کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آمین بالجہر کاص مقتدیوں کے واسطے بالفاظ صریح غیر محتمل المعنیین آیا کسی حدیث صحیح مرفوع متصل الاسناد سے ثابت ہے یا نہیں اور امام پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے اس لیےکہ امام بہت سی چیزوں کو بالجہر کہتا ہے، مثلاً تکبیر و قرأت و سلام وغیرہ آیا کسی حدیث سے یہ بات ثابت ہے یا نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے کسی مقتدی نے آمین بالجہر کہی ہے یا نہیں؟
سوال دوم۔ آمین بالجہر علی الخصوص نمازجہری میں کیوں خاص کی گئی ہے آیا کسی حدیث صحیح مرفوع سے تخصیص صلوۃ جہری و نفی صلوۃ سری کی بصراحت تمام وارد ہے یا نہیں اگر وارد ہے تو براہ مہربانی دونوں سوالوں کا جواب حدیث مرفوع متصل الاسناد سےمع روایت و اسامی کتب کے تحریر فرمایا جائے، بدرجہ تنزل میں اس کی بھی اجازت دیتا ہوں کہ حدیث حسن یا ضعیف قابل عمل ہی سے لکھا جائے ، واضح رہے کہ آثار صحابہ سے استدلال نہیں چاہتا ہوں۔
ہاں آمین بالجہر خاص مقتدیوں کے واسطے بالفاظ صریح غیر محتمل المعنیین ایسی حدیث صحیح، مرفوع، متصل الاسناد سے ثابت ہے جس کیصحت پر تمام علماء اہلسنت والجماعت کااتفاق ہے ، یعنی حدیث متفق علیہ سے ثابت ہے ، وہ حدیث یہ ہے۔ عن[1] ابی ہریرۃ ان رسول اللہ علی اللہ وآلہ وسلم قال اذا قال الامام غیر المغضوب علیہم ولاالضالین فقولوا امین فانہ من وافق قولہ قول الملائکۃ غفرلہ ماتقدم من ذنبہ اخرجہ البخاری و مسلم واللفظ للبخاری۔ اس حدیث میں لفظ فقولوا کا مصدر قول ہے جو متضمن معنیین یامعانی چند کا ہرگز نہیں ہے کیونکہ قول کے معنی لغت میں صرف گفتن کے ہیں، پس معلوم ہوا کہ لفظ قولوا مشترک نہیں ہے اور جب مشترک نہیں ٹھہرا تومحتمل معنیین کا نہیں ہوسکتا، غایت مانی الباب لفظ قول چونکہ مطلق ہے اس وجہ سے اس کے افراد نکلیں گے اور کم از کم اس کے دو فردنکلیں گے ، قول بالجہر و قول بالسر ،پس اس حدیث متفق علیہ سے جو مرفوع متصل الاسناد اور نہایت صحیح ہے، آمین بالجہر مقتدیوں کے واسطے بالفاظ صریح غیر محتمل المعنیین ثابت ہوا اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے مقتدی آمین بالجہر کہتےتھے،کیونکہ لفظ قولوا کے اصل مخاطب صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں جو آپ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے جان سے حاضر رہتے تھے اگر تم یہ کہو کہ جب قول مطلق ہے اور اس کے دو فرد ہیں، قول بالجہر و قول بالسر، تو اس حدیث سے جیسے مقتدیوں کے لیے آمین بالجہرکہنا صراحۃ ثابت ہوتا ہے اسی طرح ان کے لیے آمین بالسر کہنا بھی صراحۃ ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس حدیث میں لفظ قولوا مطلق واقع ہے اور بالجہر یابالسر کی قیدنہیں ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ جب لفظ مطلق علی الاطلاق بلا کسی قید کے استعمال کیا جاتا ہے تو اس مطلق سے اس کافرد کامل مرادہوتا ہے اور فرد ناقص مراد نہیں ہوتا ہے اور یہ قاعدہ فقہاء نے حنفیہ کے نزدیک بھی مسلم ہے،علامہ صدر الشریعت توضیح میں تحریرفرماتے ہیں۔ لان[2] المطلق لا یتناول رقبۃ وھو فائیت جلس المنفعۃ وھذا ما قال علماء ونا ان المطلق ینصرف الی الکامل انتہی اور علامہ محب اللہ البہاری مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں۔ فانتقال[3] الذھن من المطلق الی الکامل ظاھر انتہی اور ملا جیون نو رالانوار میں لکھتے ہیں۔ ولنا[4] فی ھذا المقام ضابطتان احدھما ان المطلق یجری علی اطلاقہ والثانیۃ ان المطلق ینصرف الی الفرد الکامل فالاول فی حق الاوصاف کا لایمان والکفر والثانی فی حق الذات کالزمانۃ والعہی انتہی مختصرا۔ ان تمام عبارات سے صاف ظاہرہوا کہ جب مطلق کا استعمال بلا کسی قید کے ہوتا ہے تو اس کا صرف وہی فر دمرا دہوتا ہے جو کامل ہوتا ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ مطلق قول کے دونوں فرد قول بالجہر و قول بالسر میں سے قول بالجہر ہی فرد کامل ہے اورمطلق قول سے اسی قول بالجہر ہی کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے بناء علیہ حدیث مذکور میں لفظ فقولوا آمین سے آمین بالجہر کامراد ہونا متعین ہے اورمطابق قاعدہ مذکورہ کے آمین بالسر مراد لینا جائز نہیں ہے۔
اور دوسرا جواب یہ ہے کہ عندالحنفیہ یہ قاعدہ مسلم ہوچکا ہے کہ قول صحابی یا عام کا مخصص ہوتا ہے،مسلم الثبوت میں ہے: فعل[5] الصحابی العادل العالم مخصص عندالحنفیۃ و الحنابلۃ خلافا للشافعیۃ والمالکیۃ انتہی مختصرا۔اور اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ صحابہ ؓ کا فعل آمین بالجہر ہی تھا،امام کے پیچھے صحابہؓ آمین بالجہر ہی کہا کرتے تھے ،صحیح بخاری میں ہے: امن [6]ابن الزبیر ومن وراء ہ حتی ان المسجد للجۃ وکان ابوہریرۃ ینادی الامام لا نفتنی بامین ۔ فتح الباری میں ہے۔ وصلہ[7] عبدالرزاق عن ابن جریج عن عطاء قال قلت لہ اکان ابن الزبیر یؤمن علی اثر ام القرآن قال نعم و یؤمن ورائہ حتیان للمسجد للجۃ ثم قال انما امین دعاء قال وکان ابوہریرۃ یدخل المسجد وقد قام الامام فینادیہ فقیول لاتسبقنی بامینوردی البیہقی من وجہاخر عن عطاء قال ادرکت مائتین من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی ھذا المسجد اذا قال الامام ولاالضالین سمعت لھم رجۃ بامین۔پس جب ثابت ہواکہ صحابہ امام کے پیچھے آمین بالجہر کہت ےتھے تو صحابہ کا یہ فعل مطابق قاعدہ مذکورہ حنفیہ کے حدیث مذکور میں لفظ فقولوا امین کامخصص ہوگا یعنی اس سے صرف آمین بالجہر مراد ہوگی اور اپنی آثار صحیحہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ صحابہؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آمین بالجہر کہتے تھے کیونکہ یہ بات غیر معقول ہے کہ صحابہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آمین بالجہر نہ کہیں اور ابن زبیرؓ وغیرہ امام کے پیچھے آمین بالجہر کہیں اورہاں واضح رہے کہ کسی صحابی سے آمین بالس رکہنابسند صحیح ثابت نہیں ہے اور بعض آثار جو آمین بالسر کے بارے میں منقول ہیں و ہ ضعیف ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب سوال دوم۔ احادیث سے صرف نماز جہری میں آمین بالجہار کہنا ثابت ہے اورنماز سری میں آمین بالجہرکہنا ثابت نہیں ہے ، اسی لیے آمین بالجہر نماز جہری کے ساتھ خاص کی گئی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ حررہ السید محمد عبدالحفیظ غفرلہ (سید محمد نذیر حسین)
بیشک حدیث متفق علیہ مذکور ہ سے صاف اور صیح طو رپرمقتدیوں کے واسطے آمین بالجہر ثابت ہے، امام بخاری نے مقتدی کے واسطے آمین بالجہر کے لیے باب بایں لفظ منعقد کیا ہے۔ باب جہر الماموم بالتامین اور اس باب میں اسی ابوہریرہؓ کی حدیث مذکور کو ذکر کیا ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:
’’زین بن منیر کہتے ہیں، کہ حدیث سے ترجمہ باب کی مناسبت کئی طرح سے ہے ،حدیث میں آمین کہنے کا حکم ہے اور قول کے ساتھ جب خطاب مطلق واقع ہو ، تو اسے جہر پرمحمول کیاجاتاہے اور اگر اس سے سرمراد ہو، تو اسےمقیدطور پربیان کیا جاتا ہے، دوسرا یہ کہ آپ نے قال کےمقابلہ میں قولوا فرمایا ہے اور جب قول ، قول کے مقابل ہو تو اس سے وہی کیفیت مراد ہوتی ہے جو پہلے کی ہو، تو جب امام ولاالضالین بلند آواز سے کہے گا تو آمین بھی بلند آواز سے ہوگی، تیسری یہ کہ قولوا کالفظ مطلق واقع ہوا ہے اور اس پرجہر کی صورت میں عمل ہوا ہے تو مطلق پر جب ایک صورت میں عمل ہوجائے تو وہ بالاتفاق دوسری صورت میں حجت نہیں رہتا چوتھی یہ کہ مقتدی کو امام کی اقتدا کا حکم ہے اور چونکہ امام جہرے سے قرأت کرتا ہے ، لہٰذا مقتدی بھی جہر سے آواز کہے گا اس پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ امام قرأت جہر سے کرتا ہے اور مقتدی جہر سے نہیں کرتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرأت بلند آواز سے نص صریح سے بند ہوگئی لیکن آمین چونکہ قرأت نہیں تھی وہ اپنے حال پرباقی رہی اور اس سے پہلے گذر چکا ہے کہ ابن زبیر اور ان کےمقتدی بلند آواز سے آمین کہتے تھے ۔ عطاء کہتےہیں کہ میں نے دو سو صحابہ کو اس مسجد میں بلند آواز سے آمین کہتے دیکھا ہے،مسجدکانپ جاتی تھی، امام شافعی کے نزدیک مقتدی بلند آواز سے آمین کہے، رافعی کہتے ہیں کہ اکثر اس مسئلہ میں دو قول بیان کرتے ہیں ان سے زیادہ صحیح یہ ہےکہ بلند آواز سے آمین کہے۔‘‘
[1] رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب امام غیر المغضوب علیہم ولاالضالین کہے تو تم آمین کہا کرو جس کا قول فرشتوں کے موافق ہوجائے گا اس کے پچھلے گناہ بخشے جائیں گے۔
[2] اس لیے کہ مطلق ایسے غلام کو شامل نہیں ہوگا جس میں نفع کی جنس مفقود ہو، ہمارے علماء نے کہا ہے کہ مطلق فرد کامل کی طرف پھرتا ہے۔
[3] ذہن کا مطلق سے فرد کامل کی طرف پھرنا ظاہربات ہے۔
[4] ہمارے اس مقام میں دو قاعدے ہیں ، ایک یہ کہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے اوردوسرا یہ کہ مطلق فرد کامل کی طرف پھرتا ہے ، پس پہلاتو صفات کے حق میں ہے،جیسے ایمان اور کر اور دوسرا ذات کے حق میں ہے جیسے نابینا ہونا وغیرہ۔
[5] عادل، عالم صحابی کا فعل حنفیوں اور حنبلیوں کے نزدیک حدیث مطلق کا مخصص ہے،برخلاف شافعیہ اور مالکیہ کے۔
[6] ابن زبیر اور ان کےمقتدیوں نے آمین کہی تو مسجد گو نج اٹھی، حضر ت ابوہریرہؓ امام کو آواز دیاکرتے تھے کہ مجھے آمین کہہ لینےدینا۔
[7] ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے سوال کیا،کیا عبداللہ بنزبیرؓ آمین کہا کرتے تھے کہا ہاں ، آپ کے مقتدی بھی آمین کہتے تھے تو مسجد گونج اٹھتی تھی ، پھر فرمایا کہ آمین دعا ہے اور فرمایا کہ ابوہریرہؓ مسجدمیں آتے اور جماعت کھڑی ہوچکی ہوتی تو امام کو آواز دیتے ’’میری آمین ضائع نہ کرنا ، عطاء کہتے ہیں کہ میں نےدو سو صحابہؓ کو اس مسجد میں اس حال میں دیکھا کہ جب امام ولاالضالین کہتا، تو ان کے آواز سےمسجد کانپ جاتی۔