سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(177) چلتی ہوئی ریل میں نماز فرض وسنت پڑھنی جائز ہے؟

  • 5684
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2223

سوال

(177) چلتی ہوئی ریل میں نماز فرض وسنت پڑھنی جائز ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وقت روانی یعنی چلتی ہوئی ریل میں نماز فرض وسنت پڑھنی جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں حالت روانگی میں ریل کے نماز فرض پڑھنی جائز ہے او رجب فرض پڑھنے جائز ہوئے تو سنت بدرجہ اولیٰ جائز ہوگی اس واسطے کہ ریل کسی طور پر رواں ہو یا ٹھہری ہوئی حکم میں تخت کے ہے او رتخت پر نماز عذر اور غیر عذر دونوں حالت میں درست ہے ، تو بلا شبہ اس پر بھی دونوں  صورتوں میں نماز درست ہے، کیونکہ وجہ تشبیہ سے حکم مشبہ کا مثل حکم مشبہ بہ کے ہوتا ہے۔ کما لا یخفی علی لہ ادنی فطانۃ فی علم البلاغۃ۔ رہا یہ امر کہ اس کو روانگی میں گھوڑے وغیرہ کے ساتھ مشابہت ہے او رگھوڑے  وغیرہ پر بلاعذر نماز فرض جائز نہیں  تو اس پربھی بلاعذر جائز نہ ہوگی،صورت اس کی یہ ہے کہ گھو ڑے یا شتر پر جو نماز بلاعذر جائز نہیں وہ اس وجہ سے کہ باوجود قدرت کے قیام اور رکوع اور سجود فوت ہوجاتا ہے ، بخلاف ریل کے کہ کوئی رکن قیام و رکوع و سجود فوت نہیں ہوتا،پس باوجود مشابہت گھوڑے وغیرہ کے ارکان اصلی فوت نہیں ہوئے او رمشابہت نے کچھ اثر نہ کیا تو حکم ایک نہ رہا جیسا کہ بحرالرائق میں ظہیر یہ سےنقل کیا ہے۔ واما[1] الصلوٰۃ علی العجلۃ ان کان طرف العجلۃ علی الدابۃ وھی تسیرا ولا تسیر فھی صلوۃ علی الدابۃ تجوز فی حالۃ العذرولاتجوز فی غیر حالۃ العذر وان لم تکن طرف العجلۃ علی الدابۃ جاز وھو بمنزلۃ الصلوۃ علی السریر انتہی وھذا کلہ فی الفرض۔

پس  اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ ریل گاڑی کا حکم چلتے اورٹھہرتے دونوں وقتوں میں مثل تخت کے ہے، اس واسطے کہ صاحب ظہیریہ نے دوسرے جملہ وان لم یکن الخ میں قید سیر اور عدم سیر کی نہیں کی، جیسا کہ اوّل جملہ میں کی ہے ، باقی رہا امر اگر کوئی کہے کہ جب عجلہ کا ایک طرف دابہ پرہوئے، اس وقت بھی رکوع اور قیام او رسجود فوت نہیں ہوگا تو چاہیے کہ اس حالت میں بھی نماز جائز ہوجائے ،حالانکہ سیر او رعدم سیردونوں حالت میں بلاعذر نماز فرض  جائز نہیں ، جیسا کہ عبارت ظہیریہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جواب اس کا یہ ہے کہ عجلہ پر جو از نماز کی وجہ مشابہت تخت کے ہے اور وقت تعلق دابہ کے اس کی طرف سے مشابہت کامل پائی نہ گئی تو ترتب حکم کا یعنی جواز نماز کا کیونکر ہوئے، رہافوت او رعدم فوت ارکان کا وہ وجہ خاص عدم جواز نماز دابہ کی ہے ،عجلہ سے کچھ علاقہ نہیں، پس جب عجلہ حکم تخت سے خارج ہوئی تو بہ سبب تعلق دابہ کے حکم میں اس کے داخل ہوگئی اور مشابہت تام تخت سے جب ہی ہوگی کہ جب عجلہ بتمامہ زمین پر ہوئے کیونکہ غرض شارع کی وضع علی الارض میں تشابہ ہے نہ کسی دوسرے امر میں ۔

(ترجمہ) ’’اگربگھی کا کوئی حصہ جانور پرنہ ہو او رجانور اس کو رسی کے ذریعہ کھینچتا ہو تو اس پر نماز بلا عذر جائز ہے کیونکہ وہ تخت کے حکم میں ہے جوزمین پر بچھا ہو اور اگر  اس کاکوئی حصہ جانور پر ہو اور بگھی چل رہی ہو تو اس پر بلاعذر نماز جائز نہیں ہے۔‘‘

اور اگر اس ریل گاڑی کو بہ سبب روانگی بدوں گھوڑے اور بیل وغیرہ کے کشی کے ساتھ تشبیہ دے دیں تو بے شکو شبہ نماز پڑھنی جائز و درست ہے جیسا کہ کشتی میں  ولو[2] صلی فی فلک قاعد اصح یعنی لو صلی فرضا قاعدا بلا عذر صحت وقد اشار کما فی البدائع وقالا لا یجزیہ الامن علۃ لاانقیام مقدور علیہ فلا یترک ولہ ان الغالب فیھا دوران الرأس وھو کا لمتحقق الا ان القیام افضل لانہ ابعد عن شبہۃ الخلاف کذا فی البحر الرائق وھکذا فی الھدایۃ والنھایۃ والاختیار۔ پس اس مقائسہ پربیٹھ کے پڑھنے کی صورت میں اختلاف  ہے اور اگر کھڑے  ہوکر پڑھے، تو بالاتفاق جائز ہے او ریہ اختلاف او راتفاق سائرہ اور غیر مربوط میں ہے اور مربوطہ میں تو اتفاق ہے۔ والخلاف [3]فی غیر المربوطۃ والمربوطۃ کالشط ھو الصحیح کذا فی الھدایۃ وھو مقید بالمربوطۃ بالشط اما اذا کانت مربوطۃ فی لجۃ البحر نا لا صح ان کان الریح یحرکھا شدیدا فھی  کالسائرۃ ولا فکالواقفۃ ثم ظاہر الھدایۃ والنھایۃ والاختیار جواز الصلوٰۃ فی المربوطۃ فی الشط مطلقا کذا فی بحرالرائق۔ تو   جب  اختلاف امام ابو حنیفہ اور صاحبین  رحمہم اللہ کا قیام کے پائے جانےسے جاتا رہا ،کشتی کی حالت روانگی اور سیر میں کیونکہ ٹھہرنے کے وقت جواز نماز میں اتفاق ہے، جیسا کہ عبارت منقولہ سےظاہر ہے پس برتقدیر تشبیہ ریل کی کشی سے ریل میں بھی بلااختلاف عین روانگی میں بہ سبب پائے جانے جملہ ارکان نماز کے نماز فرض درست و جائز ہوگی ہاں باقی کا خدشہ حدیث اسکتوا فی الصلوٰۃ۔ اگرچہ وہ اس مقام پر قابل جواب کے نہیں کیونکہ اگر یہ خدشہ واقعی ہے تو کشتی میں بھی ہوگا او رکشتی میں تو جواز نماز مسلم ہے ،پس جو جواب اس میں ہوگا وہی جواب اس میں بھی ہے ،مگر واسطے وضاحت اور رفع اشتباہ کے لکھا جاتاہے وہ یہ ہے کہ یہاں امر سکون سے ممانعت حرکت اختیاری اور  قصدی ہے جو لوگ وقت سلام کے ہاتھ اٹھا کے اشارہ کرتے تھے جیسا کہ مورد اس حدیث سے سمجھا جاتا ہے ۔ قال[4] خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذ ناب خیل شمس اسکنوا الخ، اور خشوع اور خضوع مراد ہے۔ وفیہ[5] الامر بالسکون فی ا لصلوٰۃ والخشوع فیھا کذا فی النووی۔ نہ حرکت اضطراری کی ممانعت کیونکہ امر اضطراری غیر مقدور ہے اور غیر مقدور پر فعل و ترک کی تکلیف نہیں، جیسا کہ وسوسہ قلب مطلقا نہ اس کے ترک پر عزیمت او رنہ اس کے قبول  اثر میں استحقاق عقاب ، فی الجلالین لا [6]یوخذ احد بذنب احد ولا بمالم یکسبہ بما وسوست بہ نفسہ۔پس حرکت ریل کا صدمہ کچھ  تھوڑا جس سے مطلقا ادائے ارکان نماز میں خلل نہیں ہوتا ہے جو راکب کو پہنچتا ہے وہ بہ سبب غیر مقدور ہونے کے محض لاشے ہے اس کا کچھ اعتبار نہیں اور دوسرا خدشہ اس امر کا کہ صاحب درمختار نے نماز عجلہ میں واقف ہونے کی قید لگائی ہے۔ فی[7] الدرالمختار وان لم یکن طرف العجلۃ علی الدابۃ جاز کالواقفۃ، وہ جمہور فقہا ء کے نزدیک ماخوذ نہیں اس واسطے کہ اگر یہ قول اس قید کے ساتھ جمہو رفقہاء کے نزدیک مقبول ہوتا تو ہر کتاب فقہ میں یہ قید موجود ہوتی، حالانکہ ایسا نہیں فی ردالمختارقولہ ولو واقفۃ کذا قیدہ فی شرح المنیۃ ولم ارہ لغیرہ یعنی اذا کانت العجلۃ علی الارض الخ،پس معلوم ہوا کہ قول مختار اور مفتی بہ جمہور فقہاء کا بغیر قید واقف ہونے کے ہے اورعرصہ پانچ چھ برس کاگذرا کہ بعض علماء نے اپنی تحریر میں روایات وجوب استقرار موضع سجدہسے اس مدعا پرکہ نماز عجلہ میں سکون و قرار شرط ہے ، استدلال کیاتھا ہم نے اس کے جواب میں لعبارت فارسی جواب الجواب میں یہ لکھا تھاکہ:

(ترجمہ)’’ وہ جو کسی ٹھہری  ہوئی چیز پر سجدہ کرنے کےمتعلق انہوں نے روایات نقل کی ہیں ان روایات سے یہ  مفہوم نہیں نکلتا کہ مقام نماز کے تحرک و انتقال کی صورت میں جبکہ نمازی کی پیشانی اس پر قرا رپکڑے  ، تو بھی نماز جائز نہیں ہے ، بلکہ ان روایات سے صرف اسی قدر معلوم ہوتا ہے کہ اگر نمازی کی پیشانی قرار نہ پکڑے تو نماز صحیح نہیں ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ سجدہ کی جگہ او رپیشانی رکھنے کامقام ایساہونا چاہیےکہ جب سجدہ کرنے والا اپنے  منہ سے اس جگہ کودبائے تو وہ جگہ نیچی نہ ہو یعنی وہ جگہ سخت او رموٹی ہونی چاہیے  ،حاصل کلام یہ کہ جیسے زمین پرسجدہ جائز ہے ایسی جگہ پر بھی جائز ہے جو زمین کے حکم میں ہو کہ اس پر پیشانی ٹک سکے تو ایسی صورت میں چٹائی ، جائے نماز ،گندم ،جو ، تخت  ، بگھی وغیرہ پر جب کہ وہ زمین پر ہو سجدہ جائز ہوگا کیونکہ وہ زمین کے حکم میں ہیں۔بخلاف اس کے کہ اگر وہ جانور کی پیٹھ پر ہوگی تو اس کا حکم اس چٹائی کا ہو جودرختوں کے درمیان بندھی ہوئی ہو ، مطلب یہ کہ ہر وہ چیز جو سخت ہو کہ سجدہ کرنے والے کے دبانے سے نیچی نہ ہوسکے اس پرنماز جائز ہے  ، خواہ وہ ساکن ہو یا متحرک ، چنانچہ بحرالرائق وغیرہ میں لکھا ہے کہ اگر بگھی کا کچھ حصہ جانور پربھی ہو تو وہ جانور کے حکم میں ہے اس پر بغیرعذر کے نماز درست نہیں ہے اور اگر وہ زمین پر ہو تو اس پر نماز بغیر عذر بھی جائز ہے  ، خواہ حرکت میں ہو یاسکون میں ، تو بگھی کے کھڑا ہونے کو مقام سجدہ کے استقرار کے ہم معنی قرار دینا قیاس مع الفارق ہے۔‘‘



[1]   اگر بگھی یا ٹانگہ کا کچھ حصہ جانور کے اوپر بھی ہو تو خواہ وہ چلتا ہو یا ساکن ہو ، اس پر بغیرعذر کے نماز جائز نہیں ہے۔ اگر اس کا کوئی حصہ جانور  پرنہ ہو تو اس کا حکم تخت کا ہے اس پر نماز بغیر عذر کے بھی جائز ہے۔

[2]   اگر کشتی میں بیٹھ کر نماز بلا عذر پڑھے تو جائز ہے ، توصاحبین کے نزدیک بلا عذر بیٹھ کر پڑھنادرست نہیں کیونکہ  کشتی میں کھڑا ہوا جاسکتا ہے او رامام صاحب کااستدلال یہ ہے کہ کشتی پراکثر چکر آجاتے ہیں اور اس کو متحقق ہی سمجھ لیا گیا ہے ،ہاں قیام بہتر ہے اور اس سے اختلاف کا شبہ دور ہوجاتا ہے۔

[3]    او راختلاف اس میں ہے  جوبندھی ہوئی نہ ہو، او ربندھی ہوئی کنارےکی طرح ہے او ریہ کنارہ کے ساتھ بندھی  ہونے سے مقید ہے اگر سمندر یا دریا کے درمیان بندھی ہوئی ہو، تو صحیح  یہ ہے کہ اگر اس کو شدید حرکت دے رہی ہو تو وہ چلنے والی کی طرح ہے، ورنہ ٹھہری ہوئی کی طرح اور مختاریہ  ہے کہ کنارہ سے بندھی ہوئی کشتی پر نماز مطلقاً جائز ہے۔

[4]    رسو ل اللہ ﷺ ہم پرنکلے اور فرمایا، مجھے کیا ہے کہ میں تم کوسرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھوں کو اٹھاتے دیکھتا ہوں، سکون اختیارکرو۔ الخ

[5]    اور اس میں حکم ہے کہ نماز میں سکون اور خشوع اختیار  کرو۔

[6]    کوئی آدمی کسی دوسرے کے گناہ پرنہیں پکڑا جاتا اورنہ کسی ایسے جرم پرجو اس نے نہ کیا ہو ، صرف دل میں خیال آیا ہو۔

[7]    اگر بگھی کا کوئی حصہ جانور پرنہ ہو تو وہ ٹھہری ہوئی کی طرح ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 559

محدث فتویٰ

تبصرے