سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(162) دو رکعت سنتیں فجر کی مسجد کے اندر ... پڑھنی مکروہ ہیں یا نہیں

  • 5669
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3036

سوال

(162) دو رکعت سنتیں فجر کی مسجد کے اندر ... پڑھنی مکروہ ہیں یا نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعد قائم ہونے جماعت فرض صبح کے دو رکعت سنتیں فجر کی مسجد کے اندر خواہ قریب صف کے یا دور صف سے پڑھنی مکروہ ہیں یا نہیں، حنفی مذہب کے کتب معتبرہ سے زبان اُردو میں جواب ادا فرما دیں اور اس باب میں کوئی حدیث صحیح جو کہ دلالت کرے کراہت پر وارد ہوئی ہے یا نہیں، بیان کرو ثواب پاؤ گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب مسجد میں جماعت قائم ہو تو بعد اس کے سنتیں فجر کی مسجد میں پڑھنی مکروہ ہیں، خواہ صف کے پاس پڑھے یا دو وصف سے پڑھے، دونوں صورتوں میں مکروہ ہے کیونکہ اس میں مخإلفت پائی جاتی ہے کہ امام جماعت کرا رہا ہے اور یہ شخص جدا جماعت سے سنت پڑھ رہا ہے جیسا کہ ہدایہ اور فتح القدیر حاشیہ ہدایہ اور درمختار اور فتاوے ولواجیہ اور فتاوے عالمگیری اور محیط رضوی وغیرہ سے سمجھا جاتاہے اور ہدایہ فقہ حنفی میں بہت معتبر کتاب ہے اور فتح القدیر بھی بہت معتبر ہے، چنانچہ علمائے حنفیہ پرمخفی نہیں اور قریب صف کے پڑھنے میں اشد کراہت ہے، جیساکہ عملدرآمد جہلا کا ہے ،ایسا ہی فتح القدیر میں مذکور ہے اوردلیل کراہت کی بموجب حدیث کے ہے، بیان حدیث کا آگے آئے گی عبارت ہدایہ کی یہ ہے: ومن انتہی الی الامام فی صلوۃ الفجر وھو لم یصل رکعتی الفجر ان خشی ان تفوتہ رکعۃ و یدرک الاخر یصلی رکعتی الفجر عند باب المسجد ثم یدخل وان خشی فوتہما دخل مع الامام لان ثواب الجماعۃ اعظم والو عید بالترلہ الزم والتقیید بالاداء عند باب المسجد یدل علی الکراھۃ فی المسجد اذا کان الامام فی الصلوٰۃ۔ جو شخص مسجد میں آیا اور امام جماعت کرا رہا ہے اور اس شخص نے سنت فجر کی نہیں پڑھی تھی، پس اگر خوف ہو کہ ایک رکعت جاتی رہے گی اور دوسری رکعت ہاتھ آئے گی تو سنت فجر کی نزدیک دروازہ مسجد کے اگر جگہ ملے تو ادا کرکے جماعت میں  ملے جائے اور جو خوف ہو کہ سنت پڑھنے میں دو رکعتیں فرض کی  جماعت سے فوت ہوجائیں گی تو جماعت میں مل جائے اور سنت کو اس وقت چھوڑ دے اس لئے کہ ثواب جماعت کا بہت بڑا ہے اور اس کے ترک میں سخت وعید لازم آتی ہے اور قید ادا سنت کی نزدیک دروازہ مسجد کے دلالت کرتی ہے اوپر کراہت پڑھنے سنت کے مسجد میں  جس وقت کہ امام جماعت کراتا ہو ترجمہ ہدایہ کا تمام ہوا اور ایسا ہی فتح القدیر اور درمختار وغیرہ کا مطلبق ہے اور مراد نزدیک دروازہ مسجد سے خارج مسجد ہے یعنی خارج مسجد میں قریب دروازہ مسجد کے کوئی جگہ اگر ہو تو وہاں سنت ادا کرکے جماعت میں شامل ہوجائے اور جو کوئی جگہ نہ ہو تو جماعت فرض میں مل جائے اور سنت مسجد میں نہ پڑھے کہ سنت مسجد کے اندر ادا کرنے میں کراہت لازم آئے گی کیونکہ ترک مکروہ کا مقدم ہے ادائے سنت پر جیساکہ فتح القدیر اور درمختار وغیرہ سے صاف معلوم ہوتا ہے۔

(ترجمہ) ’’اور مسجد کے دروازے کے پاس سنتیں ادا کرنے کی قید دلالت کرتی ہے کہ مسجد میں ان کاادا کرنا مکروہ ہے جب کہ امام نماز پڑھا رہا ہو، کیونکہ  آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے، جب جماعت کھڑی ہوجائے تو فرضوں کے علاوہ اور کوئی جماعت نہیں ہوتی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آدمی جماعت سے علیحدہ ہے اور اگر مسجد کے دروازہ کےپاس  کوئی جگہ نہ ہو تو پھر سنت نہ پڑھےکیونکہ مکروہ کا ترک سنت کے فعل پر مقدم ہے اور کراہت کے درجات متفادت ہیں مثلاً اگر کوئی آدمی جماعت کی صف کے پیچھے آکر سنت ادا کرنے لگے تو اس کی کراہت بہت زیادہ ہوگی جیسا کہ  آج کل بعض جاہل لوگ کرتے ہیں۔ اگر سنت پڑھتے فرض جماعت کے فو ت ہوجانے  کا خطرہ ہو تو سنت نہ پڑھے اور اگر آخری رکعت مل جانے کی توقع ہو اور بعض کے نزدیک آخری تشہد کی توقع ہو تو مسجد کے دروازہ پر یعنی مسجد سے باہر سنت ادا کرے ،اگر آخری رکعت کی بھی توقع نہ ہو تو تو سنت نہ پڑھے، یا اگر  مسجد کے باہر کوئی جگہ نہ ہو تو بھی سنت نہ پڑھے۔ کیونکہ مکروہ کا ترک سنت کےفعل پر مقدم ہے، درمختار، قہستانی، شامی، عالمگیری میں ایسا ہی ہے، بحرالرائق میں ہے، امام صبح کی نماز مسجدکے اندر پڑھا رہا ہو ،ایک آدمی مسجد کے باہر آکر سنت پڑھنے لگے تو مشائخ کا اس میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک مکروہ نہیں ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ ہے اس لیے کہ یہ ایک ہی مکان ہے کیونکہ مسجد کے اندر اگر امام کھڑا ہو تو باہر اس کی اقتداء درست ہے اور جب مشائخ کا اختلاف ہو تو احتیاط اسی میں ہے کہ سنت نہ پڑھے۔‘‘

اور  دلیل کراہت کی سنت فجر کے پڑھنے میں وقت قائم ہونے جماعت کے نزدیک صاحب ہدایہ کے اور صاحب فتح القدیر وغیرہ کے یہ حدیث ہے۔ اذ اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ۔ (ترجمہ) جب قائم ہوجائے نماز یعنی جب مؤذن اقامت شروع کرے تو اس وقت نماز پڑھنی درست نہیں سوائے فرض کے جیسا کہ نقل کیا اس حدیث کو مسلم اور ترمذی اور ابوداؤد اور نسائی اوراحمد بن حنبل اور ابن حبان نے اور بخاری  ترجمہ باب میں اس حدیث کو لائے ہیں اور ابن عدی محدث نے ساتھ سند حسن کے آگے اس کے یہ نقل کیا ہے، اے رسو ل خداﷺ کے اور نہ دو رکعت سنت فجر کی یعنی کسی نے پوچھا ک ہاقامت کے وقت سنت فجر کی بھی نہ پڑھے فرمایا آنحضرت ﷺ نے کہ جب اقامت ہونے لگے تو سنت فجر کی بھی نہ پڑھے اور مؤطا امام مالک میں اس طرح پر روایت ہے کہ چند شخص مؤذن کی اقامت سن کردو رکعت سنتیں فجر کی مسجد میں پڑھنے لگے، پس گھر سے مسجد میں تشریف لائے ۔ رسول خدا ﷺ ،پھر فرمایا کیا دو نماز سنت اورفرض اکٹھے ایک وقت خاص میں، کیا دو نماز سنت و فرض اکٹھے ایک وقت خاص میں یعنی از راہ انکار و توبیخ و سرزنش کے یہ فرمایا کی دو نماز سنت و فرض اکٹھے پڑھتے ہو تم لو گ بعد اقامت کے جیسا کہ محلی شرح مؤطا میں نقل کی ہے۔

اور دوسری حدیث انکار سنت فجر کی پڑھنے میں وقت قائم ہونے جماعت کے یہ ہے۔ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رأی رجلاوقد اقیمت الصلوٰۃ یصلی رکعتین فلما انصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لاث بہ الناس فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتصلی الصبح اربعا رواہ البخاری عن عبداللہ بن بحینہ (ترجمہ) مقرر دیکھا رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کہ سنت فجر کی پڑھ رہا ہے، وقت قائم ہونے جماعت کے پھر جب فارغ ہوئے رسول خداﷺ نماز فرض سے تو گرد ہوئے لوگ اس کے ساتھ، پس رسول خداﷺ نے اس پر توبیخ اور انکار فرمایا کہ کیا چار رکعت صبح کی تو پڑھتا ہے، اس کو روایت کیا امام بخاری نے عبداللہ بن بحینہ صحابی سے اور صحیح مسلم وغیرہ میں عبداللہ بن بحینہ سے یوں روایت ہے۔ قال اقیمت صلوٰۃ الصبح فرأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رجلا یصلی والمؤذن یقیم فقال اتصلی الصبح اربعا۔ (ترجمہ) کہاعبداللہ بن بحینہ نے اقامت ہوئی نماز صبح کی،پھر دیکھا رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کہ سنت فجر کی پڑھنےلگے اور مؤذن تکبیر کہہ رہا ہے ، پس فرمایا رسول اللہ ﷺ نے از راہ انکار کے کیا پڑھتا ہے تو چار رکعت صبح کی۔

اور صحیح مسلم اور ابوداؤد اور نسائی اور ابن ماجہ میں عبداللہ بن سرجس صحابی سے یوں روایت ہے : قال دخل رجل المسجد و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی صلوٰۃ الفداۃ فصلی رکعتین فی جانب المسجد ثم دخل مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلما سلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال یا فلان بای الصلاتین اعتددت ابصلاتک وحدک ام بصلوتک معنا۔ کہا عبداللہ بن سرجس  صحابی نے کہ داخل ہوا ایک شخص مسجد میں حالانکہ رسول اللہ ﷺ بیچ نماز صبح کے تھے یعنی آنحضرت ﷺ نماز صبح میں امامت کرا رہے تھے پھر اس شخص نے دو رکعت سنت فجر کی بیچ ایک جانب مسجد کے پڑھی پھر داخل ہوا وہ جماعت میں ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پھر جب سلام پھیرا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے فلانے ان دونوں نمازوں میں سے کون سی نماز کو فرض میں شمارکیا تو نے آیا جونماز تنہا پڑھی تو نے اس کوفرض ٹھہرایا یا جونماز ہمارے ساتھ پڑھی تو نے اس کو فرض شمار کیا یعنی آنحضرتﷺ نے سرزنش اور انکار کی راہ سے یہ بات فرمائی اس کو پس اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ سنت کا پڑھنا وقت قائم ہونے جماعت کے مکروہ اور ممنوع ہے اور ایک روایت عبداللہ بن بحینہ سے صحیح مسلم اور ابن ماجہ میں اس طرح سے ہے۔ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مربرجل یصلی و قد  اقیمت صلوٰۃ انصبح فکلمہ بش، لاندری ماھو فلا انصرفنا احطنابہ نقول ماذا قال لک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال قال لی یوشک ان یصلی احدکم الصبح اربعا۔ (ترجمہ) مقرر رسول خداﷺ ایک مرد  کے پاس سے گذرے کہ و ہ پڑھتا تھا سنتیں فجر کی اس حال میں کہ جماعت نماز صبح کی قائم ہوئی تھی پھر کلام کیا آنحضرتﷺ نے اس مرد سے کہ ہم نے نہیں معلوم کیا کہ کیا فرمایا آنحضرتﷺ نے آہستہ  اسے پھر جب ہم لوگ نماز جماعت سے فارغ ہوئے تو گرد ہوئے اس مرد کے اور کہا ہم نے کیا فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تجھ کو کہا اس مرد نے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مجھے قریب ہے کہ پڑھے گا ایک تمہارا فرض صبح کی چار رکعت یعنی پڑھنا سنت کا وقت قائم ہونے جماعت کے برابر فرض کے ٹھہراتا ہے آخر سنت کو ہوتے ہوتے بمنزلہ فرض کے اعتقاد کرو گے تو اس طرح کا اعتقاد سنت کو درجہ فرض کے پہنچا دے گا سن اور فرض میں امتیاز نہ رہے گا اور ایسا اعتقاد خلاف مرضی میری ہوگا اور جو اعتقاد کسی کا خلاف میری مرضی کے ہوگا وہ مردود اور بدعت اور ضلالت ہے۔

(ترجمہ): ’’جب نماز کھڑی  ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی یہ مرفوع حدیث ہے دوسرے لفظ یہ ہیں کہ جب مؤذن اقامت شروع کردے تو وہی نماز ہوگی جس کی اقامت ہوئی رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ صبح کی سنتیں بھی نہ پڑھیں جائیں آپ نے فرمایا صبح کی سنتیں بھی نہ پڑھی جائیں اقامت ہوئی رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو دیکھا وہ سنتیں پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھتے ہو؟ اوریہ صبح کی نماز کا وقت تھا۔ اقامت کے وقت فجر کی سنت ادا کرنے میں اختلاف ہے ۔ امام شافعی اور احمد اس کو ناجائز کہتے ہیں۔ مالکی کہتے ہیں کہ اقامت ہوجانے کے بعد کوئی نماز شروع نہ کرے خواہ فرض ہو یا نفل اگرپہلے سے نماز شروع کررکھی ہو اور اقامت بعد میں ہو تو اگر رکعت کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو نماز توڑ دے اور اگر رکعت مل جانے کی امید ہو تو نماز پوری کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اپنے عملوں کو ضائع نہ کیا کرو باقی رہا الارکعتی الفجر (مگر صبح کی دوسنتیں) کا استثناء اما م بیہقی نے کہا یہ زیادت صحیح نہیں ہے محلی میں بھی یہی ہے ۔ ابوہریرۃؓ نے کہا کہ رسو لاللہﷺ نے فرمایا: جب نماز کھڑی ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی اس مضمون کی حدیثیں ابن بحینہ عبداللہ بن عمر سرجس، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے مروی  ہیں۔ امام ترمذی نے کہا ابوہریرہؓ کی حدیث حسن ہے اس حدیث کو کئی راویوں نے مرفوعاً بیان کیا ہے اور کچھ لوگوں نے موقوفاً ۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد،اسحاق سب کا یہی مذہب ہے کہ فرض کے شروع ہوجانے کے بعد کوئی اور نماز نہیں ہوتی ۔ امام ترمذی نے کہا مرفوع روایت صحیح ہے اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ صحیح مذہب پررفع وقف سے مقدم ہوتا ہے اگرچہ رفع کی روایات کم ہوں اور اگر رفع کی روایات وقف سے زیادہ ہوں تو پھر تو کوئی اعتراض ہی نہیں ہوسکتا۔‘‘

اور معلوم کہ جو ابراہیم حلبی شارح منیۃ المصلی شاگرد ابن الہمام وغیرہ نے طحاوی وغیرہ سے نقل کیا ہےکہ عبداللہ بن مسعودؓو الدرداؓ صحابیوں میں سے اور مسروق و حسن بصری و ابن زبیر وغیرہ تابعین میں سے بعد قائم ہوجانے جماعت کے سنت فجر کی گوشہ مسجد میں پڑھ کر جماعت میں شامل ہوئے سو اس نقل سے سنت کا پڑھنا مسجد میں بعد اقامت صلوٰۃ کے جائز معلوم ہوتا ہے پس یہ نقل سے سنت کا پڑھنا مسجد میں بعد اقامت صلوۃ کے جائز معلوم ہوتا ہے پس یہ نقل صاحب ہدایہ اور صاحب فتح القدیر و درمختار وغیرہ کی تقریر اور تحریر سے صحیح اور ثابت نہیں ہوتی کیونکہ جو ثابت ہوتی تو صاحب ہدایہ و فتح القدیر کی محقق مذہب حنفی کے ہیں ضرور نقل کرتے اس کو حالانکہ اس کو نقل نہیں کیا بلکہ خلاف اس کے بلحاظ حدیث اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ کے سنت فجر کی مسجد میں پرھنے کو مکروہ لکھا ہے چنانچہ بخوبی پہلے مذکور ہوچکا تو اس سے معلوم ہوا کہ قول طحاوی وغیرہ کا جو ابراہیم حلبی مذکور نے نقل کیا ہے نزدیک صاحب ہدایہ اور صاحب فتح القدیر وغیرہ کے پایہ اعتبار سے ساقط ہے  والا وہ ضرور نقل کرتے اورنیز فعل حضرت عمرؓ کا مخالف فعل عبداللہ بن مسعود وغیرہ کے منقول ہے یعنی حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص سنت فجر کی پڑھ رہا ہے وقت قائم ہونے جماعت کے تو اس کو مارا اور تعزیر دی اور عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا ایک شخص کو کہ وقت اقامت مؤذن کے سنت فجر کی پڑھنےلگا تو اس کو کنکر مارا جیساکہ بیہقی نے نقل کیا اور محلی شرح موطا میں مذکور ہے اور اگربالفرض عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ نے سنت فجر کی پڑھی ہو تو جواب اس کا یہ ہے کہ عبداللہ ابن مسعودؓ وغیرہ کو حدیث نہی کی نہیں پہنچی اور حدیث نہی کے نہ پہنچنے میں کچھ تعجب نہیں کیونکہ مخفی رہا عبداللہ پر ہاتھ کا گھٹنوں پر رکھنا رکوع میں اور وہ ہمیشہ دونوں ہاتھ ملا کر رانوں میںرکھتے تھے موافق پہلے دستور کے اور مخالفت کی عبداللہ بن مسعودؓ نے سب صحابہ سے اس مسئلہ میں چنانچہ صحاح میں مذکور ہے حالانکہ رکھنا دونوں ہاتھوں کاملا کر رانوں میں منسوخ ہوچکا مگر عبداللہ بن مسعودؓ کو نسخ کی حدیث نہیں پہنچی۔ حالانکہ  رکوع  میں ہاتھ رکھنا گھٹوں پر ہر وقت کامدام معمول ہے ہر نماز میں اور یہ فعل ایسا مشہور عبداللہ بن مسعودؓ پر مخفی رہا پس اسی طرح حدیث نہی سنت فجر کے پڑھنے میں بیچ مسجد کے وقت قائم ہونے جماعت کے عبداللہ بن مسعودؓ اور ابوالدردا کو نہ پہنچی اور اسی طرح عبداللہ بن مسعودؓ اور ابوالدرداء بجائے قرأت و ماخلق الذکر والانثی کے والذکرو والانثی پڑھتے تھے حالانکہ وما خلق الذکر قرأت متواترہ جمہور صحابہ کے نزدیک ہے اور یہی قرأت متواترہ تمام قرآن مجید میں اورمصحف عثمانی میں اسی طرح سے مذکور ہے اور عبداللہ بن مسعود اور ابوالدرداء کو یہ قرأۃ متواترہ آنحضرت ﷺ سے نہ پہنچی جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں وغیرہ میں یہ قصہ مذکور ہے پس بسبب لا علمی اس حدیث نہی کے عبداللہ بن مسعود اور ابوالدرداء نے سنت فجر کی کبھی مسجد میں بروقت قائم ہوجانے جماعت کے اگر پڑھی ہو تو وہ معذور رہیں گے اور ہم پر ان کا پڑھنا بمقابلہ حدیث صحیح کے کہ چھ سات صحابی سے منقول ہے حجت نہیں ہوسکتی بموجب اس آیت کریمہ کے وما اتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا (ترجمہ) جو چیز دی تم کو رسولﷺ نے پس لے لو اس کو اورعمل کرو اس پر اور جس چیز سے منع کیا تم کو پس باز رہو اس سے اور  نہ کرو اس کو پس قول و فعل اور تقریر رسول مقبولﷺ کی واجب الاتباع ہے امت پر  وقدروی[1] عن عمر انہ کان اذ رأی رجلا یصلی وھو یسمع الاقامۃ ضربہ عن ابن عمر انہ ابصر رجلا یصلی رکعتین والمؤذن یقیم فحصبہ کذا فی المحلی اور بعض عالم حنفی جواب میں حدیث نہی کے یوں تقریر کرتے ہیں کہ اس شخص نے کنارہ مسجد کے یا اوٹ میں نہیں پڑھی تھی اس واسطے انکاراور زجر فرمایا اور اگر  دور یا اوٹ میں پڑھتا تو مضائقہ نہیں تھا توحدیث صحیح مسلم  کی ان کے قول کو رد کرتی ہے جیسا کہ محلی میں موجود ہے:

(ترجمہ) ’’بعض حنفیہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس آدمی پر انکار کرکے جو فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے یہ اس لیے کہا تھ کہ آپ نے سمجھا کہ اس نے پہلی بھی فرض ہی پڑھے ہیں  یا پھر سنتیں مسجد میں بغیر کسی اوٹ کے پڑھی ہوں گی پہلے احتمال کو یہ حدیث رد کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا وہ صبح کی دو سنتیں پڑھ رہا تھا مؤذن نے اقامت کہی آپ نے اس کو کندہوں سے پکڑا اور فرمایا اس سے پہلے سنتیں کیوں نہ پڑھ لیں اور دوسرے احتمال کاجواب یہ ہےکہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اس نے مسجد کے ایک گوشے میں دو رکعت سنت پڑھیں پھر نبیﷺ کے ساتھ جماعت میں شامل ہوا آپ نے فرمایا اے فلان ان دونوں نمازوں میں سے تو نے کون سی نماز شما رکی ہے کیا اپنی اکیلے کی نماز یا وہ نماز جو تو نے ہمارےساتھ پڑھی یہ حدیث دلیل ہے کہ اس نے مسجد کے گوشے میں سنتیں پڑھی  تھیں۔ محیط میں ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ جب امام مسجد کے اندر نماز پڑھ رہا ہو اور باہر کوئی اگر سنتیں پڑھے تو یہ مکروہ ہے یا نہیں؟ بعض نے کہا مکروہ نہیں ہے اور بعض نے اسے مکروہ کہا ہے ۔ اس لیے کہ مسجد حقیقت میں ایک ہی مکان ہے اور جب مشائخ کا اختلاف ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ نہ پڑھے۔‘‘

پس  احادیث مذکورہ بالا سے صاف واضح ہوتا ہے کہ سنت فجر کے بعد کھڑ ے ہوجانے جماعت فرض کے مطلقاً نہ پڑھے نہ مسجد میں اور نہ خارج مسجد میں اور یہی مذہب سارے اہل علم اور سفیان ثوری  اور ابن المبارک اور احمد ، شافعی اور اسحاق کا ہے جیسا کہ ترمذی سے واضح ہوتا ہے اورمالکی مذہب سے بھی ایسا ہی سمجھا جاتاہے جیسا کہ محل شرح مؤطا سے معلوم ہوتا ہے اور ہدایہ و فتح القدیر  و درمختار سے پہلے مذکور ہوچکا کہ وقت اقامت کے مسجد میں سنت پڑھنی مکروہ ہے اور خارج مسجد میں پڑھنی درست ہے بشرطیکہ دونوں رکعت فرض کی فوت نہ ہوجائیں لیکن مضمون حدیث سے مطلق معلوم ہوتا ہےکہ نہ پڑھنا سنت کا خواہ مسجد میں ہوخواہ خارج مسجد کے ہو وقت قائم ہونے جماعت کے ۔فیہ[2] دلیل علی انہ لا یصلی بعد الاتامۃ نافلۃ وان کان یدرک الصلوٰۃ مع الامام ورد علی من قال ان علم انہ یدرک الرکعۃ الاولی او الثانیۃ یصلی النافلۃ انتہی۔ ما قال النووی فی شرح مسلم۔ اور نہ پڑھنے سنت میں وقت قائم ہونے جماعت کے یہ حکمت ہے کہ دل جمعی سے ابتدا جماعت فرض میں مل جائے اور ثواب تکبیر اولیٰ اوتکمیل فرض کی حاصل ہو اور صورت اختلاف کی نہ ظاہر ہوئے پس محافظت فرض کی اوپر وجہ کمال کے مقتدی کو ضرور ہے۔ ان [3]الحکمۃ فیہ ان یتفرغ للفریضۃ من اولھا فیشرع فیھاعقیب شروع الامام واذا اشتغل بنا فلۃ الاحرام وفاتہ بعض مکملات الفریضۃ فالفریضۃ اولی بالمحافظۃ علی اکمالھا قال القاضی وفیہ حکمۃ اخری وھو النہی عن الاختلاف علی الائمۃ کذا قال الامام النووی فی شرح مسلم ۔ اب آگے باقی رہا کلام اس میں کہ جس نے سنت فجر کی بعد طلوع آفتاب کے پڑھے پس عبداللہ بن عمرؓ سے دونوں طرح منقول ہے خواہ بعد طلوع آفتاب کے یا قبل طلوع کے۔ مالک[4] انہ بلغہ ان عبداللہ بن عمر فاتہ رکعتا الفجر فقضا ھما بعد ان طلعت الشمس کذا فی موطا امام مالک وھکذا اسندہ ابن ابی شیبۃ عن نافع عن ابن عمر جاء الی القوم وھم فی الصلوۃ ولم یکن صلی الرکعتین فدخل معھم ثم جلس فی مصلاہ فلما اضحی قام فصلاھما ولہ من طریق عطیۃ قال رأیت ابن عمر قضاھما حین سلم الامام محلی اور نیز حدیث مرفوع آنحضرت ﷺ سے  باب قضا ء سنت بعد طلوع آفتاب کے ابی ہریرۃ سے ترمذی میں موجود ہے اور کہا ترمذی نے اور اس پر  عمل ہے اہل علم کا اور یہی قول سفیان ثوری اور شفاعی اور احمد و ابن المبارک و اسحاق کا ہے۔ عن ابن ہریرۃ مرفوعامن لم یصلی رکعتی الفجر فلیصلھما بعد ماتطلع الشمس قال الترمذی والعمل علی ھذا عند اھل العلم وبہ یقول الثوری والشافعی واحمد و ابن المبارک و اسحاق انتہی ما فی الترمذی  اور ابوداؤد اور  ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ سے بعد فرض قبل طلوع آفتاب کے بھی پڑھنا سنت فجر کا واضح ہوتا ہے کہ قیس  بن عمرو صحابی وقت اقامت جماعت کے آنحضرتﷺ کےساتھ جماعت میں شامل ہوئے اور بعد ادائے فرض کےسنت فجر کی جلدی سے پڑھنے لگے اتنے میں رسول اللہﷺ جماعت سے فارع ہوئے اور پایا قیس کو سنت پڑھتے ہوئے تو فرمایا اے قیس ٹھہر جا آیادو نماز اکٹھی پرھتا ہے تو قیس نے کہا اے رسول  خداﷺ کے میں نے سنت فجر کی پہلے نہیں پڑھی تھی سو میں نے یہ دو رکعت سنت فجر کی پڑھی۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا پس نہیں مضائقہ اس وقت یعنی جبکہ پہلے تو نے سنت فجر کی نہیں پڑھی تھی اور بعد ادائے فرض کے تو نےپڑھی تو اس کے پڑھنے کا مضائقہ نہیں تو اس کلام سے رسول مقبول ﷺ کے صاف واضح ہوا کہ بعد فرض صبح کے سنت فجر کی پڑھنا روا ہے اور نفل پڑھنا مکروہ ہے جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے تو حدیث نہی سے سنت فجر کی مستثنیٰ اور خارج ہوئی اور نہی اس پر وارد نہیں ہوتی کیونکہ آنحضرت ﷺ قیس ک ےسنت پڑھنے پر خاموش رہے اور ایک روایت میں یوں فرمایا کیا مضائقہ اور ایک روایت میں مسکرائے اور اسی واسطے جماعت علماء مکہ معظمہ کی حدیث قیس پر عمل کرنے کو روا  رکھتی ہے پس جو شخص ادائے فرض کے سنت فجر کی پڑھنے کو شدت سےمنع کرتے ہیں تو قول ان کا بموجب حدیث قیس کے مقبول نہ ہوگا کیونکہ اس میں وسعت پائی گئی آنحضرتﷺ سے نہایت کا اس حدیث کو مرسل کہیں گے اور حدیث مرسل حنفی مذہب اور مالکی مذہب میں حجت ہے جیسا کہ نور الانوار اور توضیح وغیرہ میں مذکور ہے :

(ترجمہ) ’’ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا اس نے صبح کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھیں تو آپ نے فرمایا صبح کی نماز تو دو ہی رکعت ہے تو نے یہ کیسا پڑھا ہے اس نے کہا میں پہلے سنتیں ادا نہیں کرسکا تھا وہ اب پڑھی ہیں تو آپ خاموش ہوگئے ۔ حضرت قیس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ باہرنکلے نماز کھڑی ہوگئی میں نے آپ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی پھر جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے سنتیں پڑھیں آپ نےفرمایا اے قیس ٹھہر جا کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھتا ہے ؟ میں نے کہا میں پہلے سنتیں ادا نہیں کرسکا تھا آپ نے فرمایا پھر ٹھیک ہے یہ حدیث مرسل ہے ۔ لیکن مرسل حدیث احناف اور مالکیہ کے نزدیک حجت ہے اور اسی حدیث کی بنا پر اہل مکہ کا فتویٰ ہے کہ اگر نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے صبح کی سنتیں ادا کرے تو ٹھیک ہے۔‘‘

اور سنت فجر کی قصا نہیں ہے نزدیک امام ابو حنیفہ کے اور  ابویوسف کے اور نزدیک امام محمد کے  تازوال قضا کرے اور بعض کہتے ہیں کہ جو  قضا کرے گا تو نفل ہوں گے نزدیک شیخین کے اور محسوب سنت ہوں گے نزدیک امام محمد کے قضا کرنا چھوڑنے سے بہتر ہے جیساکہ پہلے معلوم ہوچکا ۔

(ترجمہ) اس عربی عبارت کاترجمہ متن میں عبارت سے پہلے آچکاہے۔            (سید محمد نذیر حسین)



[1]   حضرت عمرؓ جب کسی آدمی کو اقامت ہوجانے کے بعد نماز میں مشغول پاتے تو اس کو مارتے ۔ عبداللہ بن عمرؓ نے ایک آدمی کو اقامت کے بعد سنتیں پڑھتے دیکھا تو اس کو کنکریاں ماریں۔

[2]   اس میں دلیل ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نفل نماز نہ پڑھی جائے اگرچہ وہ امام کے ساتھ نماز کو پاسکتا ہو اور اس میں اس آدمی کا رد ہے جوکہتا ہے کہ اگر اسے ایک رکعت یا دونوں رکعت مل جانے کی توقع ہو تو سنتیں پڑھ لے۔

[3]    اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ فرضوں کے لیے فارغ ہوجائے گا جب امام نماز شروع کرے گا تو وہ بھی شروع کرے گا اور اگر نفل میں مشغول ہوگیا تو اس سے تکبیر تحریمہ اور بعض حصہ فرائض کا بھی فوت ہوجائے گا تو فرائض کی محافظت ضروری ہے۔قاضی عیاض نے کہا اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ ائمہ کی مخالفت سے ممانعت معلوم ہوتی ہے۔

[4]   امام مالک کو خبر پہنچی کہ عبداللہ بن عمرؓ کی صبح کی سنتیں رہ گئی تھیں ان کی قضا آپ نے سورج نکلنے کے بعد کی۔ایک دفعہ عبداللہ بن عمرؓ مسجد  میں آئے لوگ نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے سنتیں نہیں پڑھی تھیں آپ  ان کے ساتھ شامل ہوگئے پھر اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہے جب ضحیٰ کا وقت ہوا تو اٹھے اور ان کی قضا دی۔ عبداللہ بن عمرؓ نے ایک دفعہ صبح کی سنتوں کی قضا امام کے  سلام پھیرنے کے بعد دی ۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے