کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید بعمر پچیس سال مرگیا اور وہ صاحب مال تھا، اب اس کے ورثاء چاہتے ہیں کہ کچھ مال اس کے نماز وروزہ میں دیا جائے اب سوال یہ ہے کہ نماز جو بدنی عبادت ہے، مال کے دینے سے ادا ہوسکتی ہے یا نہیں اگر ادا ہوسکتی ہے تو فی نماز کس قدر دیا جائے اور نقد دینا بہتر ہے یا اناج،یا کوئی مسجد شکستہ کی تعمار کرنا یاکنواں یاسرائے بنانا اور فرضیت نماز کی کس وقت سے شمار کی جائے اور اگر مال کے دینے سے ادا نہیں ہوسکتی تو اور کون سی تجویز ہے کہ اللہ اس کی مغفرت کرے۔ بینوا توجروا
واضح ہو کہ فقہ حنفی کی رو سے مال کے دینے سے نماز ادا ہوجاتی ہے اور فی نماز آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع خرما یاجو مقرر ہے، چنانچہ ہدایہ میں ہے: ومن مات و علیہ قضاء رمضان فاوصی بہ اطعم عنہ ولیہ لکل یوم مسکینا نصف صاع من براوصاعا من تمر او شعیر و نیز ہدایہ میں ہے والصلوٰۃ کالصوم باستحسان المشائخ وکل صلوۃ تعتبر بصوم یوم ھو الصحیح یعنی جو شخص کہ موت کے قریب ہو اور اس کے ذمہ روزہ رمضان کی قضا ہو اور وہ شخص اس کے بارے میں وصیت کرے تو اس کے دل کو ہر روز ایک مسکین کو آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع جو دینا ہوگا اورنماز مثل روزہ کے ہے باستحسان مشائخ اور ہر نماز ایک روزہ کے برابر اعتبار کی جائے گی یہی صحیح ہے اور نقد یا اناج سے بہتر یہی ہے کہ کسی مسجد شکستہ کی تعمیر کرا دی جائے یا کوئی کنواں یاسرائے بنوائی جائے کیونکہ یہ باتیں صدقہ جاریہ کی قسم ہے اور نماز کی فرضیت بالغ ہونے کے وقت سے شمار کی جائے گی کیونکہ شرعی احکام انسان کے ذمہ بلوغ ہی کے وقت سے متعلق ہوا کرتے ہیں۔ حررہ عبدالحق اعظم گڑھی۔
مذہب حنفی کا مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے روزہ رمضان کی قضا کے بارے میں وصیت کرکے مرجائے تو ورثاء پر اس وصیت کی وجہ سے ورثاء کو ضرور چاہیے کہ اس کے ہر روزہ کے بدلے آدھاصاع گیہوں یا ایک صاع جو یا کھجور ایک مسکین کو دیں اور وصیت نہ کرے تو ورثاء کو دینا ضروری نہیں ہے مگر باوجود اس کے اگر وہ دیں تو ادا ہوجائے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور مشائخ حنفیہ نے روزہ کی قضا پر نماز کی قضا کو قیاس کیا ہے ۔ استحساناً تو اگر کوئی شخص اپنی نماز کی قضا کے بارے میں وصیت کرکے مرجائے تو ورثاء پر ضروری ہے کہ ہر نماز کے بدلے آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع جو یا کھجور ایک مسکین کو دیں اور اگر وصیت نہ کرے تو دینا ضروری نہیں، مگر باوجود اس کے اگر دیں تو ادا ہوجائے گی، انشاء اللہ تعالیٰ،ہدایہ کی پہلی عبارت جو ہدایہ سے منقول ہوئی ہے، اس عبارت کے بعد یہ عبارت ہے۔
’’کیونکہ وہ اپنی آخری عمر میں ادا کرنے سے عاجز اگیا ہے اور شیخ فانی کی طرح ہوچکا ہے ، پھر ہمارے نزدیک وصیت کرنا بھی ضروری ہے ، امام شافعی کے نزدیک نہیں۔‘‘
ہدایہ کے حاشیہ میں ہے:
’’ ہمارے نزدیک مرنے والے کو اپنی نمازوں کے متعلق وصیت کرنا ضروری ہے اور اگر وارث از خود اس کی طرف سے ادا کردیں تو ان شاء اللہ اس کی طرف سے ادا ہوجائیں گی لیکن ان کے ذمہ لازم نہیں ہوگا اور امام شافعی کے نزدیک اگر وصیت نہ بھی کرے تو بھی وارثوں کے ذمہ اس کا ادا کرنا واجب ہے۔‘‘
اور حدیث مرفوع صحیح ہے جو بات صاف اور صریح طور پر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے باقی ہوں تو اس کی طرف سے اس کے دل کو روزہ رکھنا چاہیے اور یہی مذہب اصحاب حدیث اور ایک جماعت کا ہے اور ابن عباس ؓ کا فتوے یہ ہے کہ میت کے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا چاہیے اور یہی مذہب امام مالک و شافعی و ابوحنیفہ کا ہے اور میت کی نماز فوت شدہ کے بارے میں حدیث صحیح سے کچھ ثابت نہیں ہے نہ یہ ثابت ہے کہ اس کی طرف سے اس کے دل نماز پڑھیں اور نہ یہ ثابت ہے کہ اس کی نماز کے بدلے مسکین کو کھانا دیں ، غرض کچھ ثابت نہیں ہے اور اس بارے میں کسی صحابی کاکوئی فتویٰ بھی نظر سے نہیں گذرا ، پس موافق مسلک فقہاء حنفیہ کے اگر میت کی نماز فوت شدہ کے بدلے میں صدقہ دیا جائے تو بس اسی پراکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ میت کے لیےدعائے مغفرت بھی ضرور کرنا چاہیے کیونکہ دعاء کا نفع میت کوبالاتفاق پہنچتا ہے اور اس بارے میں آیت قرآنیہ و احادیث صحیحہ صریحہ موجود ہیں واللہ تعالیٰ اعلم۔ کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)