کیا فرماتے ہیں علمائے دین حنفیہ اس مسئلہ میں کہ انگشت شہادت اٹھانی وقت تشہد یعنی لا الہ اللہ کہنے کے مذہب حنفی میں سنت مستحب ہے یا حرام مکروہ ہے اور جو کوئی یہ بات کہے کہ رفع سبابہ میں انگلی کاٹنی آتی ہے وہ شخص گنہگار ہوگا یا نہیں۔بینوا توجروا
درصورت مرقومہ معلوم کرنا چاہیے کہ امام ابویوسف امالی کتاب اپنی میں اور امام محمد موطا میں دونوں صاحب کہ جو شاگرد رشید امام اعظم کے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے رفع سبابہ مروی اور منقول ہے اور ہم لوگ بھی اس پر عمل کرتے ہیں اور یہی قول ابوحنیفہ کا ہے۔چنانچہ فتح القدیر و عینی و امیر الحاج و زیلعی والبحر الرائق و نہر الفائق وملتقط دشمنی و نجم الدین الزاہدی و علامہ حلبی و بہنسی و ابراہین حلبی وغیرہ نے روایۃ و درایۃ رفع سبابہ کو نقل کیا ہے اور اس باب میں علماء کوفہ و علماء نے مدینہ وغیرہ سے بہت سے اخبار و آثار مروی اور منقول ہیں۔
اور ملا علی قاری اور ملا عابد سندی و امین الدین شامی نے اٹھائیس صحابہ سے روایت کی ہے اور رفع سبابہ میں ائمہ اربعہ و علمائے مقلدین اہل مذہب کے سب متفق ہیں، اس میں اور ائمہ اربعہ وغیرہ کااختلاف نہیں اور منع رفع سبابہ میں کوئی قول صحابی مذکور اورمنقول نہیں تو اٹھانا اس کامستحب آکد اور موجب ثواب کثیر ہے اور خلاصہ کیدانی والے سے یا اور علماء سے اس باب میں خطاء واقع ہوئی ہے ، اس کے حرام مکروہ لکھنے میں تو قول مانعین کا اور حرام مکروہ کہنے والے کااز روئے دلائل شرعیہ کے محض باطل ہے ، نزدیک علمائے محققین حنفیہ کے اور جو شخص بعد مطلع ہونے روایات فقہیہ اور احادیث نبویہ کے حرام کہے اور منع کرے ، وہ مردود اورگمراہ ہے، خوف کفر کاہے اس پر از روئے اہانت اور حقارت کے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’جوتم کو آنحضرتﷺ دے اسے لے لو اور جس سے منع کریں ، اس سے باز آجاؤ۔فتح القدیر میں ہے انگلی سے اشارہ کرنا درست ہے اور یہی امام ابوحنفیہ سے مروی ہے جیساکہ امام محمد نے بیان کیاہے اور اس کی ممانعت کرنا روایت اور درایت دونوں کے برخلاف ہے ، مجتبی میں ہے، اس کے سنت ہونے پر تمام روایات متفق ہیں ، کوفیوں اور مدنی لوگوں کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور احادیث و آثار اس کے متعلق بہت زیادہ ہیں، عینی نے اس کومستحب کہا ہے اور صاحب محیط نے سنت در مختار میں ہے کہ یہی صحیح ہے کہ یہ سنت ہے ،متاخرین شراح مثلاً کمال ، حلبی، نبہسی، باقلانی اور شیخ الاسلام وغیرہ نے اس کی خوب تحقیق کی ہے کہ یہ آنحضرتﷺ کی سنت ہے اور امام محمد، امام ابویوسف اور امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے، خانیہ میں ہے کہ لا الہ الااللہ کے وقت انگلی کا اٹھانا سنت ہے ، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ،امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ آخری دو انگلیاں بند کرلے اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنالے اور سبابہ سے اشارہ کرے۔
اگر کوئی سوال کرے کہ کیدانی نے غرائب میں اس کو افعال محرمہ سے شما رکیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نص اور اقوال ائمہ کے برخلاف ان کا قول مردود ہے ، اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی اور اس کی ممانعت میں کوئی حدیث قابل اعتبار نہیں ہے اور امام صاحب اورصاحبین کے قول کے برخلاف ان کے قول کی کیاحقیقت ہے ۔ درمختار کی شرح طوالع الانوار میں ہے کہ تشہد میں انگلی اٹھانے کے متعلق ستائیس صحابہ سے روایات منقول ہیں۔ملاعلی قاری نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔‘‘
پھر جوکوئی باوجود احادیث اور اقوال و افعال صحابہ کرام و مجتہدین عظام اور دیگر علمائے اعلام کے حرام کہے اور انگلی کاٹنے کا قائل ہو اور اعتقاد رکھتا ہو مردود اور بڑا جاہل بے وقوف ہے، ایسے جاہل کے قول کا ہرگز اعتبار نہ کرنا چاہیے اور اس قدر دیندار منصف کو کافی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔الراقم العاجز محمد نذیرحسین عفی عنہ فی الدارین۔ (سید محمد نذیر حسین ) (اسد علی)