سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(155) نماز قضا باجماعت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟

  • 5662
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1392

سوال

(155) نماز قضا باجماعت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد میں نماز مغرب یا جماعت ہوچکی ہے ، جب وقت قضا ہوا اور عشاء کی نماز کا وقت آگیا تو دو شخص اس مسجد میں آئے اور مغرب کی نماز قضا باجماعت مع اذان و اقامت کے پڑھی۔ ایسی صورت میں ان کو نماز قضا باجماعت پڑھنی چاہیے  ساتھ اذان و اقامت کے یابغیر جماعت کے۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی مسجد میں نماز جماعت  کےس اتھ ہوچکی تھی تو اس میں پھر اس نماز کو یا اس کی قضا کو جماعت سے پڑھنے کی ممانعت ثابت نہیں ہے ، بلکہ جواز ثابت ہے ، ابوداؤد ترمذی میں ابوسعید سے مروی ہے۔ ان[1] رجلا دخل المسجد و قد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باصحابہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من یتصدق علیٰ ھذا فیصلی معہ فقام رجل من القم فصلی معہ۔

نیل الاوطار میں ہے:

(ترجمہ) ’’ترمذی نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس مسجد میں جماعت ہوجائے اس میں کوئی قوم دوبارہ جماعت کرا سکتی ہے ۔ امام احمد اور اسحاق کا یہی  مذہب ہے۔‘‘

دارقطنی میں ہے :

’’ جس مسجد میں جماعت ہوچکی ہو اس میں دو یا تین یا زیادہ مرتبہ جماعت جماعت کی تکرار بلا کراہت جائز ہے۔ اسی پر صحابہ، تابعین اور بعد کے لوگوں کا عمل ہے اور مکروہ کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ قول ضعیف ہے۔‘‘

پس صورت  مسئولہ میں ان کو نماز باجماعت پڑھنی چاہیے ، رہی یہ بات کہ اذان  واقامت ہو یانہ ہو، سو ادائے جماعت ثانیہ کے لیے اذان کا ہونا اس مسجد میں جس میں پہلی جماعت کے لیے اذان ہوچکی ہو ، کسی حدیث مرفوع سے ثابت  نہیں ہوتا ، ہاں فعل حضرت انسؓ سے ثابت  ہوتا ہے کہ ہونا چاہیے صحیح بخاری میں ہے۔ جاء انس الی مسجد قد صلی فیہ فاذن و اقام وصلی جماعۃ رواہ البخاری معلقا۔ یعنی حضرت انس ؓایک مسجد میں آئے جس میں نماز ہوچکی تھی، پس اذان دی اور اقامت کہی اور جماعت سے نماز پڑھی اور قضا فوایت کی جماعت کے لیے اذان کا ہونا حدیث مرفوع سے ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث لیلۃ العریس و حدیث یوم الخندق میں مصرح ہے۔  فامر[2] بلال  فاذن و اقام ۔نیل الاوطار میں ہے ۔ استدل بالحدیث علی مشروعیۃ الاذان والاقامۃ فی الصلوۃ القضیۃ وقد ذھب الی استجابھا فی القضاء الھادی والقاسم والنصار وابو حنیفۃ و احمدبن حنبل و ابو ثور۔عالمگیر یہ  میں ہے ۔  من [3]فاتتہ صلوٰۃ فی وقتھا  نقضاھا اذن لھا واقام واحد ا کان او جماعۃ کذا فی المحیط۔ اور یہ حکم عام ہے اس سے کہ جس  مسجد میں قضا فوایت ہوتی ہے، اذان ہوچکی ہو، یا نہ ہوئی ہو، تاکہ یہ نماز قضا موافق ادا کے ہو۔ واللہ اعلم ۔ حررہ محمد عبدالحق ملتانی عفی عنہ۔                      (سید محمد نذیرحسین)



[1]   ایک آدمی مسجدمیں داخل ہوا،جماعت ہوچکی تھی ، آپ نے فرمایا: کوئی اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھے ، توایک آدمی نے اُٹھ کر اس کے ساتھ نماز پڑھی۔

[2]   بلال  کوحکم دیا، اس نے اذان کہی اور تکبیر پڑھی۔

[3]   اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہےکہ جمات ہوجانےکے بعد اذان اور اقامت مشروع ہے ، امام ابوحنیفہ، ناصر،قاسم، ہادی، احمد بن حنبل اور ابو ثور اسکو مستحب جانتے ہیں۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے