سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(150) اگر امام نابینا اور مرغ باز معروف اور سننے والا راگ زنان فاحشہ سے..الخ

  • 5657
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1560

سوال

(150) اگر امام نابینا اور مرغ باز معروف اور سننے والا راگ زنان فاحشہ سے..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درباب امامت اگر امام نابینا اور مرغ باز معروف اور سننے والا راگ زنان فاحشہ سے امام مسجد واسطے ہمیشہ کے مقرر کریں، اس شخص کے پیچھے واسطے پڑھنے نماز کے کیا حکم رکھتا ہے۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درصورت مرقومہ امام بنانا اور مقرر کرنا نابینا کو کہ مرغ باز اور سننے والا راگ زنان فاحشہ کا ہو، موجب کراہت تحریمہ اور سبب گناہ کاہے، پس ہرگز روا و درست نہیں امام بنانا اس کو کیونکہ وہ فاسق ہے اور امام بنانے میں اس کی تعظیم اور بزرگی متصور ہوتی ہے، حالانکہ وہ قابل اہانت کے ہے، جناب مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی  بیچ تفسیر اپنی کے ارشاد فرماتے ہیں: (ترجمہ):’’ یعنی  میراعہد ظالموں کونہیں پہنچے گا ، یعنی ظالموں کو کوئی عہدہ خدمت و منصب خواہ نبوت ہو یا امامت و خلافت نہیں مل سکے گا،فاسق اگر زیادہ عالم ہو، تو بھی اس کو آگے کھڑا نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس کو آگے کھڑا کرنے  میں اس کی تعظیم ہے اور شرعاً واجب ہے کہ اس کی توہین کی جائے اور اس کامطلب یہ ہوگا کہ اس کو آگے کھڑا کرنامکروہ تحریمی  ہے۔‘‘

اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح سفر السعادت میں ایک حدیث نقل کی ہے:لا یؤمن فاجر مومنا (ترجمہ) یعنی امامت نہ کرا دے فاجر فاسق مرد مسلمان دیندار کی، پس مرد مسلمان ذی اقتدار کو روا نہیں کہ امام مقرر کرے،کسی فاسق فاجر کو واسطے منصب امامت کے۔

امام شعرانی کشف الغمہ میں فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ اکثر ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ امام بناؤ مرد نیک بخت کو کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثیرا ما یقول اجعلوا ائمتکم خیارکم فانہم وفدکم فیما بینکم و بین ربکم انتہی ما فیکشف الغمۃ اور مشکوٰۃ شریف میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول خدا ﷺ نے تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ ایک وہ شخص کہ نماز پڑھاتا ہو کسی قوم کو کہ وہ لوگ اس کو مکروہ جانتے ہوں اور بدوضعی اس کی سے ناخوش ہوں ،اور  دوسرا وہ شخص کہ نماز کو قضا کرتا ہو، اور تیسرا وہ شخص کہ  حُر کو غلام بنایا ہو ، روایت کیا اس کو  ابوداؤد و ابن ماجہ  نے  عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثلاثۃ  لا تقبل منہم صلوتہم من تقدم قوم وھم لہ کارہون ورجل اتی الصلوٰۃ دبار او الدبار ان یاتیہا بعد ان تفوتہ و رجل اعتبد محررۃ رواہ ابوداؤد و ابن ماجۃ کذا فی المشکوٰۃ۔ پس موجب روایات فقہ و حدیث کے نابینا مذکور بالا کو امام مقرر کرنا ہمیشہ کو بہت بُرااور قریب حرام کے ہے،صاحب مسجد پر فرض و واجب ہے کہ نابینا فاسق کو امام مسجد کا مقرر نہ کرے اگر مقرر کرے گاگنہگار ہوگا کہ خلاف حکم رسول خداﷺ کے عمل میں لائے گا اور وبال نقصان نماز اور عدم ثواب جماعت کا اس پر ہوگا۔ وماعلینا الالبلاغ۔ حررہ سید شریف حسین

برجندی میں لکھا ہے کہ ’’فاسق معلن کی امامت مکروہ ہے کیونکہ امامت کے لیے سب سے مناسب بڑا عالم ہے جو احکام نماز کا سب سے بڑا عالم ہوبشرطیکہ قراء ت اچھی طرح کرسکتا ہو اور ظاہری فواحش سے پرہیز کرتا ہو اس کے بعد جو اچھا قاری ہو اس کے بعد جوزیادہ پرہیز گار ہو اس کے بعد عمر رسیدہ بشرطیکہ اس کے ہوش و حواس درست ہوں اس کے بعد جس کو قوم زیادہ پسند کرے اوور بعض کے نزدیک جو زیادہ خوبصورت اور امامت مکروہ ہے نابینا  حرامزادہ اور بدعتی کی بشرطیکہ اس کی بدعت کفر تک نہ پہنچے ورنہ نماز درست نہ ہوگی۔ حاصل یہ کہ کتب  فقہ و احادیث و تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ امام  وہ ہو جو متقی ہو اور فواحش و بدعات سے مجتنب ہو۔ ‘‘واللہ اعلم۔

یہ سب مرقومہ بالا صحیح ہے یعنی نماز پیچھے فاسق کے مکروہ تحریمی ہے اور اس کی امامت ممنوع ہے بلکہ جہاں کہیں فاسق نماز پڑھ رہا ہو وہاں سے دوسری جگہ جاکر نماز پڑھنی چاہیے۔ کما فی العالمگیریۃ الفاسق اذا کان یؤم الجمعۃ و عجز القوم عن منعہ قال بعضہم یقتدی بہ فی الجمعۃ ولایترک الجمعۃ بامامتہ وفی غیر الجمعۃ ان یتحول الی مسجد اخر ولایا ثم بہ ھکذا فی الظھریۃ یعنی فاسق جب امام ہوئے امام جمعہ کا اور عاجز ہوں لوگ اس کے روکنے سے کہا بعض نے اس کے پیچھے نماز پڑھ لے جمعہ کی اور جمعہ نہ چھوڑے اس کی امامت کی جہت سے اور جو غیرجمعہ کی کوئی فاسق نماز پنجگانہ میں سے امامت کرائے تو دوسری مسجد میں جاکر نماز اداکرے اور اس میں گنہگار نہیں ہوتا انتہی اور حدیث صلواخلف کل بروفاجر کی صحیح نہیں ہے کیونکہ صاحب سفر السعادت لکھتے ہیں کہ در[1] باب صلوا خلف کل بدو فاجر حدیثے صحیح نہ شدہ پس قابل عمل کے نہیں ہے اور بالفرض اگر ثابت ہے  تو امر امامت کے لیےنہیں ہے کما ہو الظاہر بلکہ اشارہ طرف اسلام کے اس کے ہے۔ وفی[2] المعراج قال   اصحابنا لا ینبغی ان یقتدای بالفاسق الا نی الجمعۃ لانہ فی غیرھا یجد اماما غیرہ بل مشی فی شرح المنیۃ علی ان کراھۃ تقدیم کراھتہ تحریم کذا فی شرح درالمختار یعنی شامی شرح درمختار میں معراج سے نقل کیا ہے کہ کہاحنفیوں نے یعنی امام صاحب اور دونوں صاحبین نے لاوق نہیں اقتدا فاسق کے پیچھے سو ا جمعہ کے کیونکہ سوا جمعہ کے اچھا امام کہیں نہ کہیں مل جائے گا اور کہا شامی نے اور شرح منیہ میں ہے  کہ فاسق کا امام بنانا مکروہ تحریمی ہے انتہی اور لکھا ہے آیات الاحکام ترجمہ تفسیر احمدی والے نے بیچ اس آیت کے ان[3] اکرمکم عنداللہ اتقاکم یعنی متقی اللہ کے نزدیک بزرگ اور مکرم ہے اس سے معلوم ہوا کہ عادل پرہیز گار کو تقدم ہے امامت کا غیر پرہیز گار عالی نسب سے انتہی العبد الضعیف محمد امیر یارخاں تھانوی۔

یہ مسئلہ اختلافی ہے اور احتراز میں احتیاط ہے خصوصاً فاسق معلن ہرگز امام الحی نہ بنایا جائے ۔   حررہ عبدالسمیع رامپوری عفی عنہ

متعین کردن شخصے فاسق برائے امامت ہرگز جائز نیست قریب بحرام است زیراکہ نماز خلف فاسق مکروہ تحریمی است چنانچہ درطحاوی مصرح است:

(ترجمہ) ’’فاسق آدمی کو مقرر کرنا جائز نہیں بلکہ حرام کے قریب ہے کیونکہ فاسق کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ  تحریمی ہےچنانچہ طحاوی میں تصریح ہے کہ فاسق اعلم کو کھڑا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس کی تعظیم ہے حالانکہ شرعاً اس کی توہین واجب ہے اس کامطلب یہ ہے کہ اس کو آگے کھڑا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔عالمگیری میں ہے کہ فاسق اگر جمعہ کے دن نماز پڑھائے اور اس کو ہٹایا نہ جاسکتا ہو تو اس کےپیچھے جمعہ پڑھ لینا چاہیے اور دوسری نمازیں کسی اورمسجد میں جاکر پڑھ لینی چاہیئیں۔‘‘

حقیقت میں فاسق کو امام بنانا بُراہے عبداللہ عفی عنہ۔ ہذا الجواب صحیح محمد رافت علی ۔ امام ساختن شخص فاسق رامکروہ تحریمی است:

(ترجمہ) ’’فاسق کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے اگر فاسق کی اقتدا کریں گے تو گنہگار ہوں گے کیونکہ فاسق دینی امور کی تعظیم نہیں کرتا ایسے شخص کی توہین کرنا شرعا واجب ہے اور اس کو امام بنانے میں اس کی تعظیم ہے۔طحطاوی میں ہے کہ فاسق کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے مکروہ تحریمی نہیں جو لوگ مکروہ تحریمی کہتے ہیں انہوں نے تقدیم اور تقدم کا فرق نہیں سمجھا (یعنی کسی کو خود امام بنانا اور کسی مقرر امام کے پیچھے  نماز پڑھنے میں بڑا فرق ہے) غلام، بدوی اور فاسق کی امامت مکروہ تنزیہی ہے اگران کے سوا کوئی اور امام مل جائے تو بہتر ہے ورنہ اکیلے نماز پڑھنے سے ان  کے پیچھے نماز پڑھ لینا بہتر ہے اگر ان کے پیچھے نماز پڑھ لےگا تو اسے جماعت کا ثواب مل جائے گا کیونکہ صحابہ حجاج کے پیچھے نماز پڑھتے رہے ہیں حالانکہ اس کا فسق ظاہر ہے۔‘‘

’’فاسق دینی امور کی تعظیم نہیں کرتا اس کو امام مقرر کرنے سے جماعت متنفر ہوجائے گی ہاں اگرپہلے سے کوئی فاسق پڑھ رہا ہوں تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے۔‘‘

اس زمانہ میں مقرر کرنا امام کا جماعت کے اختیار ہے اور حاکم کو اس میں کچھ مداخلت نہیں تو اب امام ہونافاسق کا بہ تغلب ممکن نہیں اگر فاسق کو امام مقرر کریں گے تو بااختیار کریں گے اور یہ مقرر کرنا فاسق کو امام مکروہ تحریمی ہے جیساکہ ہدایہ میں ہے: ویکرہ تقدیم العبد بعد اس کے کہا  والفاسق لانہ لا یہتم لامردینہ ولان فی تقدیم ھؤلاء تنفیر الجماعۃ فیکرہ وان تقدموا جاز لقولہ علیہ السلام صلوا خلف بروفاجر اور کبیری میں ہے۔ ویکرہ[4] تقدیم الفاسق لتساھلہ بالامور الدینیۃ  وان تقدموا جاز یعنی جازت الصلوٰۃ وراءھم مع الکراھتہ ولا تفسدو فی الفاسق خلاف مالک فان عندہ لا تصح امامتہ والاقتداء بہ و کذا عند احمد فی روایۃ اوریہ بھی اسی میں ہے وفیہ[5] اشارۃ الی ایہ لوقد موا فاسقا یأ ثمون بناء علی ان کراھۃ تقدیم کراھتہ تحریم اور یہ جو جواز  مع الکراہت در صورت تقدم ہے مطلق کراہت مروی ہے اورمراد اس سے تحریمی ہوتی ہے اور جنہوں نے قید تنزیہی کی لگائی ہے جیسے درالمختار میں ہے ۔ ویکرہ[6] تنزیہا امامۃ عبدوا العلۃ ما قد مناہ من تقدم الحرا الاصلی اذا لکراھتہ تزیہتہ و فاسق ان لوگوں نے اس کی علت میں صلوٰۃ سلف کی ظلمہ کے پیچھے جیسے حجاج وغیرہ کی مثال دی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کراہت تنزیہی درصورت  ضرورت ہے کہ امام کوبدل نہیں سکتے ترک جماعت کر نہیں سکتے اور دونوں صورتوں میں ظن فتنہ کا ہے اور یہ صورت اس زمانہ میں مفقود اور مطلق صلوۃ خلف الفاسق میں قید خوف فتنہ کی لگ گئی ہےاور اگر تحرز ممکن ہو تو اس سے تحرز کرے جیسا کبیر میں ہے :لکن[7] قال اصحابنا لا ینبغی ان یقتدی بہ الا فی لجمعۃ للضرورۃ فیھا بخلاف سائر الصلوٰۃ للتمکن فی التحول الی مسجد اخر فیما سوی الجمعۃ اور آگے بڑھ کر جواز تعدد جمعہ کا ذکرکیا اور اس عذر کوبھی دفع کیا غرضکہ اس سے بخوبی واضح ہوگیا کہ بے ضرورت اور بدون کسی حرج کے نماز فاسق کے پیچھے مکروہ تحریمی ہے اور اس سے بچنا چاہیے اور بضرورت خوف فتنہ مکروہ تنزیہی ہے اور اگر اتفاقا کوئی فاسق کہیں امام ہوگیا یا کسی نےجہل کے سبب اس کو امام مقرر کرلیا تو جماعت کو لازم ہے کہ اس کو بدل دیں ورنہ تقدیم فاسق کی ان کے ذمہ لازم ہے اور اگ ربدل نہیں سکتے تو کسی اور جوہ جاکر نماز پڑھ لیا کریں جیسا اوپر گذرا۔ محمد یعقوب مدرس مدرسہ دیوبند عربی                     رشیداحمد گنگوہی عفی عنہ         (محمد عبدالرب)

ماحصل جواب مجیب ثانی کے سے تطبیق دونوں قولوں کی یعنی مکروہ تحریمہ و مکروہ تنزیہہ والا کی خوب ثابت ہوئی حق یہ ہے کہ معنے یہ ہے کہ بلا ضرورت اگر فاسق کے پیچھے نماز پڑھیں تو مکروہ تحریمہ ہے ورنہ تنزیہہ اور ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں کچھ ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس مسجد میں نہ پڑھے دوسری میں پڑھے اور بھی اہل مسجد کو اختیار ہے کہ امام کو بدل دیں پس باوجود ان  سب اختیارات کے جو کوئی امام فاسق کے پیچھے ہمیشہ نماز پڑھے وہ بلا شبہ مکروہ تحریمہ ہے۔ الجواب صحیح محمد نور اللہ متوطن گلا وٹی ابوالخیرات سید احمد عفی عنہ مدرس مدرسہ عربی دیوبند۔

محصول قول ماحصل کا صحیح ہے  کہ فاسق کو امام کرنا کچھ ضرور نہیں متقی شخص ہونے کے واسطے اس کے امام کرنےمیں اس کی تعظیم ہوتی ہے اور واجب ہے مسلمانوں پراہانت کرنی اس کی ازروئے شرعی کے چنانچہ یہ بات کتب فقہ سے ثابت ہے کہ امام غلام اور اعرابی اور  فاسق اور نابینا کی مکروہ ہے مگر کہ یہ لوگ سوائے فاسق کے اعلم قوم ہوں اور فاسق اگر اعلم قوم ہو تو بھی اسے امام نہ کرنا چاہیے کہ اس کیامامت میں تعظیم و توقیر ہے اور تحقیق واجب ہے  لوگوں پر اہانت کرنی اس کی پس اس مضمون سے کراہت تحریمی صاف معلوم ہوئی جیسے کہ عبارت درالمختار اور طحطاوی حاشیہ اس کے سے صاف معلوم ہوتاہے:

(ترجمہ) ’’اگر فاسق کے علاوہ اور لوگ یعنی غلام ، نابینا اور اعرابی زیادہ عالم ہوں تو وہ فاسق سے بہتر ہے کیونکہ فاسق کو امام بنانے سے اس کی عزت ہوگی حالانکہ اس کی توہین ہونی چاہیے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔‘‘

البتہ نماز پڑھنی پیچھے ایسے شخص کے جو فاسق ہوئے اور علانیہ فسق کرتا ہو مثل راگ مزامیر سے یارنڈی کی زبان سے یا بھگڑ یاشرابی یا گور پرست یاتعزیہ بنانے والا ہوئے یا ان لوگوں میں شامل رہتا ہے یعنی اس میں مدد کرتا ہے البتہ ایسے شخصوں کےپیچھے نماز درست نہیں فتاویٰ تمرتاشی 98صفحہ میں ہے۔ ولو[8] کان اماما فاسقا لا یجوز اقتداؤہ اور فتاوے کاشانی کے صفحہ 109 میں ہے ۔ ولو کان اھل السکر واھل الفسق لا یجوز الصلوٰۃ عقیبہ ہرانسان دیندار کو مناسب ہے کہ امام دیندار اور متقی صاحب ورع کو بنا دیں ۔ حررہ فقیر محمد رمضان ساکن قصبہ بوڑیہ۔ ہذا الجواب صحیح فقیر اللہ داد ساکن قندھار۔



[1]   ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو۔

[2]   ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ فاسق کی اقتداء  جمعہ کےعلاوہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ووسری نمازوں میں تو اس کے علاوہ اور امام بھی مل جائے گا اور  فاسق کو آگے کھڑا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

[3]   تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

[4]   فاسق کے پیچھے نماز مع الکراہت جائز ہے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ امام مالک اور احمد بن حنبل کےنزدیک فاسق کے اقتداء حرام ہے۔

[5]   اگر فاسق کو خود آگے کھڑا کریں تو گنہگار ہوں گے کیونکہ اس کی اقتداء مکروہ تحریمی ہے۔

[6]   غلام کی امامت تنزیہی ہے کیونکہ اصل امامت آزاد کا حق ہے۔

[7]   ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ جمعہ کے علاوہ فاسق کے پیچھے اور کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیےکیونکہ دوسری نمازیں کسی اور مسجد میں بھی جاکر پڑھی جاسکتی ہیں۔

[8]    اگر امام فاسق ہو تو اس کی اقتداء جائز نہیں۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے