کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چھوٹاگاؤں جس میں جمعہ درست نہیں اس کی کیا تعریف ہے اوربڑا گاؤں جس میں جمعہ درست ہے ، وہ کتنے آدمیوں کا ہوتا ہے اور اگر چھوٹے گاؤں میں پڑھیں تو پھر ظہر پڑھنا ضروری ہے یا نہیں اور بڑے گاؤں میں جمعہ کےبعد ظہر پڑھیں یا نہیں۔؟
واضح ہو کہ جمعہ پڑھنے کے لیے کسی خاص قسم کی بستی ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ بات کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے، بلکہ شرعی دلیل سے یہ ثابت ہے کہ جمعہ کا پڑھنا ہرجگہ فرض ہے ، خواہ شہر ہو یا گاؤں اور خواہ بڑاگاؤں ہو یا چھوٹا گاؤں ۔ چنانچہ قرآن شریف میں ہے۔ یاایھا الذین امنوا اذا النودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ ، یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو ، ظاہر ہے کہ اس آیت میں جناب باری تعالیٰ نے عام طور پر ہر مسلمان کوفرمیایا کہ جمعہ کے دن جمعہ کی اذان ہو تو لوگ فوراً حاضر ہوں، لہٰذا اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ جمعہ کے لیےکسی قسم کی بستی ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہاں البتہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمعہ کے لیے اس قدر آدمی ہونے چاہئیں کہ جماعت ہوجائے ، چنانچہ منتقی میں ہے۔ عن طارق بن شہاب عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الااربعۃ عبدمملوک اوا مرأۃ اوصبی او مریض رواہ ابوداؤد و انتہی۔ مختصراً یعنی ہرمسلمان پر فرض ہے کہ جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے، مگر چار شخص غلام، مملوک، عورت اور لڑکا اور مریض یعنی ان چار شخصوں پر نماز جمعہ فرض نہیں ، پس جمعہ کے لیے اتنے آدمی ہونے چاہیں کہ جن سے جماعت ہوجائے، اور جماعت کے لیے کم از کم دو شخص ہونا چاہیے۔نیل الاوطار میں ہے۔ واما[1] الاثنان فبا نفمام احمدھما الی الاخر یحصل الاجتماع وقد اطلق الشارع اسم الجماعۃ علیہما فقال الاثنان فما فوقہما جماعۃ کما تقدم فی ابواب الجماعۃ۔خلاصہ یہ کہ دو شخصوں سے جماعت ہوجاتی ہے اب آیت اور حدیث دونوں کے ملانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمعہ کے لیے کسی خاص قسم کی بستی ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بقدر جماعت آدمی ہونے چاہیئیں جس کا کم سے کم درجہ دو عدد ہے، لہٰذا ان دلیلوں کے بموجب اگر کوئی ایسی بستی ہو کہ اس میں صرف دو ہی مسلمان ہوں تو ان پربھی جمعہ فرض ہے۔
ہاں البتہ حنفیہ کے نزدیک جمعہ کے لیے مصر یعنی شہر کاہونا شرط ہے اور اس کے ثبوت میں حضرت علی ؓ کے اس قول سے لا [2]جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحی الا فی مصر جامع۔ لیکن واضح ہو کہ حضرت علیؓ کے اس قول سے جمعہ کے لیے مصر کا شرط ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوگا اور خود حنفیہ کے اصول و قواعد کی رو سے بھی ثابت نہیں ہوتا، اس واسطے کہ آیت قرآن اور احادیث صحیحہ مرفوعہ اس قول کی صاف نفی کرتی ہیں کیونکہ آیت و احادیث مرفوعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحت جمعہ کے لیے مصر کا ہونا شرط نہیں ہے بلکہ ہر جگہ اور ہرمقام میں اقامت جمعہ صحیح و درست ہے ، مصر ہو خواہ مصر نہ ہو اور حنفیہ لکھتے ہیں کہ جب حدیث مرفوع صحابی کے کسی قول کی نفی کرے یعنی صحابی کا قول حدیث مرفوع کے خلاف ہو تو وہ قول حجت نہیں ہے۔ فتح القدیر میں ہے ۔ قول[3] الصحابی حجۃ فیجب تقلید ہ عندنا اذا لم ینفہ شئ اخرمن السنۃ انتہی۔ بناء علیہ حضرت علیؓ کا قول حجت نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس قول سے جمعہ کے لیے مصر کا شرط ٹھہرانا خود حنفیہ کے اصول سے بھی باطل ہے اور جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ہرگز جائز نہیں ہے، کیونکہ کسی دلیل شرعی سے جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ثابت نہیں اور جو لوگ جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کے قائل ہیں،وہ یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ دیہاتوں میں جمعہ کے فرض ہونے میں شک ہے، اس وجہ سے احتیاط ظہر پڑھ لینا چاہیے، سو یہ وجہ بالکل غلط اور باطل ہے کیونکہ قرآن و احادیث سے دیہات اور غیردیہات میں جمعہ کا فرض ہونا نہایت صاف اورصراحت کے ساتھ ثابت ہے اور اس میں کسی قسم کاذرا بھی شک و شبہ نہیں، پس جمعہ کے بعد ظہر کو جائز بتانا بنا، فاسد علی الفاسد ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ، حررہ ابومحمد عبدالحق اعظم گڑھی عفی عنہ 9 ذیقعد 1316ھ (سید محمد نذیر حسین)
فی الواقع قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہرجگہ اور ہر مقام میں اقامت جمعہ درست ہے اور چھوٹے بڑے گاؤں کی تفریق نہیں آئی ہے کہ بڑے گاؤں میں تو جمعہ درست ہو اور چھوٹے گاؤں میں نادرست، بلکہ ہرجگہ اور ہر گاؤں میں خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو،اقامت جمعہ درست ہے اورعلمائے حنفیہ جمعہ کے درست ہونے کے لیے جومصر کا ہونا شرط لکھتے ہیں سو ان کی یہ بات بالکل بے دلیل ہے اورساتھ اس کے مصر کی تعریف میں انہوں نے بڑا ہی اختلاف کیا ہے کوئی مصر کی تعریف کچھ لکھتا ہے اور کوئی کچھ اور ان کی تعریفات متخالفہ و متناقضہ میں سے کوئی تعریف بھی نہ لغت سے ثابت ہے اور نہ قرآن و حدیث سے، بلکہ فقہائے حنفیہ نے محض اپنی اپنی رائے سے لکھی ہیں اور جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ہرگز جائز نہیں، نہ چھوٹے گاؤں اور نہ بڑے گاؤں میں اورنہ کسی اور مقام میں رسالہ تحقیقات العلی میں مرقوم ہے کہ نماز جمعہ فرض عین ہے ، فرضیت ظہر اس سے ساقط ہوجاتی ہے اس لیےکہ صلوٰۃ جمعہ قائم مقام صلوٰۃ ظہر ہے، پس جس شخص نے ظہر احتیاطی ادا کی اس نے ایک صلوٰۃ مفروضہ کو دوبار ایک دن، ایک وقت میں بلا اذان شارع ادا کیا اور یہ ممنوع ہے ۔ عن[4] ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لاتصلوا صلوۃ فی یوم مرتین رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی۔ پس جب جمعہ بالکل قائم مقام ظہر کے ہوا، تو اب جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا جائز نہ ہوا اورکسی سلف صالحین صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اورمحدثین رحمہم اللہ سے یہ ظہر احتیاطی منقول نہیں ، نہ ان میں سے کسی نے پڑھا اور پڑھنے کا حکم دیا بلکہ یہ ظہر احتیاطی بدعت و محدث فی الدین ہے، پڑھنے والا اس کا عاصی و آثم ہوگا کیونکہ یہ ایک بدعت نکالی گئی ہے۔ دین میں بعض متاخرین نے اس کو نکالا ہے جیسا کہ بحرالرائق میں ہے۔ وقد [5]افتیت مرارا بعد م صلوۃ الاربع بعدھا ھانبیۃ ظہر خوف اعتقاد ھم عدم فرضیۃ الجمعۃ وھو الاحتیاط فی زماننا اور بھی بحر الرائق میں ہے۔ (ترجمہ) ’’ فتح القدیر میں اس کے دلائل کو بسط سے بیان کیا ہے ، پھر کہا ہم نے اس بحث کو اس لیےطول دیا کہ بعض جاہلوں سے سننے میں آیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں اور جمعہ کو فرض نہیں سمجھتے میں کہتا ہوں کہ ہمارے زمانہ میں جاہلوں کی اکثریت سے اور ان کی جہالت کی دلیل یہ ہے کہ وہ جمعہ کے بعد ظہر کی نیت سے چار رکعت پڑھتے ہیں جس کو بعض متاخرین نے جمعہ میں شک کی وجہ سے جاری کیا ہے اورشک اس بنا پر ہے کہ ایک شہر میں متعدد جمعے جائز نہیں اور یہ روایت صحیح نہیں اور نہ ہی چار رکعت کاثبوت بعد جمعہ کے امام ابوحنیفہ اور صاحبین سے مروی ہے۔‘‘
پس مرو متبع سنت وہ ہے جو کہ اس بدعت و محدث فی الدین کی بیخ کنی کرے اور لوگوں کو اس ظہر احتیاط کے پڑھنے سے روکے انتہی ما فی تحقیقات العلی مختصرا۔ واللہ اعلم۔کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفاء اللہ عنہ۔
[1] اور وہ جب ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں تو اجتماع حاصل ہوجاتا ہے اور شارع نے اس پر جماعت کا اطلاق کیا ہے۔ فرمایا ، دو اور اس سے اوپر جماعت ہے۔
[2] جمعہ ، تشریق، فطر،اضحیٰ بڑے شہر ہی میں ہوسکتے ہیں۔
[3] ہمارے نزدیک صحابی کا قول حجت ہے اور اس کی تقلید ضروری ہے جب کہ اس سے کسی حدیث کی نفی نہ ہوتی ہو۔
[4] آنحضرتﷺ نے فرمایا ایک ہی دن میں ایک ہی نماز کو دو مرتبہ مت پڑھو۔
[5] میں نے کتنی مرتبہ فتویٰ دیا ہے کہ جمعہ کے بعد چار رکعت ظہر کی نیت سے جائز نہیں جس کو ہمارے زمانہ میں احتیاطی کہا جاتا ہے۔