عمرو کہتا ہے کہ بےنمازی کے یہاں کاکھانا پانی اور ا س کے ساتھ کھانا اور مصاحبت جائز و درست نہیں، تاوقتے کہ نماز نہ ہوجائے ، خالد اور اس کے تابعین کہتے ہیں کہ بےنماز ی بھی مخلوق خدا سے ہیں، سب کے یہاں کاکھانا پانی اور سب کے ساتھ کھانا پینا درست و جائز ہے، اب سوال یہ ہے کہ عمرو اور خالد کی باتوں میں سے کس کی بات صحیح ہے اور کس کی غلط۔ بینوا توجروا
بے نمازی کے یہاں کا کھانا او رپانی حرام نہیں ہے مگر چونکہ بے نمازی اسلام کے ایک رکن اعظم یعنی نماز کاتارک ہے جو کفر اور ایمان کے درمیان میں مابہ الفرق ہے او راسی ترک نماز کی وجہ سے بے نمازی بہت سے علماء کے نزدیک کافر ہیں اور بعض احادیث سے بھی اس کاکافر ہونا ثابت ہوتا ہے اور اس کے نہایت درجہ کے فاسق ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے ، لہٰذا اس کی دعوت قبول کرنا اور اس کے یہاں کھانا نہیں کھانا چاہیے، مشکوٰۃ شریف میں عمران بن حصین سے روایت ہے ۔ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن اجابۃ طعام الفاسقین یعنی رسول اللہ ﷺ نے فاسقین کی دعوت قبول کرنے اور ان کے یہاں کھانا کھانے سے منع فرمایاہے اور بےنمازی سے ملنے جلنے او راس کے ساتھ مصاحب رکھنے کی بات یوں ہے کہ اس کے سمجھانے اور نصیحت کرنے کی غرض سے اس سے مصاحبت و مخالطت جائز ہے، پس اگر وہ سمجھ گیا او راللہ تعالیٰ نے اس ہدایت دی اور نماز پڑھنے لگا فبہا اور اگر باوجود سمجھانے اور نصیحت کرنے کے بھی نماز نہیں پڑھتا تو اب اس کی مصاحبت و مخالطت سے احتراز چاہیے۔مشکوٰۃ شریف میں ہے ۔ عن عبداللہ بن مسعود قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لما وقعت بنو اسرائیل فی المعاصی نھتہم علماؤھم فلم ینتھوا فجالسوھم فی مجالسہم واکلوھم و شاربوھم فضرب اللہ قلوب بعضہم ببعض فلعتہم علی لسان داؤد و عیسیٰ بن مریم ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون الحدیث رواہ الترمذی و ابوداؤد۔ یعنی عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ جب بنی اسرائیل معاصی میں پڑے تو ان کے علماء نے ان کو منع کیا ، سو وہ باز نہیں آئے، پھر ان کے علماء نے ان کے ساتھ مجالست و مصاحبت کی اور ان کے ساتھ کھانے پینے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بعض کے قلوب کو بعض کے ساتھ مارا اور داؤد علیہ السلام او رعیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے ان کولعنت کی او ریہ اس سبب سے کہ وہ نافرمانی کرتے اور حد سےبڑھتے تھے۔ روایت کیا اس حدیث کو ترمذی اور ابوداؤد نے۔ واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم۔ حررہ سید محمد نذیرحسین (سید محمد نذیرحسین)