سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(213) قبرستان میں جوتی پہن کر چلنادرست ہے یا ہیں؟

  • 5720
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 945

سوال

(213) قبرستان میں جوتی پہن کر چلنادرست ہے یا ہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قبرستان میں جوتی پہن کر چلنادرست ہے یا ہیں اور جنازے کی نماز میں سورۃ فاتحہ اور سورہ کازور سے پڑھنا جس حدیث میں مذکور ہے اس کے راوی ٹھیک ہیں یا نہیں  اور اس پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبرستان میں جوتی پہن کر چلنا نہیں  درست ہے ۔منتقی میں ہے۔ عن بشیر بن الخصاصیۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رأی رجلا یمشی فی نعلین بین القبور فقال یا صاحب السبتیین القھار رواہ الخمسۃ الا الترمذی۔ یعنی بشیر ابن خصاصیۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے دیکھا ایک شخص کو کہ وہ جوتی پہنے ہوئے قبرستان میں جارہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اے جوتی والے جوتیوں کوڈال دے اور جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ اور سورت کا پڑھنا جس حدیث میں مذکور ہے اس کے راوی ٹھیک ہیں ۔ سورہ فاتحہ کی حدیث کے راوی تو اس واسطے ٹھیک ہیں کہ وہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔ چنانچہ منتقی میں ہے ۔ عن ابن عباس انہ صلی علی جنازہ فقراء بفاتحۃ الکتاب قال لتعلموا انہ من السنۃ رواہ البخاری و ابوداؤد والترمذی و صححہ والنسائی و قال فیہ  نقل بفاتحۃ الکتاب و سورۃ وجھر فلما فرغ قال سنۃ و حق۔ یعنی ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک جنازے پر نماز پڑھی تو سورہ فاتحہ پڑھی اور کہاکہ سورہ فاتحہ میں نے اس واسطے پڑھی ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ سنت ہے روایت کیا اس حدیث کو بخاری اور ابوداؤد اور ترمذی نے اور صحیح کہا اس کو اور روایت کیا اس کو نسائی نے اور اس میں یوں کہا ہے کہ پھر پڑھی ابن عباسؓ نے سورہ فاتحہ اور ایک اور سورہ اور زور سے پڑھی پھر جب فارغ ہوئے تو  فرمایا  کہ یہ سنت اور حق ہے اور وہ حدیث کہ جس میں سورہ ملانے کا ذکر ہے وہ نسائی شریف کی روایت ہے جیسا کہ اوپر منتقی کی عبارت سےمعلوم ہوا اور اس کے راوی اس واسطے ٹھیک ہیں کہ اس کی سند کو علامہ قاضی شوکانی نے نیل الاوطار شرح  منتقی میں صحیح کہا ہے، چنانچہ نیل الاوطار میں ہے: قولہ[1] و سورۃ فیہ مشروعیہ قراء ۃ سورۃ مع  الفاتحۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ ولا محیص عن المصیر الی ذلک لانہا زیادۃ خارجۃ عن مخرج صحیح انتہی۔مختصراً۔جب  ثابت ہوا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور سورہ کاجہر سے پڑھنا جس حدیث سے مذکور ہے اس کے راوی ٹھیک ہیں اور وہ حدیث صحیح ہے تو اس پر عمل کرنا جائز ہوا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم حررہ محمد عبدالحق ملتانی                    (سید محمد نذیر حسین)

ھوالموفق:

قبرستان میں جوتی پہن کر چلنے کی ممانعت بشیربن خصاصیہ کی حدیث مذکور سے صاف ثابت ہوتی ہے اور بعض اہل علم اس حدیث کے مطابق ممانعت کےقائل ہیں اور بعض اہل علم قبرستان میں جوتی پہن کر چلنے کو جائز بتاتے ہیں مگر جس حدیث سے یہ لوگ استدلال کرتے ہیں اس سے ان کا مطلوب ثابت نہیں  ہوتا۔ علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ سبتی جوتی (یعنی مدبوغ چمڑے کی جوتی جس میں بال نہ ہوں) پہن کر قبرستان میں چلنا حرام و ناجائز ہے اور غیر سبتی جوتی پہن کر چلنا جائز ہے لیکن ابن حزم کا بھی یہ قول ٹھیک نہیں  کیونکہ سبتی اور غیر سبتی جوتی میں کوئی فارق نہیں  ہے۔امام طحاوی کہتے ہیں کہ حضرت نے جو اس شخص کو جوتی پہن کر چلنے سے منع فرمایا سو یہ ممانعت محمول ہے اس پر کہ اس کی جوتی میں ناپاکی لگی تھی مگر یہ بات بھی ٹھیک نہیں  کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں  پس جو لوگ ممانعت کے قائل ہیں انہیں  کا قول مدلل ہے۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:

(ترجمہ) ’’ ابن حجر نےکا اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ قبرستان میں جوتیوں سمیت چلنا جائز ہے ابن جوزی نے کہا اس میں جائز و ناجائز کی کوئی بحث ہی نہیں  ہے یہ تو ایک واقعہ کی حکایت ہے ۔مجوزین لکھتے ہیں کہ اگر یہ ناجائز ہوتا تو نبی ﷺ اس کو بیان کردیتے اور یہ بھی احتمال ہے کہ قبرستان کے باہر جوتیوں کی آواز مردہ سنتا ہو اور بشیر بن خصاصیہ کی حدیث سے جو کراہت ثابت ہوتی ہے ۔طحاوی کہتے ہیں  ممکن ہے اس کی جو تیاں پلید ہوں ورنہ آنحضرتﷺ مسجد میں پاک جوتیوں سےنماز پڑھ لیا کرتے تھے قبرستان اس سےزیادہ پاک جگہ نہیں  ہے۔‘‘

اور بلا شبہ ابن عباسؓ کی روایت مذکور بالا سے ثابت ہےکہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اور کسی اور سورہ کا پڑھنا سنت و حق ہے اور بلا شبہ یہ روایت بھی قابل عمل ہے لیکن رہی یہ بات کہ سورۃ فاتحہ اور سورہ کو جہر سے پڑھنا چاہیے یا آہستہ ۔ سو ابن عباسؓ نے اپنی ایک روایت میں تصریح کردی ہے کہ میں نے فاتحہ اور سورۃ کانماز جنازہ میں پڑھنا سنت ہے ۔ فتح الباری صفحہ 690 میں ہے:

(ترجمہ) ’’ سعید بن ابی سعید کہتے ہیں کہ ابن عباسؓ نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی اور الحمد بلند آواز سے پڑھی اور کہا میں نے اس لیے بلند آواز سے پڑھی کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ الحمد  پڑھنا سنت ہے ایک اور روایت میں ہے کہ پھر اس کے بعد نبیﷺ پر  درود پڑھا پھر یہ دعا پڑھی اللھم ھذا عبدک الخ پھر فارغ ہوئے تو کہا میں بلند آواز سے جنازہ اس لیے پڑھایا کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ جنازہ کا سنت طریقہ کیا ہے ۔‘‘

اور اسی طرح شافعی کی روایت میں ہے ، تلخیص الجیر صفحہ 160 کے حاشیہ میں ہے، وفی[2] روایۃ الشافعی فجھر بالقرأۃ وقال انما جہرت لتعلموا انہا سنۃ و مثلھا للحاکم انتہی بدر اور اسی طرح منتقی ابن الجارود میں بھی ہے ۔عون المعبود شرح سنن ابی داؤد صفحہ 191 جلد 3 میں ہے ۔ واخرج[3] ابن الجارود فی المنتقی من طریق زید بن طلحۃ التیمی قال سمعت ابن عباس قراء علی جنازۃ فاتحۃ الکتاب و سورۃ وجھر بالقراء ۃ وقال انما جھرت لاعلمکم انھا سنۃ انتہی۔ پس جب معلوم ہوا کہ ابن عباسؓ نے  فاتحہ اور سورۃ کو فقط اس خیال سےزور سے پڑھا تھا کہ لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور سورۃ کا پڑھنا سنت ہے تو اس روایت سےجہر سے پڑھنا  نہیں  ثابت  ہوتا بلکہ آہستہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے ہاں اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جہاں لوگوں کو یہ مسولہ نہ معلوم ہو تو وہاں زور سے پڑھ دینا چاہیے تاکہ لوگ سن کرمعلوم کرلیں اور آہستہ پڑھنے کی تائید ابوامامہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔

(ترجمہ) ’’  ایک صحابی نے کہا جنازہ کی نماز میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے پھر تکبیر اولےٰ کے بعد الحمد پڑھے۔ پھر نبی ﷺ پر درود بھیجے پھر میت کے لیے دعا کرے اور ان تکبیروں میں قرأت نہ کرے پھر آہستہ آواز سے سلام پھیرے ۔ حافظ نے تلخیص میں کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کی تائید ایک اور حدیث سے ہوجاتی ہے ۔‘‘

اور آہستہ پڑھنے کی تائید ابن سلمۃ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ السنۃ[4] علی الجنازۃ ان یکبر الامام ثم یقراء القرآن فی نفسہ الحدیث  ر واہ ابن ابی حاتم فی الغلل ذکرہ الحافظ فی التلخیص صفحہ160۔ انہیں  روایات کی وجہ سے سے جمہور کا یہ مذہب ہے کہ نماز جنازہ میں فاتحہ اور سورہ جہر سے پڑھنا مستحب نہیں  ہے۔ نیل الاوطار صفحہ298 جلد 3 میں ہے۔ وذھب[5] الجمہور الی انہ لا یستحب الجھر فی صلوۃ الجنازۃ و تمسکوا بقول ابن عباس المتقدم لم اقرأ ای جھرا الا لتعلموا انہ سنۃ و بقولہ فی حدیث ابی امامۃ سرافی نفسہ انتہی۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔کتبہ محمد عبدالرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔



[1]   اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ اور سورۃ کا پڑھنا بھی درست ہے اور اس کو قبول کرنےکے سوا کوئی چارہ نہیں  ہے کیونکہ یہ زیادت صحیح سند سے ثابت ہے۔

[2]   آپ نے بلند آواز سے قرأت کی اور کہا میں نے اس لیے بلند اواز سے قراء ت کی کہ تم کومعلوم ہوجائے جہر سے قرأت کرنا سنت ہے۔

[3]   ابن عباسؓ نے ایک جنازہ پرالحمد اور سورۃ بلند آواز سے پڑھی اور کہا کہ میں نے اس لیے بلند آواز سے قرأت کی کہ تم کومعلوم ہوجائے بلند آواز سے قرأت کرنا سنت ہے۔

[4]   جنازہ میں سنت یہ ہےکہ امام تکبیر کہے پھر آہستہ آواز سے قرآن پڑھے۔

[5]   جمہور کا مسلک یہ ہے کہ جنازہ میں بلند آواز سے قرأت مستحب نہیں  ہے اور انہوں نے ابن عباس اور ابوامامہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 660

محدث فتویٰ

تبصرے