اس کے واسطے جناب رسول اللہ ﷺ نے خود نماز نہیں  پڑھی بلکہ صحابہؓ کو حکم دیا کہ پڑھ لو۔بلوغ المرام میں ہے: عن[2] ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یوتی بالرجل المتوفی علیہ  الدین فیسائل ھل ترک لدینہ من قضاء فان حدث انہ ترک وفاء صلی اللہ علیہ والاقال صلوا علی صاحبکم متفق علیہ۔ واللہ اعلم بالصواب                                                                           (سید محمد نذیرحسین)

ہوالموفق:

بغاۃ اور قطاع الطریق و امثالہم پر جنازہ کی نماز پڑھنے میں امت کا اختلاف ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان پر جنازہ کی نماز نہیں  پڑھنی چاہیے اور بعض کہتے ہیں کہ پڑھنی چاہیے مگر ظاہر یہ ہے کہ ہر مسلمان کلمہ گو پر جنازہ کی نماز پڑھنی چاہیے ہاں بغاۃ و قطاع الطریق وغیرہم فساق و فجار پرجنازہ کی نماز اہل علم و مقتدی لوگ نہ پڑھیں بلکہ اور لوگ پڑھ دیں اس بات کے ثبوت میں احادیث و عبارات مندرجہ ذیل پڑھو۔مشکوٰۃ شریف میں ہے:

عن [3] یزید بن خالد ان رجلا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توفی یوم خیبر فذکر والرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال صلوا علی صاحبکم فتغیرت وجوہ الناس لذلک فقال ان صاحبکم غل فی سبیل اللہ ففتشذا متاعہ فوجدنا خرز امن خرز یہود لا یساوی ...... رواہ مالک و ابوداؤد والنسائی  اور صحیح مسلم میں ہے: عن[4] جابر بن سمرۃ قال اتی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برجل قتل نفسہ بمشاقص علم یصل علیہ وفی روایۃ النسائی اما انا فلا اصلی علیہ اور بلوغ المرام میں ہے: وعن[5] ابن عمر رضی اللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلوا علی من قال لا الہ الا اللہ و صلوا خلف من قال لا الہ الا اللہ رواہ الدارقطنی باسناد ضعیف اس حدیث کے تحت میں  علامہ محمد بن اسمعایل سبل السلام  صفحہ 153 جلد1 میں لکھتے ہیں۔ وھو[6] دلیل علی انہ یصلی علی من قال کلمۃ الشھادۃ و ان لم یأت بالواحیات و ذھب الی ھذا زید بن علی واحمد بن عیسیٰ و ذھب الیہ ابوحنیفہ الا انہ استثنی قاطع الطریق والباغی وللشافعی اقوال فی قاطع الطریق اذا صلب والاصل ان من قال کلمۃ الشہادۃ فلہ ما للمسلمین و منہ صلوۃ الجنازۃ علیہ و یدل لہ حدیث الذی قتل نفسہ بمشاقص فقال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اما انا فلا اصلی علیہ و لم ینھھم عن الصلوۃ علیہ  ولان عموم شرعیۃ صلوۃ الجنازۃ لا یخص منہ احد من اھل کلمۃ الشھادۃ الا بدلیل انتہی اور نیل الاوطار صفحہ 261 جلد 3 میں ہے: قولہ [7] فقال صلوا علی صاحبکم فیہ جواز الصلوۃ علی العصاۃ واما ترک النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصلوۃ علیہ فلعلہ للزجر عن الغلول کما امتنع من الصلوٰۃ علی  المدیون وامرھم بالصلوٰۃ علیہ قولہ فلم یصلی علیہ فیہ دلیل لمن قال انہ لا یصلی علی الفاسق   وھم العترۃ وعمر ابن  عبدالعزیز والاوزاعی فقالوالا یصلی علی الفاسق تصریحا اوتاویلا و افقھم ابوحنیفہ و اصحابہ فی الباغی والمحارب روافقھم الشافعی فی قول لہ فی قاطع الطریق وذھب مالک والشافعی و ابوحنیفہ و جمہور العلماء الی انہ یصلی علی الفاسق واجابواعن حدیث جابر بان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما لم یصلی علیہ بنفسہ زجر اللناس وصلت علیہ الصحابۃ و یؤید ذلک ما عند النسائی بلفظ اماانا فلا اصلی علیہ و ایضاً مجرد الترک لو فرض انہ لم یصلی علیہ ھو ولا غیرہ لا یدل علی الحرمۃ المدعاۃ و یدل علی الصلوٰۃ علی الفاسق حدیث صلوا علی من قال لا الہ الا اللہ انتہی وقال صاحب المنتقی قال الامام احمد ما یعلم ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ترک الصلوٰۃ علیاحد الاعلیالغال و قاتل نفسہ انتہی ۔                واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفاء اللہ عنہ



[1]   ہرمسلمان پر نماز جنازہ پڑھی جائے جوزندہ پیدا ہونے کے بعد مرا ہو چھوٹا ہو یابڑا۔مرد ہو یا عورت آزاد ہو یاغلام ماسوائے باغیوں اور ڈاکوؤں اور ان جیسے لوگوں کے۔

[2]   رسول اللہ ﷺ کے پاس بعض ایسے جنازے لائے جاتے جن پر قرض ہوتا آپ پوچھتے کیا قرض ادا کرنے کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے یا نہیں ؟ اگر مال اتنا ہوتا جس سے قرض ادا ہوجائے تو اس پر نماز پڑھتے ورنہ فرماتے جاؤ اپنے دوست کا جنازہ پڑھو۔

[3]   صحابہ میں سے ایک آدمی خیبر کے دن شہید ہوگیا نبی ﷺ سے اس کاتذکرہ کیا آپ نے فرمایا جاکر اس کا جنازہ پڑھو لوگ اس سے بڑے غمگین ہوئے ،آپ نے فرمایا اسنے خیانت کی ہے۔ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں یہودیوں کی کچھ کوڑیاں نکلیں جو  دو درہم کی قیمت کی بھی نہیں  تھیں۔

[4]   نبیﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا اس نے خودکشی کی تھی تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا اور فرمایا میں اس کاجنازہ نہ پڑھوں گا۔

[5]   رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے لا الہ پڑھا اس کا جنازہ بھی پڑھو اور اس کے پیچھے نماز بھی پڑھ لو۔

[6]  یہ اس بات  کی دلیل  ہے کہ جو لا الہ الا اللہ کہے اس کا  جنازہ پڑھا جائے اگرچہ واجبات کاتارک ہو۔زید بن علی ۔ احمد بن عیسیٰ کا یہی مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہ ڈاکو اور باغی کے جنازہ کےقائل نہیں  ہیں۔ڈاکو کےمتعلق امام شافعی کے اقوال مختلف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جو بھی لاالہ الا اللہ کہے اس کو مسلمانوں کے تمام حقوق مل جاتے ہیں اور اس میں سے جنازہ کی نماز بھی ہے اور جس نے خودکشی کی تھی اس کا جنازہ آپ نے تو نہ پڑھا لیکن صحابہ کو منع نہ فرمایا اور پھر کلمہ پڑھنے والے کا جنازہ پڑھنا ہی ہے جب  تک کسی دلیل سے اس کا ناجائس ہونا ثابت نہ ہوجائے۔

[7]   اس سے گنہگاروں پر نماز جنازہ پڑھنے کاجواز ثابت ہوتا ہے اور آنحضرتﷺ کا خیانت کرنے والے اور مقروض کا جنازہ نہ پڑھنا توبیحاً و تنبیہاً ہے کیونکہ  اگر ان کاجنازہ  پڑھنا جائز نہ ہوتا تو آپ صحابہ کو بھی منع کردیتے اہل بیت اور عمر بن عبدالعزیز اور امام اوزاعی فاسق کاجنازہ پڑھنے کے قائل نہیں  ہیں۔ امام شافعی ڈاکو کے جنازے کےمنکر ہیں اور امام مالک و ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی اور جمہوری علماء فاسق کے جنازہ کےقائل ہیں ۔ ہاں امام ابوحنیفہ ڈاکو اور باغی کے جنازہ کے منکر ہیں اگر بالفرض آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام بھی مقروض اور خائن کا جنمازہ نہ پڑھتے تو بھی اس سے فاسق کے جنازہ کی حرمت ثابت نہ ہوتی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جو آدمی لا الہ الااللہ کہے اس کاجنازہ پڑھو امام احمد کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں  کہ انہوں نے خائن اور خود کشی کرنے والے کو سوا کسی اور کا جنازہ پڑھا ہو۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 679

محدث فتویٰ

تبصرے