سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(156) جواز تکرار جماعت مسجد واحد میں حدیث صحیح سے ثابت ہے؟

  • 5663
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1741

سوال

(156) جواز تکرار جماعت مسجد واحد میں حدیث صحیح سے ثابت ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جواز تکرار جماعت مسجد  واحد میں حدیث صحیح سے ثابت ہے یا نہیں اور فقہائے حنفیہ کی اس میں کیارائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا شک و شبہ فضیلت ثواب جماعت اولیٰ کا زیادہ ہے، بہ نسبت جماعات اخری کے، مگر اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ تکرار جماعت بعد جماعت اولیٰ ناجائز ہوجائے اور کراہت بھی اس کی کسی حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ جواز تکرار جماعت فی مسجد واحد حدیث صحیح سے ثابت ہے اور صحابہ و تابعین اورائمہ مجتہدین کا اس پر عمل بھی رہا ہے۔ دیکھو روایت کیابوداؤد نے سنن میں۔ باب[1] فی الجمع فی المسجد مرتین۔ حدثنا موسیٰ بن اسمعٰیل ثنا وھیب عن سلیمان الاسود عن ابی المتوکل عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابصر رجلا یصلی وحدہ فقال الارجل یتصدق علی ھذا فیصلی معہ۔ یعنی ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا : کیا کوئی شخص اس کو صدقہ نہیں دیتا یعنی جو اس کے ساتھ نماز پڑھے گویا  چھبیس نمازوں کا ثواب اسے صدقہ میں دیا، اس واسطے کہ  جماعت سے نماز پڑھنے میں ستائیس نمازوں کاثواب لکھا جاتا ہے۔

اور روایت کیا فرمذی نے باب ماجاء فی  الجماعۃ فی مسجد قد صلی فیہ مرۃ ۔ عن ابی سعید قال جاء رجل وقد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال ایکم یتجر علی ھذا فقام رجل و صلی معہ و فی الباب عن ابی امامۃ و ابی موسی والحکم بن عمیر قال ابوعیسی و حدیث ابی سعید حدیث حسن۔ یعنی روایت ہے، ابو سعیدؓ سے خہ آیا ایک شخص اور نماز پڑھ چکے تھے رسول اللہ ﷺ فرمایا کون تجارت کرتا ہے اس شخص کے ساتھ یعنی اس کے ساتھ شریک ہوجائے تو جماعت کاثواب دونوں پائیں، سو کھڑا ہوا ایک مرد اور نماز پڑھ لی اس کے ساتھ اور مسند امام احمد بن حنبل میں ہے۔ عن ابی امامۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رای رجلا یصلی وحدہ فقال الا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معہ فقام رجل فصلی معہ فقال ھذا ن جماعۃ کذا فی فتح الباری شرح صحیح البخاری۔اور ایک روایت میں مسند کے اس لفظ کے ساتھ وارد ہے صلی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باصحابہ الطہر فدخل رجل و ذکر کذا فی المنتقی اور کہا حافظ جمال الدین زیعلی نے تخریج احادیث ہدایہ میں و رواہ ابن خزیمۃ و ابن حبان و الحاکم فی صحاحہم قال الحاکم حدیث صحیح  علی شرط  مسلم ولم یخرجاہ انتہی۔

اور روایت کیا دارقطنی نے سنن مجتبے میں ۔ عن[2] محمد بن الحسن الاسدی عن حماد بن سلمۃ عن ثابت عن انس ان رجلا جاء وقد صلی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقام یصلی وحدہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من یتجر علی ھذا فیصلی معہ  کہا زیلعی نے اس  حدیث دارقطنی کے بارے میں و سندہ جید انتہی اور بھی روایت کیا دارقطنی نے  عن[3] عصمۃ بن مالک الخطمی قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قد صلی الظہر و قعد فی المسجد اذا دخل رجل یصلی فقال علیہ السلام الارجل یقوم فیتصدق علی ھذا فصیلی معہ۔ اور یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، مگر چنداں مضر نہیں کیونکہ طرس متعددہ سے یہ حدیث ثابت ہے اور یہ روایت کیا بزار نے مسند میں  حدثنا محمد ثنا ابو جابر محمد بن عبدالمالک ثنا الحسن بن ابی جعفر عن ثابت عن  ابی عثمان عن سلمان ان رجلا دخل المسجد والنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قد صلی فقال الارجل یتصدق علی ھذا فیصلی معہ کذا فی نصب الرایۃ للحافظ الزیلعی اور یہ شخص جو شریک ہوئے اس شخص کے ساتھ نماز میں وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے ۔ کہا حافظ زیلعی نے  وفی روایۃ البیہقی ان الذی قام فصلی معہ ابوبکر  اور کہا علامہ جلال الدین سیوطی نے قوت المغتذی میں قال[4] ابن سیدالناس ھذا الرجل الذی قام معہ ھو ابوبکر الصدیق رواہ ابن ابی شیبۃ عن الحسن مرسلا انتہی۔

پس ثابت ہوا کہ مسجد واحد میں تکرار جماعت جائز و درست ہے کیونکہ اگر تکرار جماعت مسجد واحدمیں جائز  نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ یہ کیوں ارشاد فرماتے۔ الا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معہ۔ اگر کوئی یہ شعبہ کرے کہ یہاں پر اقتداء متنفل کی مفترض کے ساتھ پائی گئی اور اس میں کلام نہیں، گفتگو اس میں ہے کہ اقتداء مفترض کی مفترض کے ساتھ مسجد واحد میں بہ تکرار جماعت جائز ہے یا نہیں۔ تو اس کاجواب یہ ہے کہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معہ۔ وایکم یتجر علی ھذا۔ ومن یتجر علی ھذا فیصلی معہ۔ والارجل یقوم فیتصدق علی ھذا فیصلی معہ عموم پر دلالت کرتا ہے ، خواہ مقتدی متصدق و متجر متنفل ہو یا مفترض ،اور اگرچہ اس واقعہ خاص میں متصدق اس کا متنفل ہوا مگر یہ خصوص مورد قادح عموم لفظ کا نہ ہوگا اور اوّل دلیل اس پر یہ ہےکہ حضرت انس بن مالک ؓ جومن جملہ رواۃ اس حدیث کے ہیں، انہوں نے بھی یہی عموم سمجھا، چنانچہ انہوں نے بعد وفات رسول اللہﷺ کے جماعت ثانیہ ساتھ اذان و اقامت  کے قائم کی، اس مسجد میں جہاں جماعت اولیٰ ہوچکی تھی ۔ صحیح بخاری کے باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ میں ہے : وجاء[5] انس الی  مسجد صلی فیہ فاذن و اقام و صلی جماعۃ انتہہی۔ کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں وجاء[6] انس الخ وصلہ ابویعلی فی مسندہ من طریق الجعد ابی عثمان قال مربنا انس بن مالک فی مسجد بنی ثعلبۃ فذکر نحوہ قال و ذلک فی صلوٰۃ الصبح وفیہ فامر رجلا فاذن و اقام ثم صلی باصحابہ واخرجہ ابن ابی شیبۃ من طریق عن الجعد وعند البیہقی من طریق ابی عبدالصمد العمیعن الجعد نحوہ و قال مسجدبنی رفاعۃ وقال فجاء انس فی نحو عشرین من قتیانہ انتہی۔

حاصل کلام کا یہ ہوا، کہ یہ سات صحابہ حضرت ابوسعید خدری و انس بن مالک و عصمہ بن مالک و سلمان  و ابوامامہ  و ابوموسیٰ اشعری و الحکم بن عمیر رضی اللہ عنہم نے اس واقعہ کو رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ بموجب ارشاد رسول اللہ ﷺ ساتھ اس کے نماز  پڑھنے لگے، اس مسجد میں جہاں جماعت اولیٰ ہوچکی تھی اور اطلاق اس پر جماعت کا ہوگا کیونکہ الاثنان فما فوقہما جماعۃ اور حضرت انسؓ نے بعد وفات رسول اللہ ﷺ کے اس پر عم کیا ، جیسا کہ روایت سے مسند ابویعلی موصلی و ابن ابی شیبہ و بیہقی کے معلوم ہوا اور امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ جامع ترمذی میں مذکور ہے اور یہی مذہب صحیح و قوی ہے کہ تکرار جماعت بلا کراہت جائز ہے اور فقہاء حنفیہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تکرار جماعت ساتھ اذان ثانی کے اس مسجد میسجد میں کہ امام و مؤذن وہاں مقرر ہوں  مکروہ ہے، اور تکرار اس کا بغیر ازان کے مکروہ نہیں، بلکہ  امام ابویوسف سے منقول ہے کہ اگر جماعت ثانیہ ہیئت اولےٰ پرنہ ہو تو کچھ کراہت نہیں اور محراب سے عدول کرنے میں ہیئت بدل جاتی ہے، بحر الرائق شرح کنزالدائق میں ہے۔ ومنہا[7] حکم تکرارھا فی مسجد واحد ففی المجمع لا یکرر ھا فی مسجد محلۃ باذان ثان وفی المجتبی و یکرہ تکرارھا فی مسجد باذان و اقامۃ انتہی مختصرا اور شرح منیۃ المصلی میں ہے۔ واذا[8] لم یکن للمسجد امام و مؤذن راتب فلا یکرہ تکرار الجماعۃ فیہ باذان و اقامۃ عند نابل ھوا لا فضل اما لوکان لہ امام و مؤذن فیکرہ تکرار الجماعۃ و عن ابی یوسف رحمۃ اللہ علیہ اذا لم تکن علی ھیئۃ الاولیٰ لا یکرہ والایکرہ وھو الصحیح۔ اور طوالع الانوار حاشیہ درالمختار میں ہے  کراھۃ [9]الجماعۃ فی غیر مسجد الطریق مقیدۃ بما اذا کانت الجماعۃ الثانیۃ باذانو اقامۃ لا باقامۃ فقط و عن ابی یوسف رحمۃ اللہ علیہ اذا لم تکن علی ھیئۃ الاولیٰ لا تکرہ والا تکرہ وھو الصحیح و بالعدول عن المحراب یختلف الھیئۃ انتہی اور رد المختار حاشیہ درالمختار میں ہے۔ یکرہ[10] تکرار الجماعۃ فی مسجد محلۃ باذان واقامۃ الا اذا صلی بہما فیہ اولا غیراھلہ اوا ھلہ لکن بمخافتۃ الاذان ولوکرر اھلہ بدونہا او کان مسجد طریق جاز ا جماعا کمافی مسجد لیس لہ امام ولا مؤذن انتہی۔ اور بھی درالمختار میں ہے۔ قد[11] علمت بان الصحیح انہ لا یکرہ تکرار الجماعۃ اذا لم تکن علی الھیئۃ الاولی انتہی مختصرا۔ پس ان روایات فقیہہ سے صاف معلوم ہوا کہ جب جماعت ثانیۃ میں عدول محراب سے ہوجائے یا تکرار اس کابغیر اذان کے ہو تو بلا کراہت جائز ہے اگرچہ اقامت اس میں کہی جائے اور حضرت انس کے فعل سے ثابت ہوا کہ انہوں نے تکرار جماعت ساتھاذان و اقامت دونوں کے کیا۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ حررہ ابوالطیب محمد شمس الحق العظیم آبادی عفی عنہ۔                    (سید محمدنذیر حسین)



[1]   آنحضرتﷺ نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو آپ نے فرمایا کیا کوئی ہے جو اس آدمی پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے ایک آدمی کھڑا ہوا، اور  اس نے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی، آپ نے فرمایا یہ دونوں جماعت ہیں۔

[2]   ایک آدمی آیا اور آنحضرت ﷺ نماز پڑھ چکے تھے وہ اکیلا نماز پڑھنے لگا،  رسول اللہﷺ نے فرمایا، کون ہے جو اس سے تجارت کرتا ہے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھے۔

[3]   آنحضرتﷺ ظہر کی نماز پڑھ چکے تھے۔ کہ ایک آدمی داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا، آپ نے فرمایا، کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھے۔

[4]    ابن سید الناس نے کہا وہ آدمی جو اس کے ساتھ کھڑا ہوا تھا، ابوبکر صدیق ؓ تھا۔

[5]    حضرت انسؓ مسجدمیں آئے، جماعت ہوچکی تھی، آپ نے اذان و اقامت کہی اور جماعت سے نماز پڑھی۔

[6]   انس بن مالکؓ بنوثعلبہ کی مسجد میں آئے ، صبح کی نماز پڑھی جاچکی تھی آپ نے ایک آدمی کو حکم دیا اس نے دوبارہ اذان کہی اور اقامت پڑھی،پھر اپنے ساتھیوں سمیت نماز پڑھی۔

[7]   اور اس میں سے ایک ہی مسجد میں تکرار جماعت کا مسئلہ بھی ہے مجمع میں ہے محلہ کی مسجد میں دوسری اذان کہہ کر دوبارہ جماعت نہ کرائی جائے، مجتبے میں بھی ایسا ہی ہے۔

[8]   جب کسی مسجد کا کوئی امام اور مؤذن مقرر نہ ہوں تو اس میں اذان اور اقامت سے جماعت مکروہ نہیں ہے بلکہ افضل ہے ہاں اگر امام اور مؤذن مقرر ہوں تو تکرار جماعت مکرہ ہے اور ابویوسف کے نزدیک اگر پہلی ہیئت پر نہ ہو تو مکروہ نہیں ہے ، ورنہ مکرہ ہے اور یہی صحیح ہے۔

[9]   محلہ کی مسجد میں تکرار جماعت اسی صورت میں مکرہ ہے، جب کہ اذان و اقامت سے ہو، اگر صرف اقامت سے ہو تو مکروہ نہیں ہے، ابویوسف کہتے ہیں  اگر جماعت پہلی ہیئت پرنہ ہو تو مکروہ نہیں ہے اور محراب بدل دینے سے ہیئت بدل جاتی ہے۔

[10]   محلہ کی مسجد میں اذان  اور اقامت سے جماعت مکروہ ہے،ہاں اگر پہلے محلے والوں نے نہ پڑھی ہو یا محلہ والوں نے اذان آہستہ کہی ہو یا محلہ والے ہی دوبارہ جماعت کرائیں یا مسجد شارع عام پر ہو یا اس کاکوئی امام مقرر نہ ہو تو ان تمام صورتوں میں تکرار جماعت مکروہ نہیں ہے۔

[11]   یہ تو آپ جانتے ہیں کہ اگر پہلی ہیئت پرجماعت نہ ہو تو تکرار جماعت مکروہ نہیں ہے۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے