سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) مسئلہ وحدۃ الوجوداوروحدۃ الشہود

  • 568
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1229

سوال

(67) مسئلہ وحدۃ الوجوداوروحدۃ الشہود

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسئلہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی صوفیاء کے نزدیک کیا تعریف ہے ؟ اورمحقیقین علماء اس کے کیا معنی مراد لیتے ہیں ؟ اور یہ توحید وحدۃ الوجود اور وحدۃ المشہود کی زمانہ سلف میں تھی یا نہیں ؟ ا زراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

مولاناجامی ؒ نے اپنی کتاب ’’نفحات الانس من حضرات القدس فارسی‘‘کے صفحہ 17الغایت صفحہ 20میں بحوالہ ترجمۃ العوارف باب اولی توحیدکے چارمراتب لکھے ہیں۔ اصل عبارت نقل کرکے اس کا ترجمہ کرنے سے تو بات بہت طویل ہوجائے گی۔ اس لیے کسی قدر توضیح کے ساتھ اردو خلاصہ پر اکتفاء کی جاتی ہے جس کو زیادہ تفصیل کا شوق ہو وہ اصل کتاب ملاحظہ کرے۔ اولی توحیدایمانی ،دوم توحیدعلمی ،سوم توحیدحالی ،چہارم توحیدالٰہی

توحیدایمانی

عوام کی توحیدہے یعنی کتاب وسنت کے مطابق خدا کو وحدہ لاشریک سمجھنا اور اس کی عبادت میں کسی کوشریک نہ کرنا۔ دل میں اس کا اعتقاد رکھنا اور زبان سے اقرارکرنا۔ اوریہ توحیدمخبرصادق کی خبر کے تصدیق کرنے کا نتیجہ ہے اور ظاہری علم سے حاصل ہے۔ اور صوفیاء کرام میں توحید میں عام مومنوں کے ساتھ شریک ہیں اور باقی قسموں میں ممتاز ہیں ۔

توحیدعلمی

باطنی علم سے حاصل ہوتی ہے جس کوعلم الیقین کہتے ہیں۔ اور وہ اس طرح ہوتی  ہے کہ انسان کا یقین اس حدتک پہنچ جائے کہ موجودحقیقی اور مؤثر مطلق بجز خدا کسی کو نہ جانے تمام ذوات صفات اور افعال کو خدا کی ذات ،صفات اور افعال کےسامنے ہیچ سمجھے۔ ہر ذات کو اس کی ذات کا اثر خیال کرے اور ہر صفت کو اس کی صفت کا پرتو جانے۔ مثلاً جہاں علم ، قدرت ، ارادہ ، سننا دیکھنا پائے۔ ان سب کو خدا تعالی کے علم ،قدرت ،ارادہ ،سننے دیکھنے کے آثارسے سمجھے۔ اسی طرح باقی صفات وافعال کو خیال کرے گویا ظاہری اسباب کا پردہ درمیان نہ دیکھے۔ اور سب کو مؤثر حقیقی کی طرف سے سمجھے۔ یہاں تک کہ ظاہری اسباب سے متاثر نہ ہو۔ مگرچونکہ اس مرتبہ میں حجاب باقی رہتاہے اس لیے اکثر اوقات نظر ظاہری اسباب کی طرف چلی جاتی ہے جوشرک خفی کی قسم ہے۔

توحیدحالی

یہ ہے کہ قریب قریب تمام حجابات درمیان سے اٹھ جاتے ہیں۔ اورموحدمشاہدہ جمال وجود واحد کا کرتاہے جیسے ستاروں کا نورآفتاب کے نورمیں غائب ہوجاتاہے اسی قریب قریب تمام وجودات موحدکی نظرسے غائب ہوجاتے ہیں ۔یہاں تک کہ توحیدکی صفت کوبھی اسی وجود واحدکی صفت دیکھتاہے اور اپنے مشاہدہ کوبھی اسی وجود واحدکی صفت دیکھتاہے۔ غرض اس کی نظرمیں وحدت ہوتی ہے۔ دوئی کا وہاں دخل نہیں رہتا۔ اس طریق سے موحد کی ہستی بحرتوحید کا ایک قطرہ ہو کراس میں مضمحل ہوجاتی ہے اور ایسی گھل  مل جاتی ہے  کہ وہاں انتشارنہیں رہتا۔ اسی بناء پرجنید بغدادی ؒ (سرتاج صوفیاء )نے کہا ہے :

’’التوحیدمعنی یضمحل فیه الرسوم ویندرج فیه العلوم یکون اللہ کمالم یزل،،

’’یعنی توحیدایک معنی ہے جس میں رسمی وجودحقیقی وجودمیں گھل مل جاتے ہیں اور علوم اس میں مندرج ہو جاتے ہیں۔گویا خدا ویسے کا ویساہے۔کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی۔‘‘          

یہ تو مشاہدہ سے پیدا ہوتی ہے اور توحیدعلمی مراقبہ سے۔ مراقبہ ظاہر کی طرف سے توجہ ہٹا کرجمال محبوب کی انتظارہے اور مشاہدہ محبوب کا دیدارہے۔ توحیدعلمی میں اکثر لوازم بشریہ باقی رہتے ہیں اورتوحید عالی میں تھوڑے باقی رہتے ہیں۔جس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی دنیا میں ترتیب افعال اورتہذیب اقوال کے ساتھ مکلف ہے اور مکلف اسی صورت میں رہ سکتاہے کہ اس کے ساتھ کچھ لوازم بشریہ رہیں جن کا اس کو مقابلہ کرنا پڑے اسی بناء پر ابوعلی وقاق ؒ نے کہاہے :

’’التوحیدغریم لایقضی دینه وغیریب لایؤدي حقه ۔،،

’’یعنی توحیدایساقرض خواہ ہے کہ اس کاقرض پورا نہیں ہوسکتا۔اور ایسامسافرہے کہ اس (کی مہمانی ) کاحق ادانہیں ہوسکتا۔‘‘

دنیاکی کبھی کبھی خالص حقیقت توحیدجس میں یکبارگی آثاراور رسمی وجودگم  ہوجاتے ہیں بجلی کی چمک کی طرح نمودارہوتی ہے اورفی الفوربجھ جاتی ہے اور رسمی وجودات کا اثردوبارہ لوٹ آتاہے اوراس حالت میں شریک خفی کا نام نشان نہیں رہتا۔ انسان کے لیے توحیدمیں اس سے بڑھ کر اورکوئی مرتبہ ممکن نہیں ۔

توحیدالٰہی

یہ ہے کہ خدا تعالی خوداپنی ذات میں بغیراس کے کہ دوسرا اس کی طرف وحدت کی نسبت کرے ازل میں ہمیشہ وحدت سے موصوف رہا۔ چنانچہ حدیث میں ہے

’’ کان اللہ ولم یکن معه شئی،،

’’ یعنی خداتعالی تھااوراس کے ساتھ کوئی دوسری شئے نہ تھی ۔‘‘

اوراب بھی اسی طرح ہے اورابدالاباد اسی طرح رہے گا۔چنانچہ قرآن مجیدمیں ہے

﴿ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ‎﴿٨٨﴾--سورة القصص88

’’یعنی ہرشئے ہلاکت والی ہے مگرخداتعالی کی ذات۔‘‘

اس آیت میں یہ نہیں کہاکہ ہرشئے ہلاک ہوجائے گی۔ بلکہ ’’ہالک‘‘ کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بھی ہلاکت والی ہے یعنی نیست اور فانی ہے اس کی مثال اس طرح  ہے جیسے رسّی جلا دی جائے تواس کے بٹ بدستورنظرآتے ہیں اورمعلوم ہوتاہے کہ رسّی قائم ہے۔ حالانکہ حقیقت میں رسّی فنا ہوچکی ہوتی ہے اور اس حالت کے مشاہدہ کے لیے قیامت کا حوالہ دنیا یہ محجوبوں کےلیے ہے ورنہ ارباب بصیرت اوراصحاب مشاہدہ جوزمان ومکان کےتنگ کوچہ سے گزرکرخلاصی پاگئے یہ وعدہ ان کےحق میں قیامت تک ادھارنہیں بلکہ نقدہے یعنی محجوبوں کے لیے جومشاہدہ قیامت کو ہوگا۔ ارباب بصیرت کے لیے اس وقت ہورہاہے ۔

یہ توحیدالٰہی نقص وعیب سے بری ہے۔ برخلاف توحیدمخلوق کے وہ بوجہ نقص وجوہ کے ناقص ہے۔ یہ چارقسمیں توحیدکی صوفیاء کے ہاں مشہورہیں۔ اخیرکی دو وہی ہیں جن کے متعلق آپ نے سوال کیاہے یعنی توحیدحالی ’’وحدۃ الشہود‘‘ہے اورتوحیدالٰہی ’’وحدۃ الوجود‘‘ہے ۔یہ اصطلاحات زیادہ ترمتاخرین صوفیا(ابن عربی وغیرہ)کی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ متقدمین کی کتب میں نہیں۔ ہاں مراد ان کی صحیح ہے ۔توحیدایمانی اورتوحیدعلمی توظاہرہے توحیدحالی کا ذکراس حدیث میں ہے :

«ان تعبداللہ کانک تراہ فالم تکن تراہ فانه یراک»

’’یعنی خداکی اس طرح  عبادت کرگویا کہ تو اس کودیکھ رہاہے۔ پس اگرتو نہ دیکھے تو وہ تجھے دیکھ رہاہے ۔‘‘

یہ حالت چونکہ اکثرطورپرریاضت اور مجاہدہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے یہ عقل سے سمجھنے کی شئے نہیں ہاں اس کی مثال عاشق ومعشوق سے دی جاتی ہے۔ عاشق جس پرمعشوق کاتخیل اتناغالب ہوتاہے کہ تمام اشیاء اس کی نظرمیں کالعدم ہوتی ہیں۔ اگردوسری شئے کا نقشہ اس کے سامنے آتاہے تو محبوب کا خیال اس کے دیکھنے سے حجاب ہوجاتاہے گویا ہرجگہ اس کومحبوب ہی محبوب نظرآتاہے خاص کرخدا کی ذات سے کسی کوعشق ہوجائے تو چونکہ تمام اشیاء اس کے آثاراور صفات کا مظہرہیں اس لیے خدائی عاشق پراس حالت کا زیادہ اثر ہوتاہے یہاں تک کہ ہرشئے سے اس کو خدا نظرآتاہے وہ شئی نظرنہیں آتی ہے جیسے شیشہ دیکھنے کے وقت چہرے پرنظرپڑتی ہے نہ کہ شیشہ پر۔

شیخ مخدوم علی ہجویری ؒ معروف بہ داتاگنج بخش جن کا لاہورمیں مزارمشہورہے ۔انہوں نے اپنی کتاب ’’کشف المحجوب ‘‘باب مشاہدہ میں صوفیاء کے اقوال اس قسم کےبہت لکھے ہیں جن کاخلاصہ یہی ہے جوبیان ہواہے کہ غلبہ محبت اورکمال یقین کی وجہ سے ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ غیرخدا پرنظرہی نہیں پڑتی۔ اسی طرح دوسرے بزرگوں نے اپنی تصانیف میں لکھاہے۔ مگریہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خواص کی دوحالتیں ہیں۔ جلوت اورخلوت۔ جلوت لوگوں سے اختلاط اورمیل جول کی حالت ہے اورخلوت علیحدگی اورتنہائی کی حالت ہے جس میں ظاہراً باطناً خدا کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ جلوت میں تبلیغ کا کام ہوتاہے اورخلوت میں نفس کی اصلاح اور دل کی صفائی ہوتی ہے۔ قرآن مجیدمیں سورۃ مزمل کے شروع میں ان دونوں حالتوں کابیان ہے چنانچہ ارشادہے :

﴿ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ‎﴿٦﴾‏ إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا ﴾سورة المزمل6-7

’’بیشک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب ہے اور بات کو بہت درست کر دینے والا ہے-یقیناً تجھے دن میں بہت شغل رہتا ہے‘‘

ان دونوں آیتوں میں ان دونوں حالتوں کا ذکرہے جن کی یہ دونوں حالتیں قائم ہیں ان کی توریس ہی نہیں اول نمبران میں انبیاء علیہم السلام کاہے پھردرجہ بدرجہ ان کے جانشینوں کاہے۔ جولوگ ساری عمرخلوت میں گذا رتے ہیں اگرچہ ان کی حالت مشاہدہ زیادہ ہوتی ہے مگرچونکہ یہ چیز صرف ان کی ذات سے تعلق رکھتی ہے اس میں متعدی فائدہ نہیں اس لیے وہ علماء ربانین کا مقابلہ نہیں کرسکتے اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا: عالم کی فضیلت عابدپرایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاندکی ستاروں پر۔‘‘اور دوسری حدیث میں ہے ۔’’جیسی میری تمہارے ادنیٰ پر۔‘‘ (مشکوۃ کتاب العلم فصل 2)

پس انسان کوچاہیے کہ توحیدحالی کرتے ہوئے افضل مرتبہ ہاتھ سے نہ دے۔ جومحض گوشہ نشینی کوبڑا کمال سمجھے ہوئے ہیں اور اپنی عمراسی میں گزار دیتے ہیں وہ علمائے ربانی کی نسبت بڑے خسارہ میں ہیں۔ اگرچہ ذاتی طورپران کی طبیعت کواطمینان وسکون زیادہ ہو۔ اور ذوق عبادت اورحلاوت ذکرمیں خواہ کتنے بڑھے ہوئے ہوں مگرعلمائے ربانی کا متعدی فائدہ اس سے بڑھ جاتاہے ۔کیونکہ شیطان کااصل مقابلہ کرنے والی  یہی (علمائے ربانی)کی جماعت ہے۔ عابدریاضت اورمجاہدہ سے صرف اپنی خواہشات کو دباتاہے اور یہ جماعت ہزاروں کی اصلاح کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں :

’’ہزارعابدسے شیطان اتنانہیں ڈرتاجتناایک عالم سے (ڈرتاہے)‘‘ (مشکوة کتاب العلم فصل 2)

خداہمیں بھی ربانی علماء سے کرے اورانہی کے زمرہ میں اُٹھائے ( آمین)

اب رہی ’’توحیدالٰہی ‘‘سواس کے متعلق بہت دنیا بہکی ہوئی ہے ۔بعض تواس کامطلب’’ہمہ اوست ‘‘سمجھتے ہیں یعنی ہرشئے عین خداہے۔ جیسے برف اورپانی بظاہردومعلوم ہوتے ہیں مگرحقیقت ایک ہے اسی طرح خدا اور دیگرموجودات ہین بعض کہتے ہیں کہ یہ تمام موجودات وحدت حقیقی کا عکس ہیں۔ جیسے ایک شخص کے اردگردکئی شیشے رکھ دیئے جائیں توسب میں اس کاعکس پڑتاہے ایسے  ہی خدا اصل ہے اور باقی اشیاء اس کا عکس ہیں۔اوربعض کہتے ہیں کہ کلی جزئ کی مثال ہے جیسے انسان اورزید،عمر،بکرہیں ۔حقیقت سب کی خداہے اوریہ تعینات حوادث ہیں۔ غرض دنیا عجیب گھورکھدھندسے میں پڑی ہوئی ہے کوئی کچھ کہتاہے کوئی کچھ ۔

صحیح راستہ اس میں یہ ہے کہ اگراس کا مطلب یہ سمجھاجائے کہ سوائےخداکے کوئی شئے حقیقۃ موجودنہیں اوریہ جوکچھ نظرآرہاہے یہ محض توہمات ہیں جیسے ’’سوفسطائیہ ‘‘فرقہ کہتاہے کہ آگ کی گرمی اور پانی کی برودت وہمی اورخیالی چیز ہے تو یہ سراسرگمراہی ہے اوراگراس کایہ مطلب ہے کہ یہ موجودات انسانی ایجادات کی طرح نہیں کہ انسان کے فنا ہونے کے بعدبھی باقی رہتی ہیں۔ بلکہ یہ ان کاوجودخداکے سہارے پرہے اگر ادھرسے قطع تعلق فرض کیاجائے تو ان کاکوئی وجودنہیں۔ تویہ مطلب صحیح ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بجلی کاکرنٹ (برقی رو)قمقموں کےلیے ہے۔ گویا حقیقت میں اس وقت بھی  ہرشئے فانی ہے مگر ایک علمی رنگ میں اس کوسمجھناہے اور ایک حقیقت کا سامنے آناہے۔ علمی رنگ میں توسمجھنے والے بہت ہیں مگرحقیقت کا اس طرح سامنے آنا جیسے آنکھوں سے کوئی شئے دیکھی جاتی ہے یہ خاص ارباب بصیرت کاحصہ ہے گویا قیامت والی فنااس وقت ان کے سامنے ہے ۔پس آیہ کریمہ

﴿ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ‎﴿٨٨﴾--سورة القصص88

ان کے حق میں نقدہے نہ ادھار

نوٹ:

ابن عربیؒ،رومی ؒ اورجامی ؒ وغیرہ کے کلمات اس توحیدمیں مشتبہ ہیں۔ اس لیے بعض لوگ ان کے حق میں اچھااعتقادرکھتے ہیں بعض برا،ابن تیمیہ ؒ وغیرہ ابن عربی ؒ سے بہت بدظن ہیں۔ اسی طرح رومی ؒ اورجامی ؒکوکئی علماء براکہتے ہیں۔ مگرمیرا خیال ہے کہ جب ان کاکلام محتمل ہے جیسے جامی ؒ کا کلام اوپرنقل ہوچکاہے اور وہ درحقیقت ابن عربی ؒ کا ہے۔ کیونکہ ابن عربی ؒ کی کتاب ’’عوارف المعارف‘‘سے ماخوذہے توپھران کے حق میں سوء ظنی ٹھیک نہیں۔ اسی طرح رومیؒ کوخیال کرلیناچاہیے۔ غرض حتی الوسع فتوی میں احتیاط چاہیے۔ جب تک پوری تسلی نہ ہو تو فتوی نہ لگانا چاہیے خاص کرجب وہ گزرچکے۔ اور ان کا معاملہ خداکے سپردہوچکا تواب کریدکی کیا ضرورت ؟بلکہ صرف اس آیت پرکفایت کرنی چاہیے۔

﴿ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎﴿١٣٤﴾‏سورة البقرة134

’’یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کیا وه ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے‘‘

نوٹ :

ابن عربی ؒ وغیرہ کاکچھ ذکر’’تنظیم ‘‘جلد9نمبر22مورخہ 29مارچ ؁ 1940ء مطابق 20صفرالمظفر؁ 1399ھ میں بھی ہوچکاہے اوررسالہ ’’تعریف اہلسنت ‘‘کے صفحہ 325و326میں بھی ہم اس کے متعلق کافی لکھ چکے ہیں زیادہ تفصیل مطلوب ہوتووہاں ملاحظہ ہو۔

وباللہ التوفیق

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص140 

محدث فتویٰ

 

تبصرے