کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نماز تراویح میں امامت لڑکے نابالغ کی اور ا س کے پیچھے تراویح جائز و درست ہے یا نہیں؟
نزدیک علماء و مشائخ شہر بلخ اور مصر و شام کے جائز و معمول بہ ہے اورعلمائے ماورا النہرکے نزدیک ناجائز ہے اور مضمرات میں فتویٰ جواز ہی پر دیا ہے یعنی روا اور درست ہے۔ اختلف[1] اصحابہ فی النفل فجوزوہ مشائخ بلخ و علیہالعمل عندھم و بمصر والشام و منعہ غیرھم وعلیہ العمل بماوراء النہر انتہی ما فی المرقاۃ شرح المشکوٰۃ لملاعلی القاری ، اورصحیح بخاری میں مذکور ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ایک لڑکا چھ سات برس کا فرضوں کی جماعت کراتا تھا امام بن کر ۔ واللہ اعلم بالصواب الراقم سید محمد نذیرحسین۔
اس لڑکے کانام عمرو بن سلمہ تھا اور اس کے پیچھے پڑھنے والے سب صحابہؓ تھے۔نیل الاوطار میں ہے ۔الذین قدموا عمر بن سلمۃ کانوا کلھم صحابہ قال ابن حزم ولا نعلم لہم مخالفا ، یعنی جن لوگوں نےعمر وبن سلمہ ؓ کو امام بنایاتھا وہ سب کے سب صحابہ تھے۔ ابن حزم نے کہا کہ ابن صحابہؓ کا کوئی مخالف معلوم نہیں ہوتا ، ابوداؤد اور احمد کی روایت میں اس لڑکے کایہ بیان ہے کہ فماشہدت مجمعا من جرم الا آنت امامہم یعنی قبیلہ جرم کے جس مجمع میں میں حاضر ہوتا تھا میں ہی اس مجمع کا امام ہوتاتھا، عمر وبن سلمہ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض نمازوں میں چھ سات برس کے لڑکے کی امامت جائز و درست ہے اور یہی مذہب ہے حسن بصری اور امام شافعی اور اسحق کا اور جب فرض نمازوں میں اس کی امامت اور اس کے پیچھے نماز کا پرھنادرست ہے تو تراویح میں اس کی امامت بدرجہ اولےٰ درست ہوگی اور امام احمد اور امام ابوحنیفہ سے دو روایتیں آئی ہیں اور مشہو رروایت ان دونوں اماموں سے یہ ہے کہ نوافل میں نابالغ لڑکے کی امامت درست ہے اور فرائض میں نا درست ، حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں : ’’حسن بصری،امام شافعی اور اسحاق بچےکی امامت کے قائل ہیں اور اماممالک و سفیان ثوری مکروہ سمجھتے ہیں اور امام ابوحنیفہ اور امام احمد سےدو روائتیں ہیں، مشہور یہ ہے کہ نفلوں میں جائز ہے، فرائص میں نہیں۔‘‘ کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ
[1] احناف نفلی نماز میں نابالغ کی امامت کے بارے میں مختلف ہیں ، بلخ،مصر اور شام کے مشائخ اس کو جائز کہتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں اورماورا النہر کے مشائخ اس کو درست نہیں سمجھتے۔