سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(142) بحالت بے ہوشی پانچوں وقت کی نماز فوت ہوگئی

  • 5649
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1512

سوال

(142) بحالت بے ہوشی پانچوں وقت کی نماز فوت ہوگئی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص سے بحالت بے ہوشی پانچوں وقت کی نماز فوت ہوگئی اس کا  کفارہ دینا لازم ہے یا کہ قضا پڑھنا چاہیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حالت بے ہوشی میں جو نماز فوت ہو، اس کا کچھ کفارہ نہیں ہے اور اس کی قضا پڑھنے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک اور شافعی کے نسدیک اس صورت مسئولہ میں قضا نہیں ہے اور ایک حدیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ، وہ حدیث یہ ہے:عن عائشۃ انہا سألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن الرجل یعمی علیہ فیترک الصلوٰۃ فقال لاشئ من ذلک قضاء الا  ان یفیق فی وقت صلوۃ فانہ یصلیہ رواہ الدارقطنی۔ یعنی حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا، جوبے ہوش ہوجائے ، پس اس کی نماز فوت ہوجائے تو فوت شدہ نماز کوقضا کرے یا نہیں، آپ نے فرمایا کہ کسی فوت شدہ نماز کی قضا نہیں مگر جب کسی  کے وقت  میں اس کو ہوش ہو تو اس وقت کی نماز اس کو پڑھنا ہوگا۔ اس حدیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے اسی کے قائل ہیں امام مالک  اور امام شافعی مگر یہ حدیث نہایت ہی ضعیف و ناقابل احتجاج ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک صورت مسئولہ میں پانچوں نماز فوت شدہ کی قضا پڑھنی ضروری ہے ۔ اس واسطے کہ امام محمد نے کتاب الآثار میں روایت کی ہے۔ اخبرنا ابوحنیفۃ عن حماد عن ابراہیم عن ابی عمر انہ قال فی الذی یغمی علیہ یرما ولیلۃ یقضی۔ یعنی ابن عمرؓ نے فرمایا کہ جو شخص ایک دن اور ایک رات بے ہوش رہے وہ نماز فوت شدہ کی قضا پڑھے اور دارقطنی نے یزید مولی عمار بن یاسرؓ سے روایت کی ہےکہ عمار بن یاسرؓ ظہر سے  لےکر عصر تک اور مغرب اور عشاء تک بے ہوش رہے اور آدھی رات کو ہوش آیا تو انہوں نے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی ، امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک دن اور ایک رات تک بے ہوشی  رہے یا ایک دن ایک رات سے کم تو نماز فوت شدہ کی قضا پڑھنی چاہیے اور اگر ایک دن ایک رات سےزیادہ بےہوش رہے تو نماز فوت شدہ کی قضا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔

حررہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ                                    (سید محمد نذیر حسین)

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے