کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آیا مردے کلام زندوں کا سنتے ہیں یا نہیں ، اگر سنتے ہیں تو کیادلیل ہے اور اگر نہیں سنتے تو کی دلیل ہے اس کو قرآن و حدیث سے بیان فرمائیں اورعنداللہ اجرجزیل پائیں۔
ہوالموفق للصواب جواب صورت مذکورہ کا یہ ہےکہ مردہ کلام نہیں سنتا اور نہ اس میں لیاقت سننے کی ہے جیسا کہ اس پرقرآن شریف شاہد عدل ہے۔ (ترجمہ) ’’ یا اس آدمی کی طرح جو ایک بستی پرگذرا وہ اپن چھتوں پرگری پڑی تھی کہنے لگا اے اللہ موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا سو اللہ نے اس کو سو سال تک مارا دیا پھر اس کو اٹھایا اور فرمایا تو کتنی دیر ٹھہرا، کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو پورا سو سال ٹھہرا ہے اپنے کھانے پینے کی طرف دیکھ وہ ابھی تک خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو دیکھ ہم تجھ کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں گے اب ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم نے ان کو کس طرح ان پرگوشت چڑھاتے ہیں جب اس کو معلوم ہوگیا تو کہنے لگا اللہ ہر چیزپر قادر ہے۔‘‘
اس آیت شریف میں واردات عزیر علیہ السلام کی بیان فرمائی ہے۔ وہ سو برس مرے رہے سو برس کے اندر دھوپ سردی پڑی بادل گرجے بچلیاں چمکیں آدمی چلتے پھرتے تھے مگر ان کو کسی بات کی خبر نہ ہوئی اگر مردہ میں طاقت کلام زندوں کے سننے کی ہوتی تو بادل کاگرجنا ضرور سنتے اس سے بڑھ کر اور کیادلیل مردوں کے عدم سماع پر ہوگی۔ ومن اضل ممن یدعو من دون اللہ من لا یستجیب لہ الی یوم القیمۃ وھم عن دعائہم غافلون۔ اس آیت میں زندوں کے کلام سے مردوں کو غافل فرمایا اگرچہ قیامت تک کیوں نہ پکاریوں اس سے صاف انکار مردوں کے سننے کا ہے کہ ان میں لیاقت سننے کی نہیں ۔ تفسیر جامع التفاسیر میں لکھا ہے کہ شان نزول اس کاعام ہے بتوں کے بارے میں ان کا شان نزول لگانا دھوکا و فریب لوگوں کا ہے بلکہ عام ہے جس میں بزرگ وغیرہ بھی داخل ہیں۔ ان [1]تدعو ھم لا یسمعوا دعاءکم ولو سمعوا ما استجابو ا لکم و یوم القیمۃ یکفرون بشر ککم ولا ینبئک مثل خبیر۔ اس آیت شریف میں ارشاد فرمایا کہ جس کوتم پکارتے ہو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے اگر بالفرض سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے اس میں صاف انکار اموات کے سننے کا۔وما[2] یستوی الاحیاء ولا الاموات ان اللہ یسمع من یشاء وما انت بمسمع من فی القبور۔ اس آیت شریف میں بھی مردوں کے سننے کا انکارکیا ہے اور تفسیر جامع التفاسیر میں اس کی شان نزول میں بتایا ہےکہ جنگ بدر کےمقتولوں کو جو حضرت ﷺ نے پکار تھا اور یہ فرمایا تھا کہ سنتے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ تو مردوں کو نہیں سناسکتا کیونکہ مردہ زندہ برابر نہیں ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ مذہب امام اعظم اور اکثر مشائخ ہمارے کاعدم سماع ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ غرائب اور عینی شرح بدایہ اور تفسیر نیشاپوری اور کافی اور فتح القدیر پرحاشیہ بدایہ اورمستخلص شرح کنز اور عینی شرح کنز اور کفایہ شرح بدایہ میں اس مسئلہ کو خوب ثابت کیا ہے اورمخالفین پر خوب رد کیا ہے۔ انک[3] لا تسمع الموتی ولا تسمع الصم الدعاء اذاولوا مدبرین۔ اس آیت شریف میں بھی انکار مردوں کے سننے کا پایا جاتا ہے۔ ان آیات مذکورہ کے سوا اور بھی آیات ہیں جن سے مردوں کاعدم سماعثابت ہوتا ہے اور بجز حدیث قرع فعال سےمردوں کا ایک خاص وقت میں سننا ثابت ہوتا ہے جس وقت کہ مردہ قبر میں نکیرین کے سوال کے جواب دینے کے لیےزندہ کردیا جاتا ہے اور اس وقت مردہ مردہ نہیں رہتا اور حدیث قلیب بدر اسی واقعہ بدر کے ساتھ خاص ہے کیونکہ حدیث بخاری و نسائی میں لفظ الان آچکا ہے پس یہ حدیث عموم سماع موتے پر دلالت نہیں کرتی ۔الغرض کوئی حدیث صحیح قابل اطمینان سماع موتے میں نہیں آئی ہے اور جو ہیں وہ ضعاف و منکرات ہیں اور آیات قرآنیہ کے خلاف اور مسائل اربعین میں مولانا اسحاق صاحب محدث نے بھی سماع موتے سے انکار کیا ہے۔ حررہ فقیرحقیر عبدالحکیم مدرس مدرسہ حقا فی چھاؤنی نصیر آباد ضلع امیرراجپوتانہ۔ (سید محمد نذیر حسین)
[1] اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے اور اگر سن بھی لیں تو تمہیں نہیں دے سکتے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کریں گے اور خبر والے کی طرح تجھے اور کوئی خبر نہ دےسکے گا۔
[2] زندے اور مردے برابر نہیں ہوتے اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنائے اور توقیر والوں کونہیں سنا سکتا۔
[3] تو مردوں کونہیں سنا سکتا اور نہ ہی بہروں کو سنا سکتا ہے جب کہ وہ پھیر کر چل دیں۔