تارک صلوٰۃ کے لیےجو لفظ شرک اور کفر کا حدیث میں آیا ہے۔تہدیداً ہے یا وہی ظاہری معنی مراد ہیں؟
جاننا چاہیے کہ تارک صلوٰۃ دو قسم ہیں،ایک تارک منکر وجوب و فرضیت نماز، دوسرا بتکاسل و سستی ، پس قسم اوّل تو خارج ملت اسلام سے ہے اور واجب القتل ہے اگر توبہ نہ کرے اور کافر حقیقی ہے، اما قسم ثانی اس پر اطلاق صرف اسم کفر از روئے حدیث ثابت ہے، چنانچہ امام نووی نے اسی طرح باب باندھا ہے۔ باب[1] بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ۔عن جابر یقول سمعت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول ان بین الرجال وبین الشرک والکفر ترک الصلوٰۃ فمن ترکہا فقد کفر رواہ مسلم و عن بریدۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم العہد الذی بیننا بینھم الصلوٰۃ فمن ترکھا فقد کفر رواہ الترمذی۔لیکن یہ کفر کفر حقیقی نہیں، بلکہ کفران عمل میں معدود ہے کیونکہ بہت آیات و احادیث صریحہ صحیحہ صارفہ معنی حقیقی سے وارد ہیں۔
(ترجمہ) ’’ امام بخاری نے کہا، ان جاہلیت کے گناہوں کا باب جن کا مرتکب کافر نہیں ہوتا ماسوائے شرک کرنےکے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ کسی کو شرک نہیں بخشے گا اور جو گناہ ان کے سوا ہیں وہ جسے چاہے بخش دے،اگرایمانداروں کی دو جماعتیں آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کرادو، تو ان دونوں کو مومن قرا ردیا ،نبیﷺ نے فرمایا، مسلمان سے لڑنا کفر ہے آپ نے فرمایا، تین باتیں ایمان کا اصل ہیں جو لا الہ الا اللہ کہے، اس سے رُک جانا اس کو کافر نہ کہنا کسی عمل کی وجہ سے کافر قرار نہ دینا اور جہاد جاری ہے، آپ نےفرمایا ، دو چیزیں واجب کرنے والی ہیں ، کسی نے پوچھا، واجب کرنے والی کیا ہیں، آپ نے فرمایا جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا دوزخ میں جائے گا اور جوشرک نہیں کرے گا جنت میں داخل ہوگا۔ آپ نےفرمایا کہ جو اس حال میں مرے کہ وہ جانتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ آپ نے فرمایا، جس نے لا الہ الااللہ کہا ،وہ جنت میں داخل ہوگا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے آدم کے بیٹے جب تک تو مجھ کو پکارتا رہے گا اورامید رکھے گا میں تجھے بخشتاجاؤں گا خواہ تیرے عمل کیسے ہوں،مجھے اس بات کی پرواہ نہیں،اگر تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک پہنچ جائیں ، پھر تو مجھ سے بخشش مانگے تو میں تجھے بخش دوں گا۔ اے ابن آدم مجھے اس بات کی پرواہ نہیں، اگر تو گناہوں سے بھری ہوئی زمین لے کر آئے اورتو میرے ساتھ شریک نہ ٹھہراتا ہو، تو میں تیرے پاس اتنی ہی بخشش لےکر آؤں گا۔‘‘
پس جمہور محققین بہ سبب ان آیات و احادیث موجبات رحمت کے حدیث فمن ترکھا فقد کفر کو محمول بر کفر حقیقی نہیں کرتے اور یہی ہے مختار ائمہ ثلاثہ و جماہیر سلف کا قال[2] الامام النواوی اما تارک الصلوٰۃ فان کان منکرالوجو بہا فھو کافر باجماع المسلمین خارج من ملۃ الاسلام الا ان یکون قریب المعہد بالاسلام وان کان ترکہ تکا سلامع اعتقاد وجوبہاکما ھو حال کثیر الناس فقد اختلف العلماء فیہ فذھب مالک و الشافعی و ابوحنیفہ و جماھیر من السلف والخلف الی انہ لا یکفر بل یفسق و یستتاب انتہی۔
علاوہ ازیں بنابر مذہب سلف صالحین و ائمہ متکلمین اعمال شرط کمال ایمان بالنظر الیاللہ ہیں نہ شرط صحت ایمان جیسا کہ مذہب معتزلہ کاہے۔ قال[3] الحافظ ابن حجر فی الفتح المعتزلہ قالوا ھوالعمل والنطق والاعتقاد و الفارق بین المعتزلہ و بین السلف انھم جعلوا الاعمال شرط فی صحۃ والسلف جعلوھا شرطا فی کمالہ وھذا کلہ بالنظر الی ما عنداللہ تعالیٰ۔ پس بناء بر مذہب سلف بترک عمل مثل نماز خارج نفس ایمان سے نہ ہوگا ، غایت مالی الباب کما لیت سے خارج ہوگا ، اس لیے پیغمبر ﷺ نے فرمایا: صلوا[4] خلف کل برد فاجروان عمل الکبائر رواہ ابوداؤد۔ ہاں فی زماننا حسب مصلحت وقت تہدیدا تارک صلوٰۃ کومطلق کافر کہنا جائز ہے نہ یہ کہ مانند کفار غسل و تجہیز و تکفین و نماز جنازہ سےمحروم کیا جائے غایۃ الامر بخیال موعظت عوام امام محلہ و صلحا لوگ اس کے جنازہ پر حاضر نہ ہوں ،واللہ اعلم بالصواب۔
[1] جو آدمی نماز چھوڑ دے، اس پرلفظ ’’کافر‘‘ کا اطلاق ہوسکتا ہے،جابر کہتے ہیں کہ میں نےنبیﷺ سے سنا آپ نے فرمایا کہ آدمی اور کفر و شرک کے درمیان حد فاصل نماز کا چھوڑنا ہے آپ نے فرمایا کہ وہ عہد جو ہمارے اور ان کے درمیان ہے نماز کا ہے جس نے اس کو چھوڑ دیا اس نے کفر کیا۔
[2] امام نووی نےکہا،اگر کوئی نماز کے وجوب کا منکر ہو، تو وہ باتفاق مسلمین کافر ہے، ملت اسلامیہ سے خارج ہے، مگر یہ کہ وہ ابھی نیانیا مسلمان ہوا ہو، اگر اس کو سستی کی بنا پر چھوڑے اور اس کے وجوب کا قائل ہو، جیسا کہ اکثر لوگوں کا حال ہے تو علماء کا اس میں اختلاف ہے، مالک، شافعی، ابوحنیفہ اور جمہور کے نزدیک وہ کافر نہیں ہے، بلکہ فاسق ہے اس سے توبہ کرائی جائے۔
[3] حافظ ابن حجر نے کہا ،معتزلہ کہتے ہیں کہ (ایمان) عمل شہادت اور اعتقاد کا نام ہے اورمعتزلہ اور سلف کے درمیان فرق یہ ہے کہ معتزلہ عمل کو ایمان کی صحت کے لیےشرط قرا ردیتے ہیں اور سلف اعمال کو ایمان کے کمال کی شرط قرار دیتے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے معاملہ کےنظریہ سے ہے۔
[4] ہرنیک و بد کے پیچھے نماز پڑھلیا کرو ، اگرچہ وہ کبیرہ کامرتکب ہو۔