کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ تین رکعت وتر پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر آپ یہ جواب دیں کہ جائز ہے تو ابوہریرہؓ،ابن عباسؓ اور حضرت عائشہؓ کی حدیثوں کا کیا جواب ہے کہ وہ مرفوعاً بہ اختلاف اقوال موقوفاً روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا تین رکعت وتر نہ پڑھا کرو بلکہ پانچ یا سات رکعت وتر پڑھو اور مغرب کی نماز کی مشابہت نہ کرو وغیرہ وغیرہ اور اگر آپ کہیں کہ تین رکعت وتر جائز نہیں ہیں تو ان حدیثوں کا کیا جواب ہے جو تین رکعت وتر پڑھنے کے متعلق آئی ہیں چنانچہ حضرت علی ابن عباس ابوالعالیہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ وتر تین رکعت ہیں ۔ مغرب کی نماز کی طرح کہ وہ دن کے وتر ہیں اور یہ رات کے اور فقہاء سبعہ نے بھی تین رکعت وتر کو اختیار کیا ہے اور حنفیہ تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں اور اگرمخالفت کی بنا پر اجماع نہ بھی تسلیم کیا جائے تو کم از کم جمہور کا مسلک تو ہوگا اور اگر آپ کہیں کہ تین رکعت مع الکراہت جائز ہیں جب کہ امام شوکانی نے بیان کیا ہے تو پھر اس کا کیا جواب ہے کہ اکثر لوگوں نے اس کو اختیار کرلیا ہے جواب شافی سے مطمئن فرما دیں۔
تین رکعت بلا کراہت جائز ہیں کیونکہ صحابہ کی ایک جماعت نے نبی ﷺ سے تین رکعت وتر روایت کئے ہیں مثلاً حضرت علی،ابن عباس ،عمران بن حصین، عبدالرحمٰن بن ابزی، حضرت عائشہ،ابی بن کعب ، ابوایوب، انس بن مالک، عبداللہ بن ابی رومی،عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن مسعود، عبدالرحمٰن بن سبرہ، نعمان بن بشیر،ابوہریرۃ، عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ پندرہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے تین رکعت وتر کی روایت کی ہے اور ان کی روایت صحاح ستہ ،مؤطا امام مالک،دارمی، قیال اللیل،مروزی،طبرانی،ابویعلی،حاکم،دارقطنی،بیہقی، ابن حبان، صحیح ابن سکن میں مروی ہیں ۔ گو ان میں سے بعض بہت کمزور بھی ہیں لیکن ایک کو دوسری سے تقویت حاصل ہوتی ہے ان تمام روایات کو نقل کرنا موجب طوالت ہے پھر اتنی حدیثیں ہوتے تین رکعت کومکروہ کیسے کہا جاسکتا ہے اور ابن حبان دارقطنی ، محمد بن نصر مروزی حاکم نے جو تین رکعات کی ممانعت روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین رکعت وتر نہ پڑھا کرو کہ مغرب کے ساتھ مشابہت کرو بلکہ پانچ یا سات رکعت وتر پڑھا کرو‘‘ حاکم دارقطنی ، حافظ زین الدین عراقی،حافظ ابن حجر ،شیخ مجدالدین فیروز آبادی ، ابن قیم نے کہا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔ ہم اس کی تطبیق یوں دیتے ہیں کہ تین رکعت وتر پڑھنے سے جو ممانعت کی گئی ہے وہ دو تشہد سے ہے جس سے وتر مغرب کی نماز کے مشابہ ہوجاتے ہیں اور اگر ایک ہی تشہد سے تین رکعت وتر پڑھیں تو پھر مکروہ نہیں ہیں چنانچہ ابن حجر عسقلانی نے یہی تطبیق دی ہے اور اس کی تائید حضرت عائشہؓ کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو حاکم نےمستدرک میں روایت کیا ہے کہ نبیﷺ تین رکعت وتر پڑھاکرتے تھے اور آخری رکعت میں تشہد کرتے حضرت عائشہؓ کی اس حدیث کو زرقانی نے مواہب الدنیہ کی آٹھویں جلد میں اورمحمد بن اسماعیل الامیر نے زادالمعاد کے حاشیہ پر لکھا ہے اور سلف صالحین کی ایک جماعت کا یہی مسلک تھا۔ عطاء بھی تین رکعت وتر ایک تشہد سے پڑھتے ہیں ابن حجر عسقلانی ،قسطلانی اور زرقانی نے اپنی کتابوں میں اس کی خوب تفصیل بیان کی ہے اور بعض صحابہ سے جو تین رکعت وتر کی نہی ثابت ہے وہ بھی اسی پر محمول ہے کہ تین رکعت دو تشہد سے نہ پڑھے جائیں کہ اس سے مغرب کی نماز کے ساتھ مشابہت پیدا ہوتی ہے اور ایک تشہد سے تین رکعت وتر کو وہ مکروہ نہیں سمجھتے مثلاً حضرت عائشہ ؓ اور ابن عباسؓ سے تین رکعت وتر کی مخالفت بھی ثابت ہے اور تین رکعت ایک تشہد سے روایت بھی کرتے ہیں اور مغرب کے ساتھ مشابہت کی نفی اس صورت میں ہوجاتی ہے کہ تین رکعت وتر دو سلام سے پڑھے جائیں۔ کہ پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیرے اس صورت میں تین رکعت وتر دو تشہد سے ہوجائیں گے چنانچہ بخاری میں عبداللہ بن عمر سے یہی طریقہ مروی ہے ۔
حاصل کلام یہ کہ بالکل مغرب کی طرح تین رکعت وتر دو تشہد اور ایک سلام سے منع ہیں اور ایک تشہد یا دو سلام سے ثابت ہیں باقی رہا امام شوکانی کا قول کہ تین رکعت وتر جائز تو ہیں لیکن کراہت سے اور بہتر یہ ہے کہ تین رکعت وتر نہ پڑھے ۔ یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ آنحضرتﷺ سے بکثرت تین رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے ۔ گو آپ سے پانچ سات نو گیارہ رکعت بھی ثابت ہیں اور پھر اس صورت میں بعض احادیث کا ترک بھی لازم آتا ہے ۔ اگر تطبیق کی کوئی صورت ممکن ہو تو تطبیق ہی دینا چاہیے نہ بعض احادیث صحیحہ کو چھوڑ دیا جائے اور اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بعض صحابہ سے بالکل مغرب کی نماز کی طرح ایک سلام دو تشہد سے تین رکعت وتر ثابت ہیں تو اس کا جواب یہ ہے ان کو نہی مذکور نہیں پہنچی وہ اس میں معذور ہیں اور جب نبی ﷺ سے ایک فعل یا قول ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف کسی صحابی یا تابعی کے قول و فعل کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے اور کسی ایک بھی حدیث سے ثابت نہیں کہ رسول اللہﷺ نےکبھی تین رکعت وتر ایک سلام دو تشہد سے پڑھے ہوں اور دارقطنی کی حدیث سے جو ثابت ہوتا ہے وہ حدیث ضعیف ہے اس کو مرفوعاً صرف یحییٰ بن زکریا نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے بیہقی نےکہا صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث ابن مسعود پر موقوف ہے۔سفیان ثوری، عبداللہ بن نمیر نے اس کو موقوفاً روایت کیا ہے اور اسی طرح دارقطنی کی حضرت عائشہؓ سے حدیث ہے جس کو ابن جوزی نے موضوع بتایا ہے ابن معین نے کہا اسماعیل بن مکی کوئی شے نہیں ہے نسائی نے اسے متروک بتایا۔
اور فقہائے سبعۃ سے جو تین رکعت وتر ایک سلام سے مروی ہیں وہ ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک سے بھی دو تشہد ثابت نہیں ہیں اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ دو صورتوں میں تین رکعت وتر ثابت ہیں یا تو ایک تشہد اور ایک سلام سے پڑھے جائیں اور یا پھر دو سلام اور دو تشہد سے پڑھے جائیں اور فقہائے سبعۃ نے پہلی صورت کو اختیار کیا ہے اور وہ بھی صحیح ہے۔
شیخ سلام اللہ حنفی نے محلی میں امام احمد کا مذہب نقل کیا ہے کہ وہ ایک رکعت وتر کو ترجیح دیتے تھے اور تین رکعت ایک سلام اور ایک تشہد سے جائز اور ایک سلام ، دو تشہد سے مکروہ کہتے تھے باقی رہا طحاوی کا یہ کہنا کہ نبی ﷺ سے تو ایک رکعت سے لے کر گیارہ رکعت تک وتر ثابت ہیں لیکن بعد میں تین رکعت وتر پر اجماع ہوگیا بڑے تعجب کی بات ہے یہ اجماع کب ہوا تھا؟ کہاں ہوا تھا ؟ کن لوگوں نے کیا تھا۔ صحابہ اور تابعین سے بکثرت ایک رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے چنانچہ حافظ زین الدین عراقی لکھتے ہیں ’’خلفائے اربعہ۔ سعد بن ابی وقاص،معاذ بن جبل، ابن بن کعب، ابوموسیٰ اشعری، ابوالدرداء حذیفہ، ابن عمر، ابن عباس،معاویہ، تمیم دارمی، ابوایوب انصاری، ابوہریرہ، فضالۃ بن عبید، عبداللہ بن زبیر،معاذ بن حرف القاری سب ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے اور تابعین میں سے سالم بن عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس بن ابی ربیعۃ، حسن بصری، محمد بن سیرین،عطاء بن ابی رباح، عقبہ بن عبدالغافر، سعید بن جبیر،نافع بن جبیر،جابر بن زید، زہری، ربیعۃ بن عبدالرحمٰن وغیرہ ایک رکعت وتر کے قائل ہیں اور ائمہ میں سے امام شافعی۔ اوزاعی۔ احمد۔ اسحاق۔ ابوثور۔ داؤد بن حزم سب ایک رکعت وتر کے قائل ہیں۔ امام شوکانی نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے اور ابن ابی شیبہ نے جو تی رکعت پر اجماع نق کیا ہے وہ ضعیف ہے۔ کیونکہ عمر بن عبید، حسن بصری پرجھوٹ بولاکرتا تھا۔زیلعی نے کہا عمرو بن عبید متکلم فیہ ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا ہے کہ عمرو بن عبید معتزلی اور قدری تھا۔ابن معین نےکہا اس کی حدیث نہیں لکھنی چاہیے ۔ نسائی نے کہا متروک الحدیث ہے۔ابن حبان نے کہا یہ پہلے بڑا پرہیزگار تھا پھر یہ معتزلی ہوگیا اور حسن بصری کی مجلس سے نکل گیا۔ صحابہ کو گالیاں دینے لگا اور حدیث میں جھوٹ بولنے لگا تومعلوم ہوا کہ حسن بصری سے جو تین رکعت وتر پر عمرو بن عبید نے اجماع نقل کیا ہے وہ ساقط الاعتبار ہے اورحسن بصری سے اجماع کیسے نقل کیا جاسکتا ہے جبکہ محمد بن سیرین ایک سچے تابعی سے وہ خود روایت کرتے ہیں کہ صحابہ پانچ رکعت وتر بھی پڑھتے اور تین رکعت بھی اور ہر ایک کوبہتر سمجھتے تھے۔