کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس امر میں کہ خطبہ جمعہ وغیرہ میں واسطے سمجھانے عربی نہ جاننے والوں کے خطبہ عربی کا اُردو یا پنجابی یافارسی میں حسب حاجت ترجمہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اقوال و باللہ احوال ماہرین شریعت پر مخفی نہیں کہ خطبہ لغت عربیہ میں وعظ و نصیحت کو کہتےہیں، جیسا کہ عبارات کتب لغت سے ظاہر ہے ۔ الخطب[1] والمخاطبۃ و التخاطب المراجعۃ فی الکلام ومنہ الخطبۃ والخطبۃ لکن الخطبۃ تختص بالموعظۃ والخطبۃ لطلب المرأۃ انتہی ما فی مفردات القرآن للامام راغب بن الحسین مختصر اخطبہ بالضم کلام کہ در ستائش خدا و نعت نبیﷺ و موعظت خلق باشد و نثر مسبجع انتہی، فی منتہی الارب ، الوعظ والموعظۃ ھو مقترن بتخویف وقال الخلیل ھو التذکیر بالخیر فیما یرق بہ القلب قال اللہ عزوجل یعظکم لعلکم تذکرون وقال قد جاء تکم موعظۃ من ربکم الی اخرما فی مفردات القرآن، پس یہ بات ہوئی کہ خطبہ وعظ کو کہتے ہیں اور غرض و غایت درس و وعظ قرآن مجید و حدیث شریف سے یہ ہے کہ سامعین وعظ سن کر اس سے پند پذیر و عبرت گیر ہوں اور مطلب و معنی آیت وما[2] انزلنا علیک الکتب الالتبین لھم الذی اختلفوا فیہ و معنی آیۃ وانزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور وغیرہ کے اسی پر دال ہیں کہ سامعین غیر عربی دان کوبدون سمجھانے معنی اور واقف کرانے اس کے عبارت درس و وعظ سے کچھ حاصل نہیں اسی لحاظ سے خدا تعالیٰ نے فرمایا ۔ وما[3] ارسلنا من رسول الابلسان قومہ لیبین لھم آلایۃ و بیان مستلزم تفہیم و تفہم کو ہے اور بغیر قصد تفہیم و تفہم کے درس ووعظ معری عن المقصود ہوگا۔
(ترجمہ) ’’ رسولوں کو ان کی قوم کی زبان میں وحی اس لیے کی گئی کہ وہ اس کو آسانی سے سمجھ سکیں اور کسی بات کے سمجھنے میں غلطی نہ کریں اور اس کو آسانی کے ساتھ دوسروں کے پاس نقل کرسکیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل میں فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں انصاف، احسان اور قرابت داروں کے حق ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں اوربے حیائی ،بُرائی اور سرکشی سے روکتے ہیں اور تمہیں نصیحت کرتے ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘
پس ان تفاسیر سے صاف ظاہر و واضح ہوا کہ بدون سمجھنے معنی کے تذکر و اتعاظ متعذرد دشوار ہے۔بنابریں اس کے ترجمہ ووعظ و درس و خطبہ کاغیر عربی دان کے واسطے ضرور چاہیے اور وعظ و خطبہ بدون ترجمہ کے واسطے سامعین غیر عربی دان کے برائے نام ناکام و غرض ناتمام ہوگا کیونکہ درس ووعظ و خطبہ واسطے تفہیم و تفہم سامعین کے موضوع و مقرر ہوا تاکہ سامع سمجھ و بوجھ کر متنبہ ہوجائے اور براہ راست آجائے اسی نظر سے آنحضرتﷺ نے خطبہ حج و خطبہ جمعہ وغیرہ میں فرمایا فلیبلغ الشاھد الغائب اور بے سمجھ کیا پہنچا دے گا قاضی بیضاوی نے لیبین لہم کے تحت میں تصریحاً لکھا دیا ذیتفقبو[4] ثم ینقلوہ و یترجموہ لغیرھم محض اس لیے کہ جب تک واعظ و خطیب کا وعظ و بیان سامعین کے مرکوز خاطرنہ ہوگا محض لغو و بیکار ہوگا کیونکہ جو غرض شارع کی اس خطبہ و وعظ سے تھی وہ فوت ہوگئی کما لا یخفی علی المتامل المتفطن اگر کوئی کہےکہ نماز میں بھی قاری کو چاہیے کہ مقتدی کے واسطے ترجمہ قرأت کا کرے تاکہ وہ اس کے معنی سمجھ بوجھ لے تو یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ قرآن کا پڑھنا امام و مقتدی دونوں پرنماز میں واجب ہے حسب ارشاد خداوند کریم کے فاقرؤا [5]ما تیسر من القرآن، پس امر وجوبی صیغہ فاقرؤا سے واضح ہوا کہ ہر نماز کو خواہ امام ہو یامقتدی نظم قرآن کہ خاص عربی منظوم کا نام ہے جونقل متواتر ہم تک پہنچا پڑھنا ضرور دلا بد ہے اور زبان فارسی وغیرہ میں ترجمہ اس کا نماز میں کرے تو منقول خاص متواتر باقی نہ رہے گا کیونکہ اس پراطلاق قرآن کانہ ہوگا تو خاف مامور بہ کا لازم پس اسی سب سے ترجمہ قرآن کا نماز میں پڑھنا ممنوع و محظور ہوگا کما لا یخفی علی ماھری الشرعیۃ۔
علاوہ ازیں نماز ذکر ہے اور خطبہ تذکیر ذکر اورتذکیر کا حکم ایک کب ہوسکتا ہے احناف کرام نے بھی خطبہ کو بزبان عربی منحصرنہ رکھا امام ابوحنیفہ اور صاحبین اس پرمتفق ہیں و بعض حنفیہ نے لکھا ہے کہ صاحبین نےوقت عجز رکھا نہ بلاعجز لیکن قول امام اعظم صاحب کا معتمد ہے۔
(ترجمہ) ’’ خطبہ عربی میں ہونا ضروری نہیں ہے باب صفۃ الصلوٰۃ میں پہلے بیان ہوچکا ہے کہ عربی میں پڑھنا فرض نہیں ہے اگرچہ عربی کی قدرت رکھتا ہو اور صاحبین عجز کیشرط لگاتے ہیں لیکن معتمد قول امام ابوحنیفہ ہی ہے ۔طحطاوی میں ایسا ہی ہے۔‘‘
اور ہر گاہ نص مذکور مساعد ترجمہ کا واسطے غیر عربی دان کےہوا تو پھر اگلے پچھلے سے ہم کو باک نہیں، تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون واللہ اعلم۔ وھو الموفق للصواب۔فلیعتبروا اولو النہی والالباب۔ (سید محمد نذیر حسین) (سید محمد عبدالسلام) (سید محمد ابوالحسن)
(ترجمہ) ’’ یہ جو کہا جاتا ہے کہ سلف سے منقول نہیں ہے کہ انہوں نےعجمی زبان میں ترجمہ کیا ہو تو اس کاجواب یہ ہے کہ عدم ذکر سے عدم ثبوت لازم نہیں آتا صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ کے دو خطبے ہوا کرتے تھے ان کے درمیان بیٹھتے قرآن پڑھتے اور لوگوں کونصیحت کرتے اور ایک روایت میں کہ ان کو وعظ کرتے یہ ترجمہ کے جواز میں صریح ہے کیونکہ عجمی ملکوں میں اس وقت تک وعظ کا اثر نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا ترجمہ نہ کیا جائے۔‘‘
(عبدالتواب)
چونکہ خطبہ میں شارع کی طرف سے کوئی تعیین کلمات کی وارد نہیں ہوئی بلکہ فقط حمد و ثنا بما ہوا اور تذکیر بالقرآن اور امر بالمعروف وارد ہواہے اور تذکیر عوام اہل ہند کو بغیر ترجمہ کے ممکن نہیں اس لیے بموجب دلائل فتوی بالاخطبۃ میں ترجمہ قرآن کا کرنا اور وعظ کہنا اور امربالمعروف کرنا زبان ہندی میں جائز ہے۔ فقط حررہ محمد تغمد اللہ الصمد بالرحمۃ والفضل المؤید(خادم شریعت رسو لالادب ابو محمد عبدالوھاب)
مقصود شارع کا شریعت خطبہ سے صرف پند و موعظت ہی ہے پس جب خطبہ اس مقصود سے خالی ہوگا تو حقیقت میں وہ خطبہ خطبہ ہی نہیں یونہی برائے نام بطور رسم سمجھا جائے گا بیشک خطبہ میں واعظ جس زبان میں حاجت پوری کرسکتے ہیں کریں جو لوگ خطبہ میں وعظ بزبان عجمی کرنے سے باوجود داعی شدیدہ کے منع کرتے ہیں وہ مقصود خطبہ سمجھنے سےبے خبر ہیں فقط حررہ محمد ابراہیم بن مولوی احمد ساکن جزیرہ جشیان۔جواب بہت ہی صحیح ہے عبدالرحمٰن بن عبدالکریم جواب خطبہ جمعہ کا ہو خواہ کسی اور محل کا مقصود صرف وعظ و تذکیر ہے پس اگر یہ وعظ تذکیر صرف عربی عبارت سے ہوسکے اور اس کو اکثر مخاطبین و حاضرین مجلس سمجھیں تو عربی پراکتفا کرنا اولےٰ ہے اور اگر اکثر مخاطب عرب نہ سمجھیں تو اس کا ترجمہ ہندی میں اور دوسری زبانوں میں جو مخاطب سمجھیں ضروری ہے صحیح مسلم میں جابر بن سمرۃ سے روایت ہے کانت للنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبتان یجلس بینھما یقرء القرآن و یذکر الناس ،نووی نے شرح مسلم میں کہا ہے، فیہ دلیل الشافعی فی انہ یشترط للخطبۃ الوعظ والقراء ۃ جو لوگ ہندیوں میں جو عربی نہ سمجھتے ہوں صرف عربی خطبہ اکتفا کرنے کو واجب جانتے ہیں اور ترجمہ کرنے کو ناجائز کہتے ہیں وہ خطبہ کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور مقصود شرع سے بے خبر ہیں اس باب میں ایک مفصل اشاعۃ السنہ شائع ہوگا اس لیے اس مقام میں زیادہ تفصیل نہیں ہوئی۔
(ابوسعید محمد حسین)
ان الحکم الا للہ اگر کوئی شخص اس طور پرخطبہ پڑھے کہ اس میں عبارات عربی مثل آیات قرآنی اور احادیث اور ادعیہ ماثورہ کچھ نہیں ہوں تو یہ صورت جائز نہیں ہے اور اگر ایسا نہیں کرے بلکہ عبارات یہ صورت جواز کی ہے صحیح مسلم میں ہے۔ کانت[6] للنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبتان یجلس بینھما یقرء القرآن ویذکر الناس جب تک ترجمہ نہیں کیاجائے گا تو عوام الناس کیونکر سمجھیں گے اور تذکیر کااختصاص بھی آنحضرتﷺ کے ساتھ اس مقام میں کسی دلیل سےثابت نہیں ہے۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ کافی و وافی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ حررہ ابوالطیب محمد المدعو بشمس الحق العظیم آبادی عفی عنہ ( محمد اشرف عفی عنہ ) ( ابوعبداللہ محمد ادریس)
[1] خطب، مخاطبہ، تخاطب ایک دوسرے سے کلام کرنے کو کہتے ہیں اور خطبہ وعظ و نصیحت کی کلام سے خاص ہے اور خطبہ عورت کی منگنی سے اور خطبہ بالضم خدا تعالیٰ کی تعریف و رسول کی توصیف اوروعظ و نصیحت کو کہتے ہیں جس میں تخویف شامل ہو اور اس سےدل نرم ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو اور فرمایا تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی ہے۔
[2] ہم نے تجھ پر کتاب اس لیے نازل فرمائی کہ آپ ان کے سامنے وہ چیز بیان کریں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں ’’اور ہم نے تیری طرف قرآن اس لیے اتارا کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کرروشنی میں لے آئیں۔‘‘
[3] ہم نے جو رسول بھی بھیجا وہ اپنی قوم کی زبان میں بھیجاتاکہ ان کے سامنے بیان کرسکے۔
[4] تاکہ وہ اس کو سمجھیں پھر اس کو دوسروں کے پاس نقل کریں اور اس کا ترجمہ کریں۔
[5] جوقرآن سےمیسر ہو وہ پڑھو۔
[6] نبی ﷺ کے دو خطبے ہواکرتے تھے ان کے درمیان بیٹھتے قرآن پڑھتے اور نصیحت کرتے۔