سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(174) سراٹھانے ... حمدا کثیرا طیبامبارکا فیہ صلوٰۃ فرضیہ میں پڑھنا

  • 5681
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3827

سوال

(174) سراٹھانے ... حمدا کثیرا طیبامبارکا فیہ صلوٰۃ فرضیہ میں پڑھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے  دین اس مسئلہ میں کہ رکوع سے سراٹھانے کے بعد ربنا لک الحمد حمدا کثیرا طیبامبارکا فیہ صلوٰۃ فرضیہ میں پڑھنا جائز ہے یانہیں اور دونوں سجدوں کے درمیان اللھم اغفرلی وارحمنی الخ صلوٰۃ فرضیہ میں چاہیے یانہیں ، حدیث سے کیا ثابت ہوگا ہے۔ بینواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ رکوع سے سراٹھانے کے بعد ربنا لک الحمد حمد کثیرا طیبا مبارکا فیہ و بین السجدتین اللہم اغفرلی الخ صلوۃ فرضیہ بلا ریب جائز ہے۔ یہی بات احادیث سے ثابت ہے:

(ترجمہ) ’’رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ ہم آنحضرتﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے  تھے کہ ایک آدمی نے رکوع سے سر اٹھا کر کہا ربنا لک الحمد حمدا کثیرا  طیبا مبارکا فیہ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ کلمات کس نےکہے تھے، میں نے تیس سے زیادہ فرشتے دیکھا ہیں جو اس کی طرف دوڑ رہےتھے کہ کون پہلے لکھے۔ حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ جب رکوع سے سراٹھاتے تو فرماتے ربنا ولک الحمد ملا السموات والارض وملا ما بینما و ملاما شئت من شئ بعد، اور اس مضمون کی روایتیں عبداللہ بن عمر، ابن عباس، ابن ابی اوفی، ابوحجیفہ او رابوسعید خدری سے مروی ہیں، امام ترمذی کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کی حدیث حسن ہے اوربعض اہل علم کاعمل اسی پر ہے، امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے اور فرض اورنفل دونوں میں پڑھے، بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ نفل نماز میں پڑھے او رفرضوں میں نہ پڑھے۔ حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ دو سجدوں کے درمیان رب اغفرلی پڑھا کرتے تھے ،ابن عباس کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ دو سجدوں کے  درمیان اللہم اغفرلی وارحمنی و اجبرنی واہدنی وارزقنی پڑھا کرتے تھے حضرت علیؓ سے بھی ایسی روایت ہے۔ امام شافعی، احمد، اسحاق بھی اسی کے قائل ہیں ، فرضوں اور نفلوں میں پڑھے۔

واضح ہو کہ بقاعدہ حنفیہ اللہم اغفرلی وارحمنی واھدنی وعافنی الخ کا پڑھنا درمیان جلسہ کے مستحق ہے کیونکہ حنفی مذہب میں درمیان جلسہ کے ذکر مسنون نہیں کہتے پس نفی سنت سے نفی مستحب نہیں ہوتی کیونکہ مذہب حنفی میں اطلاق سنت کا مؤکدہ  پرہوتا ہے نہ مستحب پر ، پس نفی سنت مستلزم نفی مستحب نہیں ہوسکتی،کما لا یخفی علی الماہربالفقہ و مع ہذا حدیث میں مطلقا پڑھنا اس کا نماز میں درمیان جلسہ کے آیا ہے ، خواہ فرض  ہو یا نفل اور تخصیص تحکم محض ہے او رامام احمد فرض کہتےہیں  اس کو پڑھنا جلسہ میں، اسی لیے قاضی ثناء اللہ صاحب قدر سرہ نے ہیئت ادا نماز میں دعاء مذکورہ کو بیان کیا ہے۔ لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ  حسنہ پرعمل چاہیے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ حررہ السید محمدنذیر حسین

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 554

محدث فتویٰ

تبصرے