کیا فرماتے ہیں علمائے دین ابقاہم اللہ الی یوم الدین اس مسئلہ میں کہ درمیان خطبہ جمعہ کے واسطے پند ونصائح سامعین کے جو عربی زبان نہیں جانتے کچھ اشعار یا نثر بزبان سامعین کہ جن کا مضمون ماجاء بہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے پڑھنا درست ہے یا نہیں اور شعروں کے بارہ میں کیا حکم ہے شرعی کا۔ بینوا توجروا
درست ہے کیونکہ پند و نصیحت خطبہ میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، صحیح مسلم کی روایت سے مشکوٰۃ کے باب الخطبہ میں جابر بن سمرۃ ؓ سے روایت ہے ۔ قال کانت للنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبتان یجلس بینھما یقرء القرآن و یذکر الناس یعنی انہوں نےبیان کیا ہے کہ پڑھا کرتے تھے نبیﷺ دو خطبہ اور بیٹھتے درمیان دونوں کے اور خطبہ میں قرآن پڑھتے اور لوگوں کووعظ فرمایاکرتے اوروعظ کا فائدہ جب ہی ہوتا ہے کہ سننے والے کی بولی میں ہو،اسی واسطے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سورہ ابراہیم میں وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ لیبین لہم یعنی نہیں بھیجا ہم نے کسی نبی کو مگر اس کی قوم کی بولی میں تو کہ وہ اچھی طرح سمجھا سکے ان کو پس اس آیت سے بخوبی ثابت ہواکہ نصیحت سامعین کی بولی میں ہو کہ وہ سمجھیں اور یہ اعتراض کہ خطبہ میں نصیحت بزبان اردو آنحضرتﷺ و صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں بیجا ہےکیونکہ اس بارہ میں کسی زبان کی خصوصیت نہیں صرف یہ ثبوت چاہیے کہ خطبہ میں آپ نصیحت کرتے تھے یا نہیں سو اس کا ثبوت حدیث صحیح میں موجود ہے اور یہ خطبہ میں آپ نصیحت کرتے تھے یا نہیں سو اس کاثبوت حدیث صحیح میں موجود ہے اور یہ خطبہ ہی پرحصر کیوں رکھا قرآن و حدیث کا ترجمہ اور وعظ کرنا بھی تو بزبان اُردو وغیرہ آنحضرتﷺ و صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے ، پھر وہ کیوں مع نہیں ،غرضکہ وعظ بزبان سامعین دین میں کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ قرآن و حدیث دنیا میں اسی واسطے آئے ہیں کہ سب جہان کے لوگ سمجھیں اور شعر کے بارےمیں یہ ہے: ذکر[1] عندرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الشعر فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھوکلام فحسنہ حسن و قبیحہ قبیح رواہ الدارقطنی و حسنہ العزیزی۔
اور مالابدمنہ میں ہے : (ترجمہ) ’’شعر ایک موزوں کلام ہے ، جواچھا ہے سو اچھا ہے اور جوبُرا ہے سو بُرا ہے۔ لیکن اس میں زیادہ وقت صرف کرنا مکروہ ہے‘‘۔ ’’اگر شعر کا مضمون حمد خدا اور نعت رسول اللہﷺ یا ذکرخدا و عبادت کی ترغیب پر مشتمل ہو یا اس میں کوئی دینی مسئلہ بیان کیا گیا ہو تو اس کا کہنا اور پڑھنا موجب ثواب ہے۔ اور اگر مباح امر پر مشتمل ہو، تو مباح ہے۔ اور اگر امور ممنوعہ پرمشتمل ہو، مثلاً کسی مرد یا عورت کے خدوخال کی تعریف یا کسی عادل مسلمان کی ہجو ہو تو اس کا لکھنا اور پڑھنادونوں حرام ہے۔‘‘
حررہ خادم العلماء محمد حسن عفاء اللہ عنہ و عن جمیع المؤمنین واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمیں ۔ (سیدمحمد نذیر حسین)
اس مضمون میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ شعر ایک کلام ہے کہ جس کا مضمون اچھا ہے ، وہ اچھا ہے اور جس کا بُرا ہے ،وہ بُرا ہے مگر ساتھ اس کےخطبہ میں کبھی شعر پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت نہیں، خطبہ نبویہ و خطبات خلافت راشدہ اشعار سے خالی ہوتے تھے ۔ فاتباع سنتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و سنۃ خلفائہ الراشدین المھد بین اولیٰ ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔
[1] رسول اللہﷺ کے پاس شعر کاتذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ، وہ بھی ایک کلام ہے جس کا مضمون اچھا ہے وہ اچھا شعر ہے اور جس کابُرا ہے ، وہ بُرا ہے۔