سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) قرأت فاتحہ خلف الامام فرض ہے یا نہیں؟

  • 5621
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1862

سوال

(114) قرأت فاتحہ خلف الامام فرض ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قرأت  فاتحہ خلف الامام فرض ہے یا نہیں اور حدیث قرأت کی اصح و اثبت ہے یا حدیث عدم قرأت کی۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرأت خلف الامام فرض ہے اور حدیث قرأت کی اعلیٰ درجہ کی صحیح و ثابت ہے اور حدیث عدم قرأت کی ضعیف وغیر صحیح ہے، بلوغ المرام میں ہے، عن عبادۃ بن الصامت قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا صلوۃ لمن لم یقرأ ایام القرآن متفق علیہ وفی روایۃ لابن حبان والدارقطنی لاتجزئ صلوۃ لا یقرأ فیہا بفاتحۃ الکتاب۔ یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ کہ  جس نے نماز میں  سورت فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں اور ابن حبان اور دارقطنی کی روایت میں ہے کہ جس نماز سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نماز کافی نہیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے عام طو رپر فرما دیا کہ جو شخص مقتدی ہو یا امام یا منفرد  نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ پس ثابت ہوا کہ ہر نمازی کے لیے سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے اور یہ حدیث متفق  علیہ ہے ۔ اس وجہ سے اعلیٰ درجہ کی صحیح ہے اور مقتدیوں کو خاص طور پر بھی سورت فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنے کو فرما دیا ہےچنانچہ ابوداد اور ترمذی وغیرہما میں عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے ک کچھ مت پڑھو، مگر سورت فاتحہ پڑھو، اس واسطے کہ جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں، یہ حدیث بھی صحیح ہے ، بہت سے محدثین نے اس کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔

اورجتنی حدیثیں قرأت فاتحہ خلف الامام کی ممانعت میں پیش کی جاتی ہیں ان میں جو حدیثیں صحیح ہیں ، ان سے ممانعت ثابت نہیں ہوتی اور جن سے ممانعت ثابت ہوتی ہے، وہ یا تو بالکل بے اصل ہیں یاضعیف و ناقابل احتجاج  ہیں، علمائے حنفیہ میں سے صاحب تعلیق الممجد نے اس کی تصریح کردی ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں ۔ لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراء ۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ما ذکروہ مرفوعا فیہ اما لا اصل لہ واما لا یصح (تعلیق الممجد صفحہ101) یعنی کسی حدیث مرفوع صحیح میں قرأت فاتحہ خلف امام  کی ممانعت نہیں وارد ہوئی ہے۔ اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جتنی مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یاتو وہ بے اصل ہیں یا صحیح نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ کوفہ والوں سے ایک قوم کے سوا باقی تمام لوگ قرأت فاتحہ خلف الامام کے قائل  وفاعل ہیں، عبداللہ بن مبارک جوبہت بڑے محدث اور فقیہ ہیں، فرماتے ہیں ۔ انااقرأ خلف الامام والناس یقرؤن الاقوم من الکوفیین (جامع الترمذی صفحہ 59) یعنی میں امام کے پیچھے قرأت کرتا ہوں اور تمام لوگ امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں، مگر کوفہ والوں میں سے ایک قوم اور خود علمائے حنفیہ میں سےبعض لوگوں نے ہرنماز میں(سری ہوخواہ شہری ) قرأت فاتحہ خلف امام کو مستحسن بتایا اور بعض لوگوں نےصرف نماز سری میں علامہ عینی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں: بعض اصحابنا یستحسنون ذلک علی سبیل الاحتیاط فی جمیع الصلوات و بعضہم فی السریۃ فقط و علیہ فقہاء الحجاز والشام انتہی  واللہ تعالیٰ اعلم۔ کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفی عنہ                           (سید محمد نذیرحسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے