کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مدرک رکوع کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں۔استدلال مستدل ابوہریرہ کی ان دو روایتوں سے ہے۔ من[1] فاتتہ قرأۃ القرآن فقد فات خیرا کثیرا۔ واذا[2] جئتم الی الصلوۃ ونحن سجود فاسجددہ ولا قدوھا شیئا ومن ادرک رکعۃ من الصلوۃ فقد ادرک الصلوۃ ۔ سو مستدل کا استدلال ان دونوں روایتوں سے صحیح ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا
[1] جس سے قرآن کی قرأت فوت ہوگئی اس سے بہت سی بھلائی چلی گئی۔
[2] جب تم نماز کو آؤ اور ہم سجدہ کی حالت میں ہوں تو تم میں سجدہ میں شامل ہوجاؤ اور اس کو رکعت نہ گنو اور جس نے جماعت کی ایک رکعت بھی پالی ، اس نے جماعت کا ثواب پالیا۔
مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہوتی ، اس لیے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔ قال[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا صلوۃ لمن لم یقرا بفاتحہ الکتاب متفق علیہ اور جزء القراء ۃ للامام البخاری میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے ۔ ان[2] ادرکت القوم رکوعا لم تعد بتلک الرکعۃ۔ یعنی اگر تم قوم کو رکوع میں پاؤ تو اس رکعت کو شمار نہ کرو۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔ ھذا ھوالمعروف عن ابی ہریرہ موقوفا واما المرفوع فلا اصل لہ ۔ یعنی یہ روایت ابوہریرہؓ سے موقوفا معروف ہے لیکن یہ روایت مرفوعا بے اصل ہے اور ابوہریرہؓ کی دونوں روایت مذکورہ سے استدلال صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ان دونوں روایتوں میں رکعت ہونے نہ ہونے کاذکر نہیں ہے ، بلکہ مسکوت عنہ ہے ، پس ان دونوں روایتوں کو ان روایات کی طرف پھیرنا چاہئے جن میں صراحۃ مذکور ہے۔ کہ وہ رکعت نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ بریں حدیث من ادرک رکعۃ الخ میں رکعت سے رکوع مراد لینا جائز نہیں کیونکہ یہ معنی مجازی ہیں اور لفظ کا معنی مجازی مراد لینا بلا قرینہ کے جائز نہیں اور اس حدیث میں کوئی قرینہ نہیں ہے اور ساتھ اس کے یہ حدیث ضعیف ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔کتبہ عبدالرحمٰن گورکھ پوری عفاء اللہ عنہ (سید محمد نذیر حسین)
[1] آنحضرتﷺ نے فرمایا: جس نے الحمد نہیں پڑھی ، اس کی نماز نہیں ہے۔
[2] اگر تو جماعت کو رکوع کی حالت میں پائے تو اس رکعت کو شمار نہ کرنا۔