سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(195) عورتوں کو نماز عیدین کے لیے عید گاہ میں جانا درست ہے یا نہیں؟

  • 5702
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3978

سوال

(195) عورتوں کو نماز عیدین کے لیے عید گاہ میں جانا درست ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اندر اس مسئلہ کے کہ عورتوں کو اس زمانہ میں  نماز عیدین کے لیے عید گاہ میں  جانا درست ہے یا نہیں، اگر درست ہے تو اس اثر  حضرت عائشہؓ کا کیا جوابہے ۔ عن عائٍشۃ قالت لو ادرک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ما احدث النساء لمنعہن المساجد رواہ البخاری ، یعنی فرمایا حضرت عائشہؓ نے کہ اگر پاتے رسول اللہ ﷺ جو احداث کیاہے عورتوں نے ، تو بےشک منع فرماتے ان کو مسجدوں سے الخ روایت کیا اس کوبخاری نے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورتوں کا بروز عیدین عیدگاہ میں  جانا حدیث صریح صحیح مرفوع سے بلانکیر ثابت ہے۔ آنحضرتﷺ کو اس میں  اہتمام بلیغ تھا، یہاں تک کہ حائضہ اور بن کپڑے والی کو بھی عید گاہ میں  حاضر ہونے کا حکم فرماتے ، بخاری و مسلم میں  ہے۔عن اُم عطیۃ قالت امرنا ان نخرج الحیض یوم العیدین وذوات الخدور فیشہدن جماعۃ المسلمین ودعوتہم و تعتزل الحیض عن مصلاھن قالت امرأۃ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم احدنا لیس لھا جلباب قال لتا بھاصاحبتھا من جلبابھا، یعنی اُم عطیہ سے روایت ہےکہ، کہا انہوں نے حکم کئے گئے ہم لوگ کہ نکالیں حیض والیوں کو عیدین میں  اور پردہ دار کو پس حاضر ہوں مسلمانوں کی جماعت میں  اور دعا  میں  ان کی اور علیحدہ  بیٹھیں حیض والیاں اپنی نمازیوں کی صف سے کہاایک عورت نے کہ یارسول اللہﷺ اگرنہ ہو کسی عورت کے پاس چادر، فرمایا تب چاہیےکہ اوڑھائے اس کو ساتھ والی اس کی، اپنی چادر سے، اور ایک روایت  میں  ہے  صحیحین کے کہ جائیں حیض والیں عیدگاہ میں  پھر رہیں پیچھے لوگوں کے،اللہ اکبر کہیں ساتھ ان کے ،نووی شارح مسلم نے قاضی عیاض سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ و علیؓ و ابن عمرؓ وغیرہ کے نزدیک  ضرور تھا نکلنا عورتوں کا عیدین میں  ، اور تحت میں  قولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لتلبسھا کے نووی لکھتے ہیں کہ وفیہ حث علی حضو ر العید لکل احد و علی المواساۃوالتعاون علی  البر والتقوی، یعنی حضرت کے اس فرمانے میں  کہ بے کپڑے والی کو اس کے ساتھ والی کپڑا اُڑھا کر لے جائے شوق دلانا ہے عیدین میں  حاضر ہونے کے لیے ہر ہر شخص کو اور اوپر احسان اور  مدد کرنےکے نکوئی و پرہیزگار پر، اور یہاں شیخ عبدالحق دہلوی ’شرح مشکوٰۃ‘ میں  لکھتے ہیں ، واگرعا[1]جزہ از قادرہ استعارہ نماید و سوال کند تیز جائز است کہ وسیلہ امر خیر است ، اور شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ اللہ البالغۃ میں  فرماتے ہیں، ولذلک استحب خروج الجمیع حتی الصبیان والنساء و ذوات الخدور والحیض، یعنی اسی اظہار شوکت اسلام کے لیے مستحب ہے جانا ہر ہر شخصوں کا عیدگاہ میں  حتی کہ لڑکے اور عورتوں اور پردہ دار اور حیض والیاں اور بخاری میں  ہے۔ قلت لعطاء اتری حقا علی الامام الان ان یاتی النساء فیذکرھن حین یفرغ قال ان ذلک لحق علیہم ومالھم ان لا یفعلوا، یعنی کہا جریج نے عطاء تابعی سے کہ کیا گمان کرتے ہیں آپ ضرورت امام پر اس زمانہ میں  اس بات کی کہ آئے امام پاس عورتوں کے، پھر وعظ کہے نماز سے فارغ ہوکر، کہا عطاء نے یہ البتہ بے شک ضرور ہے ، اماموں پر اور کیا ہے واسطے ان کے یہ کہ نہ کریں۔

اور جواب اثر حضرت عائشہؓ کا اولا ًیہ  ہے کہ غرض ان کی امتناع احداث عورتوں کا ہے جو کچھ بعد آنحضرتﷺ کے پیدا کررکھا تھا، من الزنیۃ والطیب و حسن الثیاب ونحوھا کذا فی العینی، نہ نفس حضوری مسجد، چنانچہ لفظ ما احدث النساء کا دلیل روشن ہے اس معنی پراور وہ بے شک ممنوع و موجب فساد ہے۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا شہدت احد لکن المسجد فلا تمس طیبا رواہ مسلم،یعنی فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب آئے کوئی عورت مسجد میں  پس خوشبو نہ لگائے  روایت کیا اس کو مسلم نے، اور ابوداؤد  میں  ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نہیں قبول ہوتی نماز اس عورت کی جو خوشبو لگائے مسجد کے لیے یہاں تک کہ غسل کرے،غسل کرنا ناپاکی کا اور، بخاری کی ایک روایت میں  ہے، قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا استاذنکم نساؤکم باللیل الی المسجد فاذنوا لہن، یعنی فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب کہ اجازت مانگیں تم سے عورتیں تمہاری مسجد کی رات کو، پس اجازت دو ان کو اس حدیث میں  اجازت کو رات کے ساتھ مقید فرمایا، غرض جو امر باعث فساد ہے، اس کی  اصلاح شارع سے خود ثابت ہے ، اس کی اصلاح بقدر نقصان کرنا چاہیے نہ کہ معدوم کردینا اصل امر شرعی کا، یہ اصلاح نہیں ہے، بلکہ فساد ہے، حج کےلیے عورتیں جب سے گھر چھوڑ کر نکلتی ہیں تو ابتدائے  روانگی سے کیا کیا حالتیں ریل و جہاز و اونٹ  پر ان کی بے پردگی کی پیش آتی ہیں پھرمکہ معظمہ میں  وقت طواف و سعی وغیرہ کے کس مرتبہ کااختلاط مردوں سے رہتا ہے کہ مارے دھکوں کے گر گر جاتی ہیں، نعوذ باللہ من ذلک اور یہ صریح حرام ہے تو اس جہت سے عورتیں حج سے باز نہ رکھی جائیں گی بلکہ اختلاط رجال اور دوسرے منہیات سے تاکید لازم ہوگی، ہاں جمیعت عورت و مرد خلاف شرعی البتہ باعث فساد ضرور ہوتی ہے، اس کا انسداد لازم ہے جیسے مردوں کا سامنے اپنے غیر محرکات مثل بھاوج و سالیاں و سرہجین وغیرہ کے آیا کرنا، ان سے دل لگیاں ہونا، کشف عورت رہنا، جیسا کہ اکثر بلکہ تمام ہند میں  دائر وسائر ہے اس کو ضرور مسلمانوں کے گھر سے موقوف ہوجانا چاہیے کہ اس میں  بڑے بڑے واقعات ہوگئے ہیں اور شرعاً و عقلا کسی طرح جائز نہیں ۔ غرض جس مجمع خلاف شرع میں  کہ فساد واقع ہورہا ہے، اس سے چشم پوشی کرنا اور مجمع موافق شرع کو موقوف کردینا فقط تقاضائے شرافت و امارت و اغوائے شیطانی ہے، اس سے پرہیز ناگزیر ہے۔

ثانیاً اگر تسلیم بھی کیا جائے کہ غرض حضرت عائشہ کی مطلقاًَ منع حضوری مسجد ہے پس اس میں  صریح تخصیص مسجد کی موجود ہے ، قیاس امتناع حضوری عیدگاہ اس پر درست نہیں ہے، اس لیے کہ حضور مسجدعورتوں کو جائز  ہے  اور مستحب یہ ہے کہ گھر میں  نماز ادا کریں، چنانچہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا تمنعوا نساءکم المساجد و بیوتھن خیر لھن  رواہ ابوداؤد یعنی فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نہ روکو اپنی عورتوں کو مسجدوں سے اور گھر ان کے بہتر ہیں ان کے لیے بخلاف نماز عیدین کے کہ اس میں  یہاں تک کہ تاکید فرمائی کہ حائضہ اور بے کپڑے والی محتاج اوروں کے کپڑوں میں  عیدگاہ آئیں، عذر سےبھی  اس دن خانہ نشینی کی اجازت نہ دی۔

ثالثاً آپ منع کہاں فرماتی ہیں، وہ تو اپنا فہم ظاہر کرتی ہیں کہ آنحضرتﷺ اگر اس احداث کو دیکھتے تو میرے نزدیک یہ ہے کہ عورتوں کومسجد سے روکتے اور یوں فرمانا یا اس سبب سےتھا کہ مطابقت فہم رسول اللہ ﷺ فہم اپنے کے ضروری نہ جانا یا ترک ادب سے ڈریں کہ اپنی رائے سے حکم صریح رسول اللہﷺ کا کیونکر اٹھایا جاسکتا ہے یا آپ مختار حلت و حرمت ہی کی نہ تھیں جیسا کہ حضرت عمرؓ بمقتضائے حیا و بیان صریح آنحضرتﷺ کے کہ بیوتھن خیرلھن عورتوں کا مسجد میں  جانا مکروہ جانتے تھے ، پرمنع کرنے میں  دم نہیں مارتے تھے کہ جب رسول اللہﷺ نے صاف اجازت دینے کا حکم فرمایاکہ لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ تو اب کون اس اجازت کو اٹھا سکتا ہے ، بخاری شریف کے صفحہ 123 میں  ہے ،عن ابن عمر قال کانت امرأۃ لعر تشھد صلوۃ الصبح والعشاء فی الجماعۃ فی المسجد فقیل لھا لم تخرجین وقد تعلمین ان عمر یکرہ ذلک ویغار قالت فما یمنعہ ان ینہا نی قال یمنعہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ رواہ البخاری، یعنی حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ تھیں بی بی حضرت عمر ؓکی کہ نماز صبح اور عشاء کو جماعت سے ادا کرنے کو مسجد میں  جایا کرتیں، پس کسی نے ان سے کہا کہ تم کیوں نکلتی ہو جب کہ جانتی ہو کہ عمرؓ مکروہ جانتے ہیں نکلنا عورتوں کا، اور غیرت کرتے ہیں ، کہا ان کی بی بی صاحبہ نے پس کس چیز نے منع کیا عمرؓ کو مجھ ےمنع کردینے ، کہا اس شخص نے کہ باز رکھا عمرؓ کوتمہارے روکنے سے قول رسول اللہ ﷺ نے یہ کہ نہ روکو اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں سے روایت اس حدیث کو بخاری نے،اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس سے منع کرنے پر اپنے بیٹے کو اس قدر سخت و درشت کہا کہ کبھی کسی کو نہ کہا اور مرنے کو مرگئے پر بیٹے سے پھر مارے غصہ کے بات نہ کی۔

(ترجمہ) ’’آنحضرتﷺ نے فرمایا: اگر عورتیں تم سے اجازت مانگیں تو ان کو مساجد کے حصہ سے منع نہ کرو، بلا لؓ نے کہا، خدا کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے، تو حضرت عبداللہ ؓ نے کہا میں  کہہ رہا ہوں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے  اور تو کہتا ہم ان کو روکیں گے اور ایک روایت میں  ہے کہ عبداللہ ان پر متوجہ ہوئے اور اس کو ایسی گالیاں دیں کہ پہلے کبھی نہ دی تھی اور کہا میں  آنحضرتﷺ کی خبر تجھے دے رہا ہوں اور تو کہتا ہے کہ ہم ان کو روکیں گے۔‘‘ (رواہ مسلم)

اور احمد  کی روایت میں  ہے، فما کلمہ عبداللہ حتی مات کذا فی المشکوٰۃ، ہر گاہ نماز وقتیہ میں  یہ معاملے گذرے جس کا گھر میں  ادا کرنا خود حدیث صریح صحیح رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوا، بلکہ اس کو بہتر فرمایا ہے،پس نماز عیدین سے کہ جس کے لیے عیدگاہ میں  جانے کی تاکید شدید و اہتمام بلیغ موجو دہے اور کوئی حدیث ضعیف بھی اس کے خلاف نہیں آئی اور یہ نماز گھر گھر ادا بھی نہیں کی جاتی ہے اور اس مجمع کو آنحضرتﷺ نے خیر فرمایا ہے ،کس حجت سے بھلا کوئی عورتوں کو منع کرے۔

رابعا یہ کہ ولو فرضنا تو یہ حضرت عائشہؓ اپنے فہم سے فرماتی ہیں اور فہم صحابہ حجت شرعی نہیں ہے۔ کما ثبت فی اصول الحدیث۔

خامساً  یہ کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ مقصود حضرت عائشہؓ کا امتناع عام ہے تو یہ اثر کب معارض ہوسکتا ہے حدیث صحیح صریح مرفوع کا اور ناسخ بھی کلام معصوم کا نہیں ہوسکتا پس حکم رسول اللہ ﷺ و رباب حضوری عورتوں کے عید گاہ میں  اسی اہتمام کے ساتھ بحال خود رہا اور جانا ان کا عید گاہ میں  ثابت ہوا، پھر اب جو شخص بعد ثبوت قول رسول  و فعل صحابہ کی مخالفت کرے وہ اس آیت کا مصداق ہے،ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی و یتبع غیرسبیل المؤمنین تولہ ما تولی الایۃ، جو حکم صراحۃ شرع شریف میں  ثابت ہوجائے اس میں  ہرگز ہر  گز رائے و قیاس کو دخل نہ دینا چاہیے کہ شیطان اسی قیاس سے کہ انا خیر منہ حکم صریح الہٰی سے انکار کرکے ملعون بن گیا ہے اور یہ بالکل شریعت کو بدل ڈالنا ہے ،عورت و مرد کے اختلاط کا فتنہ کچھ اس زمانہ میں  پیدا نہیں ہوا ہے ازل سے ابد تک رہا ہے اور رہے گا جس کی حکایتیں قرآن و حدیث میں  موجود ہیں، اس لیے شارع نے سارے فساد کو کود دفع فرما دیا ہے ،پھر بھی اس کو اصلاح طلب ہی سمجھنا قولہ تعالیٰ فبدل[2] الذین ظلموا قولا غیر الذ قیل لہم، کے وعید میں  داخل ہونا ہے، ہاں یہ بھی  زمانہ فساد کا ہے ، ہر شخص اپنی عورتوں کو نگران رہے، بے پردہ بن ٹھن کر خوشبو لگا، بجتے گہنے زیور پہن کر ہرگز نہ جانے دے، ان کومردوں سے الگ بٹھائے، غرض اصلاح فساد ساتھ بقائے حکم شرع جس طرح ممکن ہو کر لے اور حکم شرع کو ہرگز ہاتھ سے نہ دے۔ واللہ اعلم بالصواب ، اللہم ارزقنا اتباع سنن سید الموجودات وجنبنا عن البدعات امین، المجیب  و صیت علی            الجواب  صحیح و الرای نجیح                   (از شرف سید کونین شد شریف حسین)     (سید محمد نذیر حسین)

اور روضہ ندیہ میں  لکھا ہے:

(ترجمہ) ’’علماء میں  اختلاف ہے کہ عید کی نماز واجب ہے یا نہیں؟ صحیح یہ ہے کہ واجب ہے، کیونکہ حضور نے خود بھی اس پر ہمیشگی کی ہے اور ہم کوبھی حکماً عید کی نماز کے لیے باہرنکلنے کوکہا ہے جبکہ ایک قافلہ نے آکر اطلاع دی کہ ہم نے کل رات چاند دیکھا تھا تو حکم دیا کہ کل لوگ عید کی نماز کے لیے باہر نکلیں اور اُم عطیہ کی حدیث میں  ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عیدالاضحیٰ میں  باہر نکلیں، حائضہ عورتوں بھی ، پردہ نشین بھی، حائضہ عورتیں نماز سے الگ رہیں اور دعا وغیرہ میں  شامل ہوجائیں اور باہر نکلنے کا حکم نماز کے حکم کا تقاضا کرتا ہے جس کو شرعی عذر نہ ہو اور یہ حکم عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ شامل ہوگا۔‘‘

پس میلان خلفائے ثلاثہ یعنی ابوبکر صدیق و عمر و علی رضی اللہ عنہم کا بھی واجب کی جانب تھا اور اسی بات کی تائید کرتی ہے ، حدیث ابن عباسؓ جو ابن ماجہ میں  مذکور ہے کہ آنحضرتﷺ اپنے ازواج و بنات کو عیدین میں  لے جاتے تھے پس یہ عموم شامل ہے جوان و بڑھیا دونوں کو ہکذا نی بدر التمام شرح بلوغ المرام اور نہج المقبول من شرائع الرسول میں  مرقوم ہے اس طور سے  و زنان رابر آمدن سوئے عید گاہ از برائے نماز و شرکت در دعاء مسلمین مشروع است و سنت صحیحہ بدان وارد گشتہ و نماز فراوی ہم صحیح است۔ ( امیر حسن ساکن بہار ، محمد جمیل، سید محمدحسن،حسن علی خان)



[1]   اگر کوئی غریب عورت امیر عور ت سے  چادر مانگ لے تو یہ بھی جائز ہے ، کیونکہ نیک کام کا وسیلہ ہے۔

[2]   تو ظالموں نے اس بات کوبدل دیا جو ان کو کہی گئی تھی۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 618

محدث فتویٰ

تبصرے